عالمی معیشت کا نیا موڑ: نمو کی رفتار، سیاست کے دباؤ میں
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251025-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
عہد ِ حاضر میں معیشت کا عالمی منظرنامہ ایک ایسی نازک کیفیت کا سامنا کررہا ہے کہ جہاں بظاہر اقتصادی و مالیاتی استحکام کی جھلک تو دکھائی دیتی ہے، مگر دراصل اندرونی کمزوریوں اور علاقائی و بین الاقوامی کشیدگیوں نے پس ِ پردہ خطرات کی لکیریں واضح کر دی ہیں۔ عالمی نمو کی رفتار کم ہورہی ہے، مالیاتی نظام پر دبائو بڑھ رہا ہے، تجارت کی راہیں ٹوٹ رہی ہیں، اسی اثنا میں بیرونِ ملک و اندرونِ ملک جغرافیائی سیاست نئے خطوط پر استوار ہورہی ہے۔ یہاں ہم تین اہم زاویوں اقتصادی و معاشی پس منظر، معاشرتی و تجارتی رْخ، اور سیاسی و سفارتی تناظر کے ذریعے اس صورتِ حال کا جائزہ لیں گے اور پھر مستقبل کی سمت اور امکانات پر غور کریں گے۔ پہلے اقتصادی پس منظر کی طرف دیکھیں تو آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت کی نمو کا اندازہ 2025ء کے لیے تقریباً 3.
تجارت کا باب بھی تسلی بخش نظر تو آتا ہے مگر اس میں پس منظر کی تشویش موجود ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے بتایا ہے کہ 2025ء میں اشیائے تجارت میں حجم کے لحاظ سے نمو 2.4 فی صد ہونے کا امکان ہے، لیکن 2026ء میں یہ صرف 0.5 فی صد تک کم ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ تجارت نے عارضی سہارا حاصل کیا ہے بڑے حصے میں خریداروں کی جلدِ خریداری (front-loading) اور ’اے آئی‘ سے متعلق سرمایہ کاری کی وجہ سے مگر اگلے مرحلے میں پالیسی عدم استحکام، تجارتی رکاوٹیں، گلوبل سپلائی چین کی کسافت اور سرمایہ کاری کی سست روی تجارت کو محدود کر سکتی ہیں۔
دوسری جانب، معاشرتی اور تجارتی شعبوں میں آنے والی تبدیلیاں بھی اہم ہیں۔ ایک جانب، صارفین اور کاروباری اعتماد کم ہورہا ہے، خاص طور پر مغربی معیشتوں میں، جہاں عمر رسیدہ آبادی، کم پیداواریت، سیاستی الجھنیں اور تحفظ پسند ترجیحات نے رفتار کو گھٹا دیا ہے۔ اس کے ساتھ علاقائی امیر اور ترقی پذیر معیشتیں کمزور مالیاتی ڈالر کے باعث اٹھ کھڑی ہوئی ہیں مگر طویل مدتی استحکام کے لیے ان پر بھی قرضوں، کرنسی عدم مطابقت، اور بیرونی سرمایہ کار پر انحصار جیسے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ مالیاتی مارکیٹیں فی الحال ہلکی سی لچک دکھا رہی ہیں لیکن ماہرین کا متفقہ خیال ہے کہ یہ لچک سطحی ہے اور کسی بڑے جھٹکے کے وقت بنیادیں کمزور ثابت ہوسکتی ہیں۔
تیسری سطح پر ہم عالمی سیاسی اور سفارتی تناظر دیکھتے ہیں۔ کونسل آن فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق 2025ء میں وہ تنازعات جنہیں ’’بڑھا امکان اور بڑا اثر‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے، مڈل ایسٹ، یورپ روسیہ، اور بحرالکاہل کے تنگ راستے شامل ہیں۔ مثلاً غزہ کی ناقابل اعتبار سیاسی و عسکری صورتحال، یوکرین میں کشیدگی، اور سائوتھ چائنا سی اور آبنائے تائیوان کے محاذ پر خطرات نمایاں ہیں۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی اداروں کے اندر اعتماد کم ہوتا جارہا ہے، مثلاً اقوام متحدہ سے جڑی تنقید نے بازو کمزور کیے ہیں کہ وہ انسانی حقوق، امن اور استحکام کے معاملات میں مناسب کردار ادا نہیں کر پا رہی۔ ان اقتصادی اور سیاسی دونوں رخوں کا اتصال اہم ہے۔ مثال کے طور پر، اگر امریکا نے امیگریشن، تجارتی رکاوٹوں یا ٹیکس پالیسیوں میں سختی اختیار کی، تو اس کا اثر عالمی لیبر مارکیٹ، سرمایہ کاری، اور نقل و حرکت پر پڑے گا جیسا کہ آئی ایم ایف نے امریکی امیگریشن کی سرگرمی پر خبردار کیا ہے کہ اس سے جی ڈی پہ 0.3 تا 0.7 فی صد تک کم ہوسکتا ہے۔
یہ تمام حقائق ہمارے لیے دو اہم سبق رکھتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی کمزوریاں اور عالمی شِکست ناپید محسوس ہونے والی تاہم موجود ہے۔ نمو کی رفتار سست ہوچکی ہے، خطرے کا توازن ہمیشہ سے منفی سمت میں ہے، اور اگر پالیسیاں بروقت نہ بنائی گئیں تو نہ صرف معاشی بلکہ سماجی انتشار کا بھی خطرہ ہے۔ مثال کے طور پر، معیشتی پالیسیوں کا غیر شفاف ہونا، قومی قرضوں کا بڑھنا، مالیاتی اداروں کی نگرانی کا کمزور ہونا، اور تجارتی تناؤ کا بڑھنا یہ وہ عوامل ہیں جو استحکام کو کمزور کرتے ہیں۔
آئیں اب اس کْل منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے امکانات پر غور کریں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر عالمی سطح پر تعاون کم رہا، تو تحفظ پسند تجارتی اقدامات مزید بڑھ سکتے ہیں، جو عالمی سپلائی چینز کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ سکتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ترقی پذیر معیشتوں کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مالیاتی صدمے کا خطرہ نمایاں ہے اگر بانڈ منڈیوں میں مندی آئی، یا کرنسیوں میں اچانک فلک شگاف تبدیلی آئے، تو بین الاقوامی مالیاتی نظام رکاوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں، مرکزی بینکوں، مالیاتی نگرانی کے اداروں اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے۔
تیسری بات داخلی اور خارجہ پالیسیوں کا ہم آہنگ ہونا ہے۔ ممالک کو چاہیے کہ وہ صرف عارضی اقدامات پر انحصار نہ کریں بلکہ طویل المدتی اصلاحات جیسے کہ پیداواریت میں اضافہ، عمر رسیدہ آبادی کا حل، لیبر مارکیٹ کی لچک، ٹیکنالوجی اور اے آئی کے استعمال کو فروغ دیں۔ معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اشتراکی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ چوتھا اور آخری امکان یہ ہے کہ معاشرتی بغاوتوں اور سیاسی کشیدگیوں کا دائرہ مزید وسیع ہوسکتا ہے۔ جب عوام کو محسوس ہو کہ معیشت سست ہے، روزگار دستیاب نہیں، اور حکمران ادارے جوابدہ نہیں، تو سماجی انتشار کا امکان بڑھ جاتا ہے اور ایسے وقت میں بیرونی محاذ پر تنازعات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ عصر حاضر کا عالمی منظرنامہ ایک دو لچھے کرتب پر چل رہا ہے آگے کی سمت واضح ہے کہ ٹھیک سمت پر ہے مگر راستہ سخت ہے۔ عالمی معیشت کی کارکردگی مایوس کن نہیں، لیکن وہ اپنی رفتار کھو چکی ہے، تجارت اور مالیاتی نظام نے وقتی استحکام دکھایا ہے، مگر جھٹکوں کی گنجائش بڑھ چکی ہے، سیاسی ماحول میں تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں، لیکن ادارہ جاتی ردعمل ابھی کمزور ہے۔ اگر حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور معاشروں نے مل کر پالیسیاں ترتیب نہ دیں، تعاون کو فروغ نہ دیں، تو یہ دنیا ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوسکتی ہے جہاں معاشی سست روی، تجارتی تقسیم، مالیاتی جھٹکے اور جغرافیائی کشیدگیاں باہم مل جائیں۔ اسی لیے، اس نازک اور تقابلی موڑ پر ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ’’مسائل‘‘ کی شناخت کریں بلکہ ’’حل‘‘ کے لیے سمتیں بھی قائم کریں، اور یہ سمتیں معاشی، سماجی، اور سیاسی تینوں جہتوں میں متوازن ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اور سیاسی کے لیے
پڑھیں:
پولینڈ کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں، صدر مملکت
اسلام آباد:صدرمملکت آصف علی زرداری نے پولینڈ کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پولینڈ کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات مزید مضبوب بنانے کا خواہاں ہے۔
پولینڈ کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ رادوسواف شکورسکی نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے ایوان صدر میں ملاقات کی، پولینڈ کے سفیر میچی پسارسکی اور وزارت داخلہ و انتظامیہ کے انڈر سیکریٹری میچی دشچک بھی وفد میں شامل تھے جبکہ پاکستان کی طرف سے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سیکریٹری خارجہ بھی شریک تھے۔
ملاقات کے دوران دونوں فریقین نے تعلیم، دفاع اور عوامی تبادلے کے فروغ پر بھی تبادلہ خیال کیا، صدر آصف علی زرداری نے یورپی یونین میں جی ایس پی پلس پر پاکستان کی حمایت پر پولینڈ کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر دو طرفہ طور پر پاکستان اور پولینڈ کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
صدر مملکت نے پولینڈ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو باہمی احترام اور تعاون پر مبنی قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی روابط مزید فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان اور پولینڈ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
صدرمملکت نے پولینڈ کی کمپنیوں کو خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور خطے میں امن، استحکام اور معاشی رابطوں کے فروغ میں پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا۔