کراچی ایئرپورٹ کے رن وے کو روزانہ 3 گھنٹے تک بند رکھنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
رن وے بندش کے دوران وی وی آئی پی پروازوں یا ہنگامی لینڈنگ کی صورت میں دستیاب ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے کو روزانہ تین گھنٹے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری نوٹم کے مطابق کراچی ائیرپورٹ کا ایک رن وے 20 روز کیلئے روزانہ 3 گھنٹے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نوٹم کے مطابق رن وے 7 آر، 25 ایل طیاروں کے نئے ٹیکسی وے کی تعمیر کیلئے 5 تا 24 نومبر بند رہے گا۔ رن وے بندش کے دوران وی وی آئی پی پروازوں یا ہنگامی لینڈنگ کی صورت میں دستیاب ہوگا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ٹریک کی خستہ حالی، ٹرین مسافروں کا 12 گھنٹے انتظار میں گزر جاتے ہیں
پاکستان ریلوے سے سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں کے 3 سے 12 گھنٹے اسیٹنشن پر اپنی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ریلویز کی ریل گاڑی ہو یا آؤٹ سورس ہونے والی ٹرین، اس کے مسافروں کی تعداد میں ائے روز اضافہ تو ہو رہا ہے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سفری سہولیات پہنچانے کے لیے ریلوے انتظامیہ ریلوے اسٹیشن اور گاڑیوں کی اپ گریڈیشن پر تو زور دے رہی ہے۔
ان ٹرینوں کے شیڈول میں تاخیر اور بروقت روانگی کیلیے انتظامیہ نے اقدامات کیے تاہم سب رائیگاں گئے ہیں، ان کے تمام تر اقدامات کے باوجود تاخیر در تاخیر ہو رہی ہے۔
ریلوے ٹریک کی خستہ حالی کے باعث ٹرینوں کے تمام ڈرائیورز کو روانگی سے قبل ریلوے انجینیئرز کی طرف سے اسپیڈ کم سے کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں اور ٹرینیں اپنی اصل رفتار 100 سے 110 کے بجائے 50 سے 55 اور کہیں 60 سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان سفر کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسافروں کے ریلوے اسٹیشن بروقت پہنچنے کے باوجود ریلوے اسٹیشن پر گاڑیوں کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے بلا وجہ بیٹھنا پڑتا ہے۔
پاکستان ریلوے کے پاس کراچی سے پشاور تک 1872 کلومیٹر سے زائد کا ریلوے ٹریک ہے، جس میں سے ساڑھے 800 سے زائد ریلوے ٹریک صرف کراچی، سکھر اور حیدرآباد ڈویژن میں ہے، ٹریک کی خستہ حالی کی وجہ سے یہاں پر گاڑیوں کی اوسط رفتار بھی 55 سے 60 کے درمیان رہتی ہے۔
مجموعی طور پر کراچی سکھر حیدراباد یعنی کہ سندھ میں سفر کرنے والے مسافروں کو 10 گھنٹے سے لے کر 12 اور بعض اوقات 13 سے 14 گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ لاہور، ملتان، پشاور اور راولپنڈی کے مسافروں کو تین سے پانچ گھنٹے اور بعض اوقات پانچ سے چھ گھنٹے بھی انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔
انجینئر کی طرف سے عائد حد رفتار کی پابندی کی وجہ سے ڈرائیور مقررہ اسپیڈ سے زیادہ تیز گاڑی نہیں چلا سکتے، یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کی آمد و رفت میں تاخیر ہوتی ہے۔
مسافر ٹرینوں کی تاخیر کے باعث مال بردار ٹرینوں کو بھی سامان لے جانے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ مال بردار ریل گاڑیاں بھی کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر سے منزل مقصود پر پہنچ رہی ہیں۔
عامر طفیل، رضا گیلانی، شہباز پراچہ اور آفاق احمد مسافر ہیں جنہوں نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیملیز کے ہمراہ سفر کرنا ہوتا ہے اور ٹرین سے بہتر سفر کسی اور ٹرانسپورٹ میں ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کاہ کہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ مہنگا ہے ٹرین کا سفر سستے کے ساتھ آرام دہ بھی ہے مگر جو ریلوے اسٹیشن آکر گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے وہ کسی اذیت سے کم نہیں۔
مسافروں نے کہا کہ ریلوے انتظامیہ نے ویٹنگ ایریا اچھے بنا دیے، ٹرینیں بھی اچھی اور سہولیات بہتر ہوگئی ہیں مگر کچھ رقم ٹریک پر بھی لگا دیں تو بروقت پہنچنے میں آسانی ہوگی کیونکہ سفر کی سب سے بڑی اذیت تاخیر ہے۔
ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سسٹم کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ٹرینوں کی آمد و رفت کو بروقت بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں، مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے کراچی ڈویژن میں جلد سے جلد ٹریک کی بحالی کا کام شروع ہو جائے گا۔