ڈراؤنی فلمیں دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ڈراؤنی فلمیں، چیخیں، خون اور خوفناک مناظر صرف گھبراہٹ اور ڈر پیدا کرتے ہیں۔ مگر ماہرین نفسیات کے مطابق یہی فلمیں جن سے ہم خوف کھاتے ہیں دراصل ذہنی دباؤ اور بے چینی کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2025 کی اب تک کی 16 بہترین عالمی فلمیں کون سی ہیں ؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب ہم خوفزدہ ہوتے ہیں تو دماغ میں ’فائٹ یا فلائٹ‘ کا ردِعمل پیدا ہوتا ہے یعنی یا تو خطرے کا مقابلہ کریں یا بھاگ جائیں لیکن جب ہم یہ خوف محفوظ ماحول میں محسوس کرتے ہیں جیسے کسی فلم کے دوران تو دماغ دراصل خطرے سے نمٹنے کی مشق کر رہا ہوتا ہے۔
آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی اور ٹورنٹو یونیورسٹی کے محقق مارک ملر کے مطابق یہ ایک پرانا فلسفیانہ تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فطری طور پر خوفناک چیزوں سے بچنے کے لیے بنے ہیں لیکن پھر بھی انہی کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
ڈراؤنی کہانیاں دماغ کو تربیت دیتی ہیںکتاب ’موبیڈلی کیوریئس‘ کے مصنف امریکی ماہر نفسیات کولٹن اسکریونر کا کہنا ہے کہ خوفناک کہانیاں ہمیں غیر یقینی حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتی ہیں۔
مزید پڑھیے: ایبٹ آباد آپریشن پر ہالی ووڈ نے کتنی فلمیں بنائیں؟
ان کے مطابق خوف ایک نفسیاتی تربیت ہے جیسے جانور خطرہ دیکھ کر سیکھتے ہیں کہ کب بھاگنا ہے ویسے ہی انسان خوفناک کہانیوں سے سیکھتا ہے کہ غیر متوقع خطرات کا سامنا کیسے کرنا ہے۔
ان کی تحقیق میں 400 افراد نے حصہ لیا جنہیں ان کے خوف برداشت کرنے کے انداز کے لحاظ سے 3 گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایڈرینالین جنکیز وہ جو خوف سے لطف اٹھاتے ہیں، وائٹ نکلرز جو ڈر کو برداشت کر کے اپنے حوصلے کو پرکھتے ہیں اور ڈارک کوپرز جو ڈراؤنی فلموں کو حقیقی زندگی کے دباؤ سے نمٹنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہیلووین کے موقعے پر لوگ جان بوجھ کر خوفناک فلمیں دیکھتے ہیں جیسے زومبی یا قاتلوں پر مبنی کہانیاں۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل دراصل ’کنٹرولڈ فئیر‘ ہے یعنی ہم خود کو خوفزدہ کرتے ہیں لیکن یہ جانتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔
مزید پڑھیں: خوشی، محبت و دیگر جذبات کے ہارمونز کونسے، یہ ہمارے دماغ پر کیسے حکومت کرتے ہیں؟
یہ دماغ کو یہ سکھاتا ہے کہ ڈر کا سامنا کیسے کیا جائے اور اسے کب غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کیا جائے۔
خوف بطور علاجاسکریونر اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ خوفناک مناظر کو نفسیاتی علاج میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نیدرلینڈز میں تیار کردہ ایک ویڈیو گیم ’مائنڈ لائٹ‘ بچوں کو خوف کے دوران پرسکون رہنے کی تربیت دیتا ہے۔
جب بچہ پرسکون رہتا ہے تو گیم میں روشنی تیز ہوتی ہے اور مونسٹر ایک بلی کے بچے میں بدل جاتا ہے۔
یہ طریقہ بچوں کی اینگزائٹی کم کرنے میں کگنیٹیو بیہیویئرل تھراپی جتنا مؤثر ثابت ہوا ہے۔
دماغی میکانزم، خوف سے لچک پیدا کرنانیورو سائنس دانوں کے مطابق دماغ ایک پیشگوئی کرنے والی مشین ہے جو دنیا کے خطرات کا مسلسل تجزیہ کرتی ہے۔
خوفناک فلمیں اسے غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کی مشق دیتی ہیں تاکہ وہ حقیقی زندگی میں بہتر ردعمل دے سکے۔
مارک ملر کا کہنا ہے کہ خوف ایک طرح کی پریکٹس ہے جس کے دوران ہم گھبراتے ہیں لیکن محفوظ ماحول میں اور یہی ہمیں زندگی کے دباؤ سے نپٹنے میں مضبوط بناتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جو لوگ ڈراؤنی فلمیں دیکھتے ہیں وہ بحرانوں کے وقت زیادہ پرسکون رہتے ہیں مثلاً کووِڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران ایسے افراد نے خبروں اور حالات سے نمٹنے میں زیادہ حوصلہ دکھایا۔
یہ بھی پڑھیے: بخار دشمن نہیں الارم، اس کو ’بجتے‘ ہی ’بند‘ نہ کریں
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوفناک فلمیں دیکھنا خوف کا کھیل نہیں بلکہ ایک ذہنی مشق ہے جو ہمیں اپنے ڈر پر قابو پانے اور زندگی کی غیر یقینی کیفیتوں سے بہتر نمٹنے میں مدد دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈراؤنی فلموں کا دماغ پر اثر ڈراؤنی فلمیں ہارر موویز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈراؤنی فلموں کا دماغ پر اثر ڈراؤنی فلمیں ہارر موویز ڈراؤنی فلمیں کا کہنا ہے کہ ہے کہ خوف کرتے ہیں کے مطابق کے دوران
پڑھیں:
مراکش میں خوفناک حادثہ‘2رہائشی عمارتیں گرگئیں‘ 19 افراد جاں بحق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رباط (انٹرنیشنل ڈیسک) مراکش کے شہر فاس میں 2رہائشی عمارات منہدم ہونے سے 19 افراد جاں بحق اور 16 زخمی ہوگئے۔ خبررساں اداروں کے مطابق حادثہ شمال مشرقی علاقے المستقبل میں پیش آیا جہاں ایک دوسرے سے منسلک 4منزلہ 2عمارتیں اچانک زمین بوس ہوگئیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں میں 8خاندان مقیم تھے، جن میں سے اکثر ملبے تلے دب گئے۔واقعے کے فوراً بعد ریسکیو ٹیموں، پولیس اور دیگر اداروں نے امدادی کارروائیاں شروع کردیں۔