Express News:
2025-10-26@20:35:59 GMT

پاکستان کے مفادات پہلی ترجیح ہونے چاہئیں

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب کیا، اس کانفرنس میں 20 سے زائد ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب کے دوران کہا ہے کہ ٹرانس افغان ریلوے اور اسلام آباد، تہران، استنبول ریلوے کوریڈور پر کام کر رہے ہیں، علاقائی روابط میں اضافے سے معاشی اور تجارتی شعبے میں انقلاب آئے گا، وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ہوائی روابط میں بہتری اور ٹی آئی آر کنونشن ایسے فریم ورک بھی ہمارے علاقائی تعاون کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

یہ عظیم منصوبے خطے کے ممالک کی معاشی طاقت کو یکجا کر کے تجارت، معاشی تعاون اور توانائی کے اشتراک کے ایک نئے دور کا آغاز بنیں گے۔ وزیراعظم نے کہا زمانہ قدیم سے ہمارا خطہ معاشی اورتجارتی راہداری رہا ہے، بڑھتی ہوئی معاشی اہمیت نے اس قدیم گزرگاہ کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔

پاکستان وسط ایشیائی ممالک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بذریعہ پاکستان یہ ممالک بحر ہند کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ وسط ایشیا کا وسیع وعریض خطہ خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ اسے سمندر تک رسائی کے لیے روس کی سرد بندرگاہوں تک رسائی ملتی ہے جو کہ اس کے لیے انتہائی مہنگا سودا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب عوامی جمہوریہ چین کا وسیع وعریض خطہ ہے اور یہاں سے بحیرہ جنوبی چین تک پہنچنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ وسط ایشیا کے لیے ایک راستہ ایران کے راستے خلیج فارس تک جاتا ہے جب کہ دوسرا راستہ بذریعہ پاکستان گوادر، پسنی اور کراچی تک آتا ہے۔

یہ راستہ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیستان اور قازقستان کے لیے سب سے بہتر اور قابل عمل روٹ ہے۔ پاکستان کے لیے بھی وسط ایشیائی ممالک میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ وسط ایشیا کی منڈی سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ پاکستان سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، ڈیجیٹل دور میں رابطے ڈیٹا، اختراع اور ٹیکنالوجی تک پھیل چکے ہیں۔ پاکستان ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ ہم چوتھے صنعتی انقلاب کی رفتار کے ساتھ چل سکیں۔

اس کے علاوہ، پاکستان سنگل ونڈو سسٹم جیسے اقدامات تجارتی عمل میں انقلابی تبدیلی لا رہے ہیں، سرکاری رکاوٹوں کو کم کر رہے ہیں اور سرحد پار لین دین کو زیادہ مؤثر بنا رہے ہیں۔ پاکستان کی طویل ساحلی پٹی بشمول گوادر اور کراچی کی بندرگاہیں سمندر کو شاہراہِ ریشم سے جوڑتی ہیں۔ انھوں نے کانفرنس کے شرکا کو دعوت دی کہ ہم سب مل کر تعاون کے بیج بوئیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ترقی اور خوشحالی کے پھل حاصل کر سکیں۔ یہ دراصل اس جغرافیائی سچائی کا اظہار ہے جس کا ادراک وسط ایشیائی ریاستوں کی قیادت کو بھی بخوبی ہے۔

وسط ایشیائی ریاستوں اور پاکستان کی ترقی کے لیے افغانستان میں امن وامان اور سیاسی استحکام ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ افغانستان وسط ایشیا اور پاکستان کے درمیان ایک بفرزون کے طور پر موجود ہے لیکن بدقسمتی سے یہ خطہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنگ وجدل کی لپیٹ میں ہے۔ موجودہ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور خطے کے ممالک کو امید تھی کہ افغانستان میں ایک مستحکم نظامِ حکومت قائم ہو جائے گا لیکن تاحال ایسا نہیں ہو سکا بلکہ معاملات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں اور پاکستان اس خطے میں جاری عدم استحکام اور لاقانونیت سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے شمال مغربی علاقے اور صوبے دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہیں۔ گزشتہ روز بھی خیبرپختونخوا کے اضلاع ٹانک اور لکی مروت میں سیکیورٹی فورسز کی مصدقہ اطلاعات پر کامیاب آپریشنز کے دوران بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے 16 دہشت گرد مارے گئے، یہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں، اور معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔ ضلع ہنگو کے علاقے بلیامینہ میں خوارج نے غلمینہ چیک پوسٹ کو بارودی دھماکے سے اڑا دیا۔ پولیس کے مطابق واقعہ کی اطلاع پر ایس پی اسد زبیر پولیس پارٹی کے ہمراہ جائے وقوعہ پر روانہ ہوئے تو بلیامینہ کے مقام پر ان کی گاڑی کو بھی بارودی مواد سے اڑا دیا گیا جس سے ایس پیاپنے دو جوانوں، سمیت شہید ہوگئے۔

ادھر بلوچستان کے ضلع خضدار میں بھی نامعلوم مسلح افراد نے تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر حملہ کر کے 19 مزدوروں کو اغوا کر لیا جب کہ کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی ہے۔ تین دنوں میں دشت اور، خضدار سے اغوا ہونے والے مزدوروں کی تعداد 27 ہو گئی ۔ میڈیارپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا ہے کہ واقعہ جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب خضدار سے تقریبا 80 کلومیٹر دور نال کے علاقے کلیڑی میں پیش آیا جہاں درجنوں مسلح دہشتگردوں نے پہلے شاہراہ کی ناکہ بندی کی اور اس کے بعد ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے کیمپ اور کریش پلانٹ پر حملہ کیا۔ یہ تعمیراتی کمپنی خضدار کو ضلع واشک کے علاقے بسیمہ سے ملانے والی سڑک کی تعمیر پر کام کر رہی تھی۔

دہشت گردی کے ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک فعال ہے اور وہ اپنی کارروائیاں کر کے پاکستان کے امن وامان کو خراب کر رہا ہے اور دوسری جانب افغانستان کی حکومت پاکستان کے خلاف مسلسل زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان پاکستان دشمنی میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ ایسے حالات میں تجارتی معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یوں افغانستان کی حکومت کے منفی کردار کی وجہ سے وسط ایشیا کا پورا خطہ مسائل کا شکار ہے جب کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے۔

جب تک افغانستان کی حکومت کا رویہ درست نہیں ہوتا، تجارتی معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان کے ترجمان دفترِ خارجہ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت بند ہے اور سیکیورٹی صورتحال کے جائزے تک بند ہی رہے گی۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک سرحدی پوائنٹس پر پاکستان کے خلاف مسلح حملے کیے گئے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے طالبان کے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کے منصوبے کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس معاملے کا جائزہ لے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرحدی دریا بین الاقوامی قانون کے تحت چلتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں پاکستان ایک بالائی اور زیریں دونوں طرح کا علاقہ ہے اور ہم اس کے مطابق اس معاملے کی پیروی کریں گے۔ اندرابی نے کہا کہ پاکستان اب بھی افغانستان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔ کابل میں طالبان کی حکومت کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے، سرحد پار سے حملوں کو روکیں، ٹی ٹی پی اور دیگر مسلح گروپوں کے دہشت گردوں کو کنٹرول کریں اور انھیں پکڑیں تو ہمارے تعلقات دوبارہ پٹری پر آسکتے ہیں۔

پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ افغانستان کی سرزمین دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔ ادھر افغانستان مسلسل پاکستان کے دو صوبوں میں پروپیگنڈا مہم بھی چلا رہا ہے۔ پاکستان میں موجود ایسا گروہ بھی متحرک ہے جو افغانستان اور بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ یہ گروہ مسلسل پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ پاکستان میں بسنے والا یہ گروہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ ریاست پاکستان کے وسائل کو بھی استعمال کر رہا ہے اور اس ریاست کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام بھی کر رہا ہے۔

پاکستان کی حکومت کا اس حوالے سے بھی عزم سب کے سامنے ہے۔ اب افغانستان کی طالبان رجیم بھارت کی مدد اور تائید سے چترال کی طرف بہنے والے دریا پر ڈیم بنانے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے۔ افغانستان دریائے کابل پر بھی ڈیم بنا چکا ہے جس کی وجہ سے وادیٔ پشاور کی طرف بہنے والے دریاؤں میں پانی کم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے اندر سرگرم ایسے عناصر اور گروہ جو پاکستان سے زیادہ افغانستان کے مفادات کو اولیت دیتے ہیں یا وہ بھارت کے ساتھ سازباز کرنے والوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں، ایسے عناصر کی سرکوبی بھی پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے لازمی ضرورت بن چکی ہے۔ پاکستان کے عوام کا مفاد ہر چیز پر مقدم ہونا چاہیے۔ پاکستان کے اربابِ اختیار کو یہ حقیقت واضح کر دینی چاہیے کہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے کسی گروہ یا کسی گروپ کے لیے کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان کی وسط ایشیائی پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان کی وسط ایشیا کر رہا ہے کی حکومت کے خلاف رہے ہیں کے ساتھ پر کام کام کر کے لیے ہے اور اور اس

پڑھیں:

دراندازی واقعات افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں،آئی ایس پی آر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

روالپنڈی: آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ افغانستان سے دراندازی کے واقعات عبوری افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فتنہ الخوارج کی دراندازی کے واقعات ایسے وقت ہو رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے وفود ترکیے میں مذاکرات میں مصروف ہیں۔ دراندازی کے واقعات عبوری افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان بارہا عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر چکا ہےکہ وہ اپنی سرحدی نگرانی کو مؤثر بنائے۔ افغانستان دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ افغانستان اپنی سرزمین کو خوارج کے ذریعے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے پرعزم اور ثابت قدم ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں کی قربانیاں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔کسی بھی بھارتی سرپرستی یافتہ خوارج کے خاتمے کے لیے علاقے میں کلیئرئس آپریشن جاری ہیں۔ سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عزم استحکام کے تحت انسداد دہشت گردی کی مہم جاری رکھیں گے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردوں کی سر پرستی نامنظور ہے؛ پاکستان نے افغانستان پر واضح کردیا
  • پاک-افغان سرحد، دہشت گردی اور ٹرانزٹ ٹریڈ
  • دراندازی واقعات افغان حکومت کے دہشت گردی سے متعلق ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں،آئی ایس پی آر
  • بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
  • پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا
  • جاپان : نومنتخب وزیر اعظم تاکائیچی کی پہلی پالیسی تقریر
  • پاکستان کا بیان: افغان سرحدی راہداریاں بند، شہری حفاظت کو ترجیح دی جا رہی ہے
  • کراچی میں ایمریٹس ائیرلائن کے چالیس سال مکمل ہونے پر تقریب منعقد 
  • پاک افغان جنگ بندی، مضمرات