حیدر آباد میں اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکنِ قومی اسمبلی وسیم حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم سڑکوں پر آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ افراتفری پھیلا رہے ہیں، بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے مطالبہ ہے کہ کرپٹ میئر کو نکال باہر کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ ایم کیو ایم پاکستان کے اراکینِ اسمبلی نے کہا ہے کہ ڈینگی کے حملے سے حیدرآباد شہر کا کوئی فرد محفوظ نہیں، ڈینگی سے اموات پر سرکاری سطح پر کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ حیدر آباد میں اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکنِ قومی اسمبلی وسیم حسین نے کہا کہ ہر گھر میں 2 سے 3 افراد ڈینگی کا شکار ہیں، شہر میں اگر اسپرے نہیں ہو رہا تو یہ ایچ ایم سی کی ذمے داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سڑکوں پر آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ افراتفری پھیلا رہے ہیں، بلاول بھٹو اور آصف زرداری سے مطالبہ ہے کہ کرپٹ میئر کو نکال باہر کیا جائے۔ وسیم حسین نے کہا کہ میئر کاشف شورو سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں، میئر اور ان کی پوری ٹیم کرپشن میں ملوث ہے۔ اس موقع پر موجود رکنِ سندھ اسمبلی راشد خان نے کہا کہ ہر یوسی چیئرمین کو پہلی تاریخ کو 12 لاکھ روپے ملتے ہیں، کس جماعت کا یوسی چیئرمین اسپرے نہیں کروا رہا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایم کیو ایم نے کہا کہ

پڑھیں:

آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے

کل اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ پر ڈیوٹی پر موجود ہونہار اور لائق پولیس افسر عدیل اکبر کے ہاتھوں سے چلنے والی گولی کی گونج نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔

کوئی کیسے اپنی جان لے لیتا ہے؟ کوئی اپنے ساتھیوں، اپنے پیاروں اور ایک بار ملنے والی زندگی سے یوں منہ کیسے موڑ لیتا ہے؟

ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ ہشاش بشاش، مسکراتا ہوا اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ماتحتوں کو چوکس رہنے کا کہہ رہا تھا، فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکا جانے کی تیاری بھی کرنا ہوگی، بیٹی کو مرضی کے گفٹ دلانے کی فکر بھی ہوگی، خواب دیکھنے والی آنکھیں کیوں بجھ جاتی ہیں؟

سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں ہیں، تحقیقات کے بعد حتمی رائے دینے کا حق صرف پولیس کو ہے۔

لیکن ہم جذباتی سے لوگ ہیں، سوچتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

سوچتے ہیں کہ عدیل کی گولی کی آواز نے تو گونج پیدا کی لیکن ایسی کئی آنکھیں جو ڈپریشن، ذہنی دباؤ کے باعث خاموشی سے بجھ گئیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہونے پائی کہ کس کرب سے دوچار تھیں وہ۔ ان کی بات کون کرے گا؟

سول سروس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت بات ہوئی، شاید اس لیے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹس وہ خوش نصیب ہیں کہ جن کو معاشرے میں من چاہا مقام مل گیا، سو ان کی زندگی میں خلا ممکن ہی نہیں۔

ایسا نہیں ہے۔ قطعاً نہیں۔

بات یوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کمزور ہے، اس لیے ہر شخص اپنے وجود کی ضمانت کسی طاقتور طبقے سے وابستگی میں ڈھونڈتا ہے۔

نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ یا تو ملک چھوڑنے کا خواب دیکھتا ہے یا سول سروس اور سرکاری نوکری کی پناہ میں آنا چاہتا ہے، جہاں اسے طاقت، تقویت، عزت، تحفظ اور استحکام کی امید ہوتی ہے۔

لیکن جیسے زندگی میں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسے ہم چاہتے ہیں یا سوچتے ہیں، بالکل اسی طرح سول سروس میں بھی ہر مرحلے پر توقعات اور حقیقت کا ایک بڑا خلیج ہمارا منتظر رہتا ہے۔

تنخواہیں کم، دباؤ زیادہ، فیملی، خاندان اور سوسائٹی کی توقعات بے کنار۔

یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اکثر افسران اپنا nerve testing exam دے کر ہی آئے ہیں، لیکن سول سروس پاس کرنے کے بعد پہاڑ سی زندگی میں روز اس سے بڑا اور بُرا امتحان دینا پڑتا ہے۔ کبھی محنت کی داد نہ ملنے پر، کبھی اپنی معمولی غلطی کی کڑی سزا ملنے پر، کبھی کسی اور کی غلطی کی سزا کاٹنے پر اور کبھی مختلف یا زیادہ ذہین انسان ہونے پر۔

بہت سوں کو بیوروکریسی ایک خواب لگتی ہے، اختیار، مراعات، عزت۔

مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو وہی بنیادی مسائل: کبھی دفتری، کبھی معاشی، کبھی خانگی، کبھی جذباتی، کبھی معاشرتی اور کبھی یہ تمام مل کر آہستہ آہستہ اس شعلے کو مدھم کردیتے ہیں جس نے کبھی سوچا تھا کہ اک خاشاکِ عالم پھونک ڈالے گا۔

جیسے ماں باپ اپنے زخم اولاد کو منتقل کرتے ہیں، ایسے ہی بیوروکریسی میں بھی وہ سینیئرز جن کی پروموشن نظام کی کرامت کی بدولت ہوگئی اور خود بڑے نہ ہوسکے، وہ اپنے ماتحتوں کے لیے خوف کی فضا قائم رکھتے ہیں اور ناروا سلوک کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے دفتر بدتمیزی اور سختی سے ہی چلتا ہے کیونکہ ان کے بڑوں نے ان سے ایسے ہی کیا تھا۔

اکثر آپ چاپلوس اور وفادار لوگوں کو لائق لوگوں پر حاوی پائیں گے۔

دفاتر میں empathy کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، خاموشی کو پیشہ ورانہ مہارت۔ ذہنی صحت پر بات کرنا ہی taboo ہے۔

اس لیے کبھی کبھی وہی افسر جو دوسروں کے لیے فیصلے لکھتا ہے، کبھی اپنی زندگی کے فیصلے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔

وفاداری میرٹ کھا گئی، ڈسپلن احساس کھا گیا، اور کئی افسران کو ذہنی تناؤ کھا گیا۔

جہاں سننے والا کوئی نہیں، وہاں بولنے والا کب تک زندہ رہے گا؟

ذہنی صحت کو ہمارے یہاں سرے سے کسی کھاتے میں نہیں رکھا جاتا۔

بس سب دوڑ رہے ہیں۔۔۔ کس طرف کو، کوئی نہیں جانتا۔

ایسی افراتفری میں اگر تھوڑی دیر کو خاموشی ہوتی ہے تو صرف عدیل جیسے ہی کسی ہونہار لڑکے کے پستول کی گولی کی آواز سے۔

اس تازہ خاموشی میں آئیں، پھر سے خواب دیکھیں۔۔۔۔

طبقاتی قانون کے خاتمے کا خواب، ذہنی مسائل پر بات کرنے والے، اسے قبول کرنے والے دفتری ماحول کا خواب، نوجوانوں کے لیے چھوٹے بزنس میں بہتر مواقع کا خواب، سول سروس میں حقیقت پسند توقعات کا خواب۔

آئیں خواب دیکھیں مگر پہلے ان خوابوں کے لیے جاگنا بھی سیکھیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم ماضی میں کی گئی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر قوم سے معافی مانگے، ڈپٹی میئر کراچی
  • حیدر آباد کے ہر گھر میں 2 سے 3 افراد ڈینگی کا شکار ہیں: ایم کیو ایم
  • غزہ یا لبنان میں اہداف پر حملے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لیں گے، اسرائیلی وزیراعظم
  • ظہران ممدانی: نیویارک کے متوقع میئر
  • کیا اسرائیل امریکہ کی مدد سے لبنان پر بڑے حملے کی تیاریوں میں ہے؟
  • کسی آپریشن یا ڈرون حملے کے متحمل نہیں، وزیراعلیٰ کے پی
  • یوکرین کے ریلوے اسٹیشن پر نوجوان نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا؛ 4 ہلاکتیں، 12 زخمی
  • آو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے
  • گھر گھر میں گھائل ہی گھائل