میرا موازنہ اُروشی روٹیلا سے نہ کریں، میں ان کی طرح جھوٹ نہیں بولتی: راکھی ساونت
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
بالی ووڈاداکارہ راکھی ساونت کا کہنا ہے، میرا موازنہ شکیرا، کم کارڈیشین، جینیفر لوپیز سے کریں، اُروشی روٹیلا سے نہیں، میں ان کی طرح جھوٹ نہیں بولتی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق راکھی ساونت نے اداکارہ اُروشی روٹیلا سے اپنا موازنہ کیے جانے پر غصے کا اظہار کیا ہے اور اپنے نئے گانے ’ضرورت‘ کی تشہیری تقریب کے دوران اپنے مہنگے زیورات کی نمائش بھی کی ہے۔
اداکارہ فی الحال اپنے حالیہ گانے کی تشہیر میں مصروف ہیں، ایک تشہیری تقریب کے دوران وہ اپنے زیورات کی نمائش کرتی ہوئی نظر آئیں، جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مالیت 70 کروڑ روپے ہے۔
تقریب کے دوران راکھی ساونت نے لہنگا چولی زیبِ تن کیا ہوا تھا، جس کے ساتھ انہوں نے سنہری ہیڈ پیس اور چمکدار چاندی کا ہار پہنا ہوا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہیڈ پیس کی قیمت 50 کروڑ روپے اور ہار کی قیمت 20 کروڑ بھارتی روپے ہے۔
بالی ووڈ اداکارہ اروشی روٹیلا سے اپنا موازنہ کیے جانے پر راکھی ساونت نے غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اُروشی روٹیلا کی طرح جھوٹ نہیں بولتی۔
راکھی ساونت نے اُروشی روٹیلا سے کسی بھی مقابلے کو رد کر تے ہوئے کہا کہ آپ میرا موازنہ برٹنی اسپیئرز، جینیفر لوپیز، شکیرا، پیرس ہلٹن اور کم کارڈیشن سے کریں، آپ کو گِھسا پٹا بس ایک ہی نام مل جاتا ہے، مجھے پتہ ہے کہ ان کا گانا عبیدی دابیدی تھا، لیکن وہ دابیدی دابیدی ہو گیا۔
اسی دوران اچانک ایک لائٹ بند ہو گئی تو راکھی نے برجستہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ گانا اتنا منحوس تھا؟
واضح رہے کہ اروشی روٹیلا کو اکثر سوشل میڈیا پر اپنے زیورات اور مہنگے لباس کی نمائش کرتے دیکھا جاتا ہے، اس سال جنوری میں انہیں اپنی فلم ’ڈاکو مہاراج‘ کے ایک تشہیری انٹرویو کے دوران سیف علی خان کے لیے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ہیرے کی گھڑی دکھانے پر ٹرول کیا گیا تھا، جبکہ 2024ء میں انہیں اپنی سالگرہ پر 24 قیراط سونے کا کیک کاٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
راکھی کا نیا گانا ’ضرورت‘ رومانوی گیت ہے جسے سیف علی نے گایا اور کمپوز کیا ہے، جبکہ بول آیوش کے ہیں، اس گانے میں راکھی اداکار شہباز خان کے ساتھ رومانس کرتی نظر آ رہی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا روشی روٹیلا سے راکھی ساونت نے کے دوران
پڑھیں:
آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
کل اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ پر ڈیوٹی پر موجود ہونہار اور لائق پولیس افسر عدیل اکبر کے ہاتھوں سے چلنے والی گولی کی گونج نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔
کوئی کیسے اپنی جان لے لیتا ہے؟ کوئی اپنے ساتھیوں، اپنے پیاروں اور ایک بار ملنے والی زندگی سے یوں منہ کیسے موڑ لیتا ہے؟
ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ ہشاش بشاش، مسکراتا ہوا اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ماتحتوں کو چوکس رہنے کا کہہ رہا تھا، فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکا جانے کی تیاری بھی کرنا ہوگی، بیٹی کو مرضی کے گفٹ دلانے کی فکر بھی ہوگی، خواب دیکھنے والی آنکھیں کیوں بجھ جاتی ہیں؟
سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں ہیں، تحقیقات کے بعد حتمی رائے دینے کا حق صرف پولیس کو ہے۔
لیکن ہم جذباتی سے لوگ ہیں، سوچتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
سوچتے ہیں کہ عدیل کی گولی کی آواز نے تو گونج پیدا کی لیکن ایسی کئی آنکھیں جو ڈپریشن، ذہنی دباؤ کے باعث خاموشی سے بجھ گئیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہونے پائی کہ کس کرب سے دوچار تھیں وہ۔ ان کی بات کون کرے گا؟
سول سروس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت بات ہوئی، شاید اس لیے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹس وہ خوش نصیب ہیں کہ جن کو معاشرے میں من چاہا مقام مل گیا، سو ان کی زندگی میں خلا ممکن ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہے۔ قطعاً نہیں۔
بات یوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کمزور ہے، اس لیے ہر شخص اپنے وجود کی ضمانت کسی طاقتور طبقے سے وابستگی میں ڈھونڈتا ہے۔
نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ یا تو ملک چھوڑنے کا خواب دیکھتا ہے یا سول سروس اور سرکاری نوکری کی پناہ میں آنا چاہتا ہے، جہاں اسے طاقت، تقویت، عزت، تحفظ اور استحکام کی امید ہوتی ہے۔
لیکن جیسے زندگی میں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسے ہم چاہتے ہیں یا سوچتے ہیں، بالکل اسی طرح سول سروس میں بھی ہر مرحلے پر توقعات اور حقیقت کا ایک بڑا خلیج ہمارا منتظر رہتا ہے۔
تنخواہیں کم، دباؤ زیادہ، فیملی، خاندان اور سوسائٹی کی توقعات بے کنار۔
یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اکثر افسران اپنا nerve testing exam دے کر ہی آئے ہیں، لیکن سول سروس پاس کرنے کے بعد پہاڑ سی زندگی میں روز اس سے بڑا اور بُرا امتحان دینا پڑتا ہے۔ کبھی محنت کی داد نہ ملنے پر، کبھی اپنی معمولی غلطی کی کڑی سزا ملنے پر، کبھی کسی اور کی غلطی کی سزا کاٹنے پر اور کبھی مختلف یا زیادہ ذہین انسان ہونے پر۔
بہت سوں کو بیوروکریسی ایک خواب لگتی ہے، اختیار، مراعات، عزت۔
مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو وہی بنیادی مسائل: کبھی دفتری، کبھی معاشی، کبھی خانگی، کبھی جذباتی، کبھی معاشرتی اور کبھی یہ تمام مل کر آہستہ آہستہ اس شعلے کو مدھم کردیتے ہیں جس نے کبھی سوچا تھا کہ اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا۔
جیسے ماں باپ اپنے زخم اولاد کو منتقل کرتے ہیں، ایسے ہی بیوروکریسی میں بھی وہ سینیئرز جن کی پروموشن نظام کی کرامت کی بدولت ہوگئی اور خود بڑے نہ ہوسکے، وہ اپنے ماتحتوں کے لیے خوف کی فضا قائم رکھتے ہیں اور ناروا سلوک کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے دفتر بدتمیزی اور سختی سے ہی چلتا ہے کیونکہ ان کے بڑوں نے ان سے ایسے ہی کیا تھا۔
اکثر آپ چاپلوس اور وفادار لوگوں کو لائق لوگوں پر حاوی پائیں گے۔
دفاتر میں empathy کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، خاموشی کو پیشہ ورانہ مہارت۔ ذہنی صحت پر بات کرنا ہی taboo ہے۔
اس لیے کبھی کبھی وہی افسر جو دوسروں کے لیے فیصلے لکھتا ہے، کبھی اپنی زندگی کے فیصلے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
وفاداری میرٹ کھا گئی، ڈسپلن احساس کھا گیا، اور کئی افسران کو ذہنی تناؤ کھا گیا۔
جہاں سننے والا کوئی نہیں، وہاں بولنے والا کب تک زندہ رہے گا؟
ذہنی صحت کو ہمارے یہاں سرے سے کسی کھاتے میں نہیں رکھا جاتا۔
بس سب دوڑ رہے ہیں۔۔۔ کس طرف کو، کوئی نہیں جانتا۔
ایسی افراتفری میں اگر تھوڑی دیر کو خاموشی ہوتی ہے تو صرف عدیل جیسے ہی کسی ہونہار لڑکے کے پستول کی گولی کی آواز سے۔
اس تازہ خاموشی میں آئیں، پھر سے خواب دیکھیں۔۔۔۔
طبقاتی قانون کے خاتمے کا خواب، ذہنی مسائل پر بات کرنے والے، اسے قبول کرنے والے دفتری ماحول کا خواب، نوجوانوں کے لیے چھوٹے بزنس میں بہتر مواقع کا خواب، سول سروس میں حقیقت پسند توقعات کا خواب۔
آئیں خواب دیکھیں مگر پہلے ان خوابوں کے لیے جاگنا بھی سیکھیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں