اگر مذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر افغانستان کیساتھ ہماری کھلی جنگ ہے: وزیر دفاع
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے اگر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔
سیالکوٹ میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا ہماری افواج اور پولیس اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں، ہم اور آپ اس لیے چین سے سوتے ہیں کہ آپ کے محافظ جاگ رہے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ہم نے 40 سال تک افغانوں کی مہمان نوازی کی، دوحہ میں جن سے بات کر رہے تھے وہ سارے پاکستان میں جوان ہوئے، سمجھ نہیں آتا کہ اتنی مہمان نوازی کے باوجود افغانستان کا ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں ہے، افغانستان ہمارے خلاف بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا افغان مہاجرین نے روزگار اور کاروبار پر قبضہ کیا ہوا ہے، ہمارا صرف ایک ایجنڈا ہونا چاہیے کہ ہم اخوت کے ساتھ ہمسائے کے ساتھ رہیں، پچھلے 4، 5 روز سے کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، اگر مذاکرات سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر افغانستان کیساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ میں مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے، جس میں قطر میں ہونے والے مذاکرات میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں سیز فائر ہوئی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی سرحدوں کے احترام کی بات طے پائی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دوحا مذاکرات کا مستقبل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251023-03-2
حالیہ جنگ اور کشیدگی کے ماحول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں ہونے والی ملاقات اور مذاکرات کا عمل یقینی طور پر ایک اہم پیش رفت سمجھی جانی چاہیے۔ کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور مذاکرات ہی کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ چین سعودی عرب ترکی اور قطر کی مشترکہ حمایتی حکمت عملی نے دوحا مذاکرات کے عمل کو یقینی بنایا۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی نے ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے نکات پر عمل درآمد کی ضمانت دی ہے۔ کیونکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان افغانستان کے درمیان جو بداعتمادی ہے اس میں کسی تیسرے ملک کی ضمانت کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان نے ان مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہوگی تو مذاکرات اور معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار افغانستان کے جواب پر منحصر ہوگا۔ پاکستان کا موقف ہے افغانستان کو زیادہ ذمے داری کے ساتھ پاکستان کے تحفظات کو اور بالخصوص ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنی پالیسی کو واضح کرنا ہوگا اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے لیے اس کی داخلی سلامتی اور سیکورٹی زیادہ عزیز ہے اور اس پر سمجھوتا کرنا پاکستان کو حالت جنگ میں رکھنے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان کو افغانستان پر اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ اس کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان دشمنی پر مبنی بن رہے ہیں جو پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ طالبان کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالے اور پاکستان کو غیر مستحکم رکھے۔ افغان طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بھارت سے اس کے تعلقات کی نوعیت پاکستان دشمنی پر مبنی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔ خطے کی سیاست کے لیے نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔ اسی ماہ اکتوبر میں استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ان مذاکرات کی حتمی تفصیلات سامنے آئیں گی اور پھر اندازہ ہو سکے گا کہ یہ معاہدہ کیا ہے اور کس حد تک اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو پھر مذاکرات اور اس کی اہمیت بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ مسائل کا حل نہیں ہو سکتی اور مسائل کا حل بات چیت کی مدد سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اپنی موثر حکمت عملی کے ساتھ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا اور یہ کہ اس سوچ سے گریز کرنا ہوگا کہ پاکستان مسئلے کا حل صرف جنگ کے ذریعے چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے تناظر میں جنگ میں الجھے اور اس کے تناظر میں اس کا داخلی استحکام کمزور ہو۔ اسی لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہوشیار رہنا ہوگا اور جنگ سے بچ کر چلنے کی پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ جنگ پاکستان کے لیے آخری آپشن ہونا چاہیے اور اس سے پہلے سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ کو بنیاد بنا کر ہی آ گے بڑھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب بڑی طاقتیں ان دونوں ممالکوں کے درمیان بڑی ثالثی کا کردار ادا کریں۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سیاسی تنہائی میں حل نہیں ہو سکیں گے اور اس کے لیے معاملات کے حل میں بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اسی طرح ان مذاکرات کا مقصد محض جنگ بندی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور امن کا راستہ اختیار کیا جائے۔ پاکستان ایک ہی وقت میں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات خراب رکھ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس سلسلے میں جہاں پاکستان کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہے وہیں خود افغان طالبان پر بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ افغانستان کو یہ بھی کوشش کرنی ہوگی کہ وہ خود کو پاکستان کے ساتھ جوڑے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان دشمنی پر نہ رکھے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ بھارت اسے پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ خود افغانستان کا داخلی سیاسی استحکام پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہی اس کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
پاکستان اس وقت داخلی سطح پر جو سنگین سیکورٹی اور دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہے اور اس سے صوبہ خیبر پختون خوا دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں اور ٹی ٹی پی نے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ ایسے میں افغانستان کی حکومت کا ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ اس وقت پاکستان کی ضرورت بنتی ہے کہ وہ افغانستان کو مذاکرات کے ساتھ جوڑے رکھے اور اس عمل کو یقینی بنائے کہ مسائل کا حل مذاکرات کی مدد سے ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے داخلی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ افغانستان کے ساتھ حکمت عملی میں اتفاق رائے پیدا ہو اور سیاسی تقسیم سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اس سیاسی تقسیم کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے پاکستان کو زیادہ تحمل اور بردباری سے اپنے فیصلے کرنے ہوں گے اور ساتھ ساتھ اپنے داخلی مسائل کا علاج بھی تلاش کرنا ہوگا اور یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا کہ سیکورٹی اور دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ہمارے اپنے داخلی مسائل سے بھی ہے۔ محض دوسروں پر الزام لگا کر ہم اپنا دامن نہیں بچاسکیں گے۔