گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں، حفیظ الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
ایک انٹرویو میں سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ گلبر سرکار غیر فطری تھی، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے رکن اسمبلی کو وزارت اعلی کا منصب دیا گیا ہو، وزارتِ اسی رکن اسمبلی کو ملتی ہے جس کی پارٹی ہوتی ہے، بغیر پارٹی والے کو وزارت اعلی کا منصب دینے کی روایت ہمارے ہاں دیکھی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ گروپ ٹھیکوں اور نوکریوں کے حصول کیلئے بنایا گیا ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہو، یہ روایت ہم نے صرف گلگت بلتستان میں دیکھی ہے۔ مقامی روزنامے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں حفیظ الرحمن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں جماعتی الائنس کبھی کامیاب نہیں رہا ہے، ڈیلیوری کیلئے سنگل پارٹی کو اکثریت ملنی چاہیئے، مسلم لیگ نون اپنی بساط کے مطابق الیکشن میں حصہ لے گی کسی جماعت کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد ہو گا اور نہ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ، تاہم انتخابات کے بعد ضرورت محسوس ہوئی تو کسی ہم خیال جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے، ہماری پارٹی آئندہ الیکشن میں اکثریت لینے میں کامیاب ہو گی، ہماری تیاری مکمل ہے، تیاریاں ہم نے ڈھنڈورے پیٹ کر نہیں کیں ہم اپنی جماعت کے منشور کی بنیاد پر الیکشن میں جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت ملے، مخلوط حکومت ڈیلور نہیں کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی تمام خرابیوں اور خامیوں کی ذمہ دار پیپلز پارٹی بھی ہے، گورنر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے، وزیراعلی حاجی گلبرخان ہر فیصلے میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد ایڈووکیٹ اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے مشاورت بھی کرتے ہیں، حکومت کے ہر فیصلے میں پیپلز پارٹی شامل ہے، لہذا مسائل کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی بھی ہے، حکومت کی خرابیوں، خامیوں اور ناکامیوں کا بوجھ پیپلز پارٹی کو اٹھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہو گی کہ خطے میں صاف ستھری نگراں حکومت قائم ہو کیونکہ اگر نگراں حکومت داغدار ہوئی تو پورے انتخابات متنازعہ ہونگے اور انتخابی عمل پر انگلیاں اٹھیں گی، ہم چاہتے ہیں کہ کسی سیاسی مذہبی جماعت کے بندے کو نگراں حکومت کا حصہ نہ بنایا جائے، حکومت میں ایسے لوگ شامل کئے جائیں جو سیاسی انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں، سیاسی لوگ ضرور شامل ہو مگر تعلق کسی جماعت سے نہ ہو۔
حفیظ الرحمن نے کہا کہ نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے نام وزیراعلی اور اپوزیشن لیڈر نے دینے ہیں، کچھ نام وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان نے دینے ہیں، وفاقی وزیر جب وہ نام ہم سے مانگیں گے تو ہم دیں گے، ہماری خواہش ہے کہ حکومت سب کیلئے قابل قبول ہو تاکہ انتخابی عمل صاف شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے نمٹایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گلبر گروپ مفادات کا ٹولہ ہے، یہ گروپ محض ٹھیکوں اور نوکریوں کے حصول کیلئے بنایا گیا ہے، یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، ہم چیلنج کرتے ہیں کہ گلبر خان 26 نومبر کے بعد اپنی جماعت بناکر دکھائیں، جماعت بنانا کوئی آسان کام تھوڑا ہے، اس کیلئے وسائل چاہیئں ہوتے ہیں قابلیت درکار ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والی منتخب حکومت موجودہ حکومت سے کئی گنا بہتر ہو گی، یہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ الیکشن میں 99 فیصد لوگ نئے منتخب ہو کر آتے ہیں جو اسمبلی میں رہے ہوں ان کا انتخاب کم سے کم کیا جاتا ہے، لوگوں میں نئے امیدواروں کے انتخاب کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، موجودہ حکومت میں شامل بہت سارے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں، ان میں سے بہت ساروں کو جواب ہی نہیں دیا تاہم کچھ کو انگیج رکھا ہوا ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ حکومت میں شامل بہت سارے لوگ الیکشن ہار جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ گلبر سرکار غیر فطری تھی، دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ بغیر پارٹی والے رکن اسمبلی کو وزارت اعلی کا منصب دیا گیا ہو، وزارتِ اسی رکن اسمبلی کو ملتی ہے جس کی پارٹی ہوتی ہے، بغیر پارٹی والے کو وزارت اعلی کا منصب دینے کی روایت ہمارے ہاں دیکھی گئی ہے، یہ سب کچھ خالد خورشید کی ضد، آنا اور عمران خان سے بے جا عشق کی وجہ سے ہوا ہے، مگر ہمارے لوگوں کا حافظہ بہت کمزور ہے، وہ چیزیں جلدی بھول جاتے ہیں اور آج کے واقعے کو آج کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جاتے جاتے چودہ (14) نئی تحصیلوں کی منظوری دی ہے ہمارا سوال ہے کہ حکومت نے تحصیلیں پہلے کیوں نہیں بنائیں، ابھی اس لئے نئی تحصیلوں کی منظوری دے رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو مشکلات پیدا کی جائیں، اگر نیت ٹھیک ہوتی تو حکومت پہلے ہی تحصیلیں بنا لیتی، انہوں نے کہا کہ 7 اور 8 نومبر کو لندن میں ورلڈ ٹورزم کانفرنس ہو رہی ہے، اس میں وزیراعلی اور ان کے ساتھیوں شرکت کرنی ہے وہاں جانے کیلئے پانچ کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی ہے، بتاؤ پانچ کروڑ روپے خرچ کرکے وزیراعلی اور وزراء نے لندن جاکر کیا تیر مارنا ہے ؟ حکومت کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہمارے مسائل روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، وفاق اگر 100 روپے دیتا ہے تو حکومت یہاں 150 روپے اپنی عیاشیوں پر اڑاتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو وزارت اعلی کا منصب بغیر پارٹی والے انہوں نے کہا کہ رکن اسمبلی کو گلگت بلتستان حفیظ الرحمن پیپلز پارٹی الیکشن میں حکومت میں وزیر اعلی کہ حکومت کہ گلبر
پڑھیں:
دستوری اعتبار سے پاکستان اسلامی ملک ، عملی طور پر یہاں انگریزی نظام چل رہا ہے: حافظ نعیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک کے وسائل پر آج بھی وہی مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی قابض ہے جو پاکستان کو عملی طور پر نوآبادیاتی انداز میں چلا رہے ہیں۔
یہ گفتگو امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے جامعہ اشرفیہ لاہور کے دورے کے دوران اساتذہ و طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کی، حافظ نعیم الرحمن نے جامعہ کے بزرگ عالم دین مولانا فضل رحیم کی عیادت کی، ان کی دینی و ملی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔
حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ دستور کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، مگر عملی سطح پر نظام وہی ہے جو برطانوی دور کی باقیات پر کھڑا ہے۔ انہوں نے مدارس کے علما، اساتذہ اور طلبہ پر زور دیا کہ وہ اسلام کے ہمہ گیر تصور کو عام کریں، امت کو جوڑنا ان کی پہلی ذمہ داری ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور جامعہ اشرفیہ کے درمیان برسوں پر محیط فطری اور قلبی تعلق موجود ہے، جماعت کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی اکثر اپنی نمازوں کی ادائیگی جامعہ اشرفیہ میں کرتے تھے، جب کہ جماعت کے سابق امیران بھی مختلف اوقات میں یہاں کا باقاعدہ دورہ کرتے رہے ہیں۔ دورے میں نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عطا الرحمن، امیر وسطی پنجاب جاوید قصوری، امیر لاہور ضیاء الدین انصاری اور دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مہتمم جامعہ مولانا ارشد عبید اور نائب مہتمم حافظ اسعد عبید نے مہمانوں کا استقبال کیا اور انہیں مختلف شعبہ جات کا تفصیلی دورہ کروایا۔
اپنے خطاب میں حافظ نعیم الرحمن نے عالمی نظام پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ ماڈل پوری دنیا پر مسلط ہے، اور یہی نظام معیشت، سیاست اور اخلاقیات سمیت ہر شعبے کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کو تقسیم کر دیا گیا ہے، امت گروہوں اور مفادات میں بٹ چکی ہے، جبکہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام نسلوں سے ظلم سہہ رہے ہیں اور عالمی طاقتیں اس سب پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن مغرب کے نافذ کردہ معاشی ڈھانچے نے اسی فیصد انسانوں کو بنیادی ضرورتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ ایسے حالات میں علما اور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے ابدی اور جامع پیغام کو پھیلائیں، یہ بتائیں کہ اسی نظام میں انسانیت کی اصل فلاح مضمر ہے اور مسائل کا پائیدار حل بھی اسی سے نکل سکتا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جب اللہ اور بندے کا رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے تو انسان کسی ادارے یا طاقت سے خوفزدہ نہیں رہتا، پھر اس کی جدوجہد اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے ہوتی ہے، اسلام محض عبادات یا اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے—اور یہ نظام صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
خطاب کے اختتام پر انہوں نے اس عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی فرسودہ اور غیرمنصفانہ نظام کے خاتمے اور ایک منصفانہ اسلامی معاشی و سماجی نظام کے قیام کی جدوجہد جاری رکھے گی۔