data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) امریکا میں مقیم معروف پاکستانی صحافی عارف الحق عارف نے گزشتہ روز جسارت میڈیا گروپ کا تفصیلی دورہ کیا ہے، دورے کے موقع پر انہوں نے اپنے نام سے منسوب عارف الحق عارف جسارت ڈیجیٹل کے دوسرے گرین اسٹوڈیو کا ربن کاٹ کر افتتاح کیا۔ جسارت ڈیجیٹل کے دوسرے گرین اسٹوڈیو کی مختصر اور پر وقار تقریب میں جسارت کے چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی، عارف الحق عارف، چیف آپریٹنگ آفیسر(سی او او) سید طاہر اکبر ،جسارت کے اسائمنٹ ایڈیٹر عرفان احمد، جسارت ایڈیٹوریل کے الیاس بن زکریا، ڈپٹی مارکیٹنگ ہیڈ سید محمد فاضل نقوی، ڈیجیٹل ویب کے قمر خان سمیت جسارت کے دیگر کارکنان نے شرکت کی، سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر عارف الحق عارف نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ روزنامہ جسارت گزشتہ 56 برس سے صحافت کے میدان میں اپنا نمایاں اور مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔ جسارت قومی و بین الاقوامی حالات سے عوام کو باخبر رکھنے اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے میں اپنا لازوال کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ جسارت نے ہمیشہ سے صحافت کی نرسری کا کردار ادا کیا ہے یہاں سے سیکھ کر صحافیوں نے دنیا بھر میں اپنا مقام بنایا ہے اور آج بھی جسارت صحافیوں کا مرکزہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک رہنے کے باوجود میرا دل جسارت اور ان سے منسلک صحافیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ عارف الحق عارف نے اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ میں نے جنگ گروپ کو 1967ء میں جوائن کیا جو رسمی طور پر 2018ء تک جاری رہا اس کے بعد آج تک میں اعزازی طور پرجنگ کیساتھ منسلک ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا آنے کے بعد صحافت کی ہیت تبدیل ہو گئی ہے۔ بڑے بڑے اخبارات کی اشاعت بند ہوچکی ہے لیکن جسارت نے آج تک اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،انہوں نے کہاکہ آئندہ آنے والے دور میں جدید ٹیکنالوجی زندگیوں میں بہت بڑی بڑی تبدیلی لائے گی۔اس موقع پر جسارت کے چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی اور سی او او سید طاہر اکبر نے عارف الحق عارف کا جسارت کا تفصیلی دورہ کرنے اور اپنے بھر پور تعاون کی یقین دھانی کرانے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عارف الحق عارف جیسے سینئر صحافی ہماری لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ نے ہمیشہ صحافت میں پیشہ ورانہ اصولوں اور شفافیت کو ترجیح دی اور نوجوان صحافیوں کیلیے ایک مثال قائم کی ہے۔ جسارت آپ کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، عارف الحق عارف نے اپنی زندگی کی بہترین یادداشتیں جسارت میں پوڈ کاسٹ میں ریکارڈ کروائیں جو بہت جلد فرائیڈے اسپیشل میں شائع اور جسارت ڈیجیٹل پر نشر کی جائیں گی، بعدازں عارف الحق عارف کو چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی کی جانب سے کتابوں کا تحفہ پیش کیا گیا اوراختتام پر دعا کی گئی کہ اللہ تعالی جسارت میڈیا گروپ کے اس منصوبے کو کامیاب بنائے اورسید مودودی رحمہ اللہ کے لگائے ہوئے پودے کو اور شجر سایہ دار بنائے آمین۔

منیر عقیل انصاری گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عارف الحق عارف نے جسارت کے

پڑھیں:

آزادی صحافت کے ہیرو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251027-03-8
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
صحافت محض پیشہ نہیں، یہ ضمیر کی صدا اور عوام کی امانت ہے جو سچائی کے چراغ کو جلائے رکھے، وہی اصل صحافی ہے۔ اسی جدوجہد میں اْس کا وقار، اْس کا ایمان، اور اْس کی پہچان چھپی ہے۔ ’’سچ لکھنے والا ہمیشہ طاقت کے مراکز کے نشانے پر ہوتا ہے‘‘۔ وہ اکثر طاقتور حلقوں کی ناراضی مول لیتا ہے۔ دنیا میں سچ کہنا ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ لفظ کبھی تلوار سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے، اور وہ لوگ جو سچ کو حرفوں میں ڈھالتے ہیں، اکثر خود تاریخ کے صفحوں پر خون کے داغ بن کر رہ جاتے ہیں۔ رواں برس 2025ء میں آزادیٔ صحافت کی تاریخ نے ایک نیا باب رقم کیا ہے، جب دو عالمی اداروں انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) نے سات بہادر صحافیوں کو ’’ورلڈ پریس فریڈم ہیروز‘‘ کے عالمی اعزاز سے نوازا۔ ان میں وہ فلسطینی خاتون بھی شامل ہیں جو غزہ کی تباہ شدہ گلیوں میں اپنے کیمرے کے ساتھ شہید ہوئیں۔ یہ اعزاز اْن صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو شدید خطرات کے باوجود سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔ اس سال کے ایوارڈ یافتگان کا تعلق جارجیا، امریکا، غزہ، پیرو، ہانگ کانگ، یوکرین اور ایتھوپیا سے ہے۔ ان سب نے ظلم، سنسرشپ، قید اور دھمکیوں کے باوجود صحافتی اصولوں کی حفاظت کی اور عوام کے حقِ جاننے کو مقدم رکھا۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کون سے ادارے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔

انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) کا قیام 1950ء میں صحافیوں اور مدیران کے ایک عالمی اجتماع کے نتیجے میں ہوا۔ اس کا صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے۔ آئی پی آئی آزادیٔ اظہار، آزاد میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال مختلف ممالک میں صحافت پر ہونے والے دباؤ، قتل، قید، سنسرشپ اور جبر کی نگرانی کرتا ہے، اور انہی بنیادوں پر ان صحافیوں کا انتخاب کرتا ہے جنہوں نے جرأت کی مثال قائم کی۔ آئی پی آئی کے ’’ورلڈ پریس فریڈم ہیروز‘‘ ایوارڈ کو صحافت کی دنیا میں سب سے باوقار تمغہ مانا جاتا ہے، جو 1996ء سے ہر سال دیا جا رہا ہے۔ دوسرا ادارہ انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) ہے، جس کا صدر دفتر کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ہے۔ آئی ایم ایس 2001ء میں قائم ہوا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا کے اْن خطوں میں صحافت کا تحفظ کرنا ہے جہاں جنگ، آفات یا سیاسی جبر کے باعث میڈیا خطرے میں ہو۔ آئی ایم ایس صحافیوں کی تربیت، قانونی معاونت، اور آن لائن و فزیکل سیکورٹی پروگرام چلاتا ہے۔ یہ ادارہ آزادیٔ اظہار کو انسانی حق مانتے ہوئے میڈیا اداروں کے لیے پالیسی سطح پر اصلاحات کی حمایت کرتا ہے۔ 2020ء کے بعد سے آئی ایم ایس نے آئی پی آئی کے ساتھ مل کر یہ عالمی اعزاز مشترکہ طور پر دینا شروع کیا، تاکہ آزادیِ صحافت کے تحفظ کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مضبوط کیا جا سکے۔ اب اگر اس سال کے سات ہیروز پر نظر ڈالی جائے تو ہر نام اپنے آپ میں ایک داستان ہے۔

جارجیا سے مزیا اماگلوبیلی نے روسی دباؤ اور داخلی پابندیوں کے باوجود آزاد میڈیا کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ خواتین صحافیوں کے لیے جرأت اور تحفظ کی علامت بن چکی ہیں۔ امریکا سے مارٹن بارون نے واشنگٹن پوسٹ اور بوسٹن گلوب کے ادارتی سربراہ کے طور پر تحقیقاتی صحافت کی نئی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں امریکی سیاست اور حکومت میں شفافیت کے کئی نئے در وا ہوئے۔

غزہ کی مریم ابو دقہ وہ نام ہے جس نے دنیا کو دکھا دیا کہ سچائی کے راستے میں بمباری بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ تھیں، جو پناہ گزین کیمپوں میں انسانی المیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی تھیں۔ اسرائیلی حملے کے دوران وہ رپورٹنگ کر رہی تھیں جب ایک فضائی حملے نے ان کی جان لے لی۔ ان کی شہادت نے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے لیے ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس نے انہیں بعد از مرگ (Posthumously) یہ اعزاز دیا۔ لفظ (پوستھیومَسلی) ایک انگریزی اصطلاح ہے،جس کا مطلب ہے ’’وفات کے بعد‘‘ یا ’’مرنے کے بعد‘‘۔یعنی جب کسی شخص کو ایوارڈ، اعزاز، یا درجہ اْس کے انتقال کے بعد دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اعزاز اسے دیا کیا گیا۔ پیرو سے گستاوو گوریتی، نے منشیات مافیا اور بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف اپنی قلمی جنگ سے حکومتوں کو ہلا دیا۔ کئی بار قید ہوئے، لیکن قلم نہیں چھوڑا۔ ہانگ کانگ کے جمی لائی، جو ’’ایپل ڈیلی‘‘ کے بانی ہیں، چین کے دباؤ میں آکر بھی اپنی آزادیِ رائے پر قائم رہے۔ انہیں جیل میں ڈالا گیا، اخبار بند ہوا، لیکن وہ آج بھی دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔ یوکرین کی کٹوریا روشچینا نے روسی حملوں کے دوران محاذِ جنگ سے رپورٹنگ کی۔ گرفتار ہوئیں، تشدد کا نشانہ بنیں، مگر جنگ کے بیچ بھی سچ کی خبریں دنیا تک پہنچاتی رہیں۔ ایتھوپیا کے تسفالم ولدیس نے ایک ایسے نظام میں آزاد میڈیا کے حق میں آواز بلند کی جہاں اظہارِ رائے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے میڈیا آزادی کے قوانین کے لیے مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کئی نئے آزاد ادارے قائم ہوئے۔

یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں خطرے کے باوجود وہی کیا جس کے لیے صحافت وجود میں آئی سچ بولنا، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کے مطابق ان ہیروز کا انتخاب اْن کے ’’اخلاقی استقلال، عوامی خدمت کے جذبے، اور آزادیٔ اظہار کے غیر متزلزل یقین‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا۔

ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پچھلے دو سال میں 150 سے زائد صحافی قتل یا لاپتا ہوئے، جبکہ 1200 سے زیادہ کو قید یا مقدمات کا سامنا ہے۔ ان اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ آزادیٔ صحافت اب صرف جمہوری اصول نہیں بلکہ عالمی انسانی حق بن چکی ہے۔

غزہ میں گزشتہ سال اسرائیلی حملوں کے دوران 70 سے زیادہ فلسطینی صحافی شہید ہوئے، جن میں خواتین کی نمایاں تعداد شامل تھی۔ مریم ابو دقہ ان میں ایک چمکتا ہوا نام تھیں، جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کیمرہ بندوق سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔ ان کی قربانی نے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز 2025ء کو ایک تاریخی رنگ دیا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کی یہ کوشش انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اگرچہ جبر بڑھ رہا ہے، مگر سچ لکھنے والے اب بھی زندہ ہیں۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ عالمی برادری صرف خراجِ تحسین پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرے۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ’’انٹرنیشنل پروٹیکشن چارٹر فار جرنلسٹس‘‘ منظور کرے، جس کے تحت جنگی علاقوں میں صحافیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جنگی جرم قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی ہر ملک میں ’’پریس فریڈم کمیشن‘‘ قائم کیا جائے جو میڈیا اہلکاروں کی سلامتی، قانونی مدد اور نفسیاتی بحالی کے لیے ذمے دار ہو۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • آزادی صحافت کے ہیرو
  • محراب پور: صحافی پر فائرنگ معجزانہ طورپر محفوظ رہے
  • پاکستانی کمیونٹی کی معروف شخصیات افتخارحسین شیخ اورمسزمنیرکوثر
  • کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری کل 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منائیں گے
  • فلسطینی صحافی مریم ابو دقہ کو انٹرنیشنل پریس فریڈم ہیروز ایوارڈ سے نوازا گیا
  • پریس کلب میں سینئر رکن عارف الحق عارف کے اعزاز میں تقریبِ پذیرائی
  • معروف صحافی عارف الحق عارف کا جسارت میڈیا گروپ کا دورہ
  • اداکار ایاز خان کا روزنامہ جسارت کے دفتر کا دورہ، جسارت ڈیجیٹل کے لیے تعاون کی یقین دہانی
  • ترکیہ: پاکستانی طلبہ کے وفد کا انقرہ میں وزارت تعلیم کا دورہ