کراچی ایئرپورٹ پر 8 لاکھ ڈالر ڈیجیٹل کرنسی منتقل کرنے کا معاملہ، نوجوان کے بیان میں تضاد سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
کراچی: جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر نوجوان کے موبائل فون سے ساڑھے 8 لاکھ ڈالر مالیت کی ڈیجیٹل کرنسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کے معاملے پر پیشرفت سامنے آئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پشاور جانے والے نوجوان فیض یاب نے حکام پر ساڑھے 8 لاکھ ڈالر ڈیجیٹل کرنسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے اور ای میل، واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس معاملے میں پولیس نے متاثرہ نوجوان کا بیان ریکارڈ کرلیا۔ ایس ایس پی ملیر کے مطابق متاثرہ نوجوان فیض یاب نے پولیس کو ابتدائی بیان ریکارڈ کرادیا ہے۔
متاثرہ نوجوان فیض یاب نے کراچی ائیرپورٹ پہنچنے سے باہر نکلنے تک کے تمام حالات پولیس کو بتائے، متاثرہ نوجوان نے پولیس کو بتایا کہ ایئرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز میں وہ افراد شناخت ہوسکتے ہیں جو اس واقعے میں ملوث ہیں۔ فیض یاب کے بیان کے مطابق پولیس نے ایڈیٹڈ فوٹیج دیکھائی ہیں جسکے مطابق میں 45 منٹ تک ایک ہی جگہ بیٹھا رہا تھا۔
متاثرہ نوجوان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر 30 روز گزر گئے تو ائیرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز ضائع ہوجائیں گی۔
اپنے بیان میں اس نے اس کمرے کی بھی نشاندہی کی جہاں اسے مبینہ طور پر لے جایا گیا۔ فیض یاب کا کہنا تھا کہ اس کا جی میل اور واٹس ایپ اکاؤنٹ ہیک کرلیا گیا ہے، جبکہ اب بھی اسے دھمکی آمیز کالز موصول ہورہی ہیں۔
متاثرہ نوجوان سے ابتدائی بیان لیا گیا ہے جبکہ ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ نے بتایا کہ فیض یاب کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا ہے اور عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گریڈ 17 کے ایک افسر سارے معاملے کی تفتیش کرینگے۔
ایس ایس پی ملیر عبد الخالق پیرزادہ کے مطابق فیض یاب کے ابتدائی بیان اور سی سی ٹی وی فوٹیجز میں تضاد پایا جاتا ہے، متاثرہ نوجوان نے بیان میں کہا کہ اس پر تشدد کیا گیا اور ناک پر مکے مارے گئے، تاہم ائیرپورٹ سے حاصل کی گئی فوٹیجز میں فیض یاب کو ائیرپورٹ سے ٹھیک حالت میں باہر نکلتے دیکھا گیا۔
پولیس کے مطابق نوجوان نے بتایا کہ وہ مختلف افراد کے پیسے لگا کر آن لائن کاروبار کرتا رہا ہے جبکہ وہ طلحہ نامی شخص سے ملنے کراچی آیا تھا۔
پولیس حکام نے مزید بتایا کہ متاثرہ نوجوان نے طلحہ کے بارے میں اب تک کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں فیض یاب کو ائیرپورٹ کے ایک مقام پر تقریباً 50 منٹ تک بیٹھا دیکھا گیا جبکہ ڈیڑھ سے دو منٹ کیلئے وہ وہاں سے اٹھ کر دوبارہ واپس آیا۔
ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ کے مطابق فیض یاب کے بیان اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر تفتیش جاری ہے، اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جائے گی۔
واضح رہے نوجوان کے بیان کے مطابق ڈیجیٹل کرنسی کی مبینہ چوری کا معاملہ 30 ستمبر کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پیش آیا تھا جسکے بعد متاثرہ نوجوان فیض یاب نے پولیس کو اطلاع دی تھی تاہم ثنوائی نا ہونے پر عدالت سے رابطہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کراچی؛ پولیس حراست میں نوجوان کی ہلاکت، ملزمان پولیس اہلکار ایف آئی اے کے حوالے
کراچی:جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی نے نوجوان محمد عرفان کی پولیس کسٹڈی میں ہلاکت کے مقدمے میں اے ایس آئی عابد شاہ اور کانسٹیبل آصف علی کو ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی زاہد علی کی عدالت کے روبرو پولیس نے نوجوان محمد عرفان کی پولیس کسٹڈی میں ہلاکت کے مقدمے میں ریمانڈ ختم ہونے پر ملزمان کو پیش کیا۔ ملزمان میں اے ایس آئی عابد شاہ اور کانسٹیبل آصف علی شامل ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس کسٹڈی میں کوئی جاں بحق ہو تو اس کیس کی تفتیش قانون کے مطابق ایف آئی اے کرتی ہے۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ہم ملزمان کو آج ایف آئی اے کے حوالے کر دیں گے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ زاہد علی نے دونوں ملزمان پولیس اہلکاروں کو ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
پولیس کے مطابق ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے حراست کے دوران غفلت اور لاپروائی کے باعث عرفان بلوچ کی جان ضائع کی۔ عرفان بلوچ کو دیگر 3 ساتھیوں کے ہمراہ مخبرِ خاص کی اطلاع پر للی برج کے قریب گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد اے ایس آئی عابد شاہ اور اے ایس آئی سرفراز نے عرفان بلوچ سے تفتیش کی، اس دوران عرفان کی حالت اچانک خراب ہوگئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اہلکاروں نے فوری اطلاع دیے بغیر اسے اسپتال منتقل کیا، جہاں ڈاکٹروں نے عرفان بلوچ کو مردہ قرار دیا.
پولیس کے مطابق مقدمے کی نوعیت مشکوک ہے، کیونکہ عرفان بلوچ کی ہلاکت کے بعد اس کے ساتھ گرفتار کیے گئے 3 دیگر افراد کو پولیس نے رہا کر دیا، جس سے مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ ملزمان کے 4 ساتھی پولیس اہلکار مفرور ہیں۔
اے ایس آئی سرفراز، کانسٹیبل وقار، ہمایوں اور فیاض واقع کے بعد فرار ہوگئے تھے۔ نوجوان کے مرنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، ملزمان کے خلاف صدر پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔