تل ابیب: اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر تازہ فضائی حملوں سے قبل امریکی انتظامیہ کو اپنے اقدامات کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے حملوں سے پہلے واشنگٹن کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا، تاہم امریکی حکام کی جانب سے اس اطلاع کی تاحال نہ تصدیق کی گئی ہے اور نہ تردید۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے احکامات پر صیہونی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر شدید بمباری کی، جس دوران ایک میزائل الشفاء اسپتال کے پیچھے جا گرا۔ حملے کے نتیجے میں اسپتال کے مریضوں اور طبی عملے میں شدید خوف و ہراس اور افراتفری پھیل گئی۔

عرب میڈیا کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں 20 فلسطینی شہید ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق، 10 اکتوبر کو جنگ بندی کے بعد سے اسرائیل 125 بار معاہدے کی خلاف ورزیاں کر چکا ہے جن میں 94 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ 10 اکتوبر کو طے پایا تھا، جس پر 13 اکتوبر کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر کی ثالثی میں باضابطہ دستخط ہوئے تھے۔ تاہم کچھ دنوں بعد ہی اسرائیلی فوج نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

7 اکتوبر کو ہم مکمل تباہی سے صرف ایک منٹ کے فاصلے پر تھے، اسرائیلی تجزیہ کار

پوڈکاسٹ میں گفتگو کے دوران اسرائیلی ماہر نے کہا کہ حزبِ اللہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی شرکت، 1948 کے عرب (اسرائیلی شہریت رکھنے والے عرب) اور ایران کی حمایت کے بغیر اسرائیل کو شکست دینا اور اس کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے حوالے سے جہاد اور سیاسی اسلام امور کے اسرائیلی ماہر نے میڈیا پر گفتگو میں کہا ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو مکمل بربادی کے کنارے تک پہنچا دیا تھا۔ نیوز ون کی ایک رپورٹ کے مطابق عوفر بنستوک، جو جہاد اور سیاسی اسلام کے امور کے ماہر ہیں، انہوں نے پوڈ کاسٹ سے گفتگو میں کہا کہ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر 2023 کو کی گئی کارروائی نے اسرائیل کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا تھا جہاں اس کا سقوط اور مکمل انہدام محض ایک منٹ کے فاصلے پر تھا، اور ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس بات پر بھی تبصرہ کیا ہے کہ حتیٰ کہ اگر وہاں فروغِ امن کے لیے ٹرمپ کے منصوبے پر آٹھ اسلامی و عرب رہنماؤں کے دستخط بھی ہوں تب بھی غزّہ میں اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات کیا ہوں گے۔ اسرائیلی ماہر کے بقول، 7 اکتوبر کو اسرائیل انتہائی کم فاصلے (ان کے بقول "ایک منٹ") پر مکمل طور پر دیوالیہ ہو سکتا تھا، فلسطینیوں کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی کیونکہ فلسطینی اس جدوجہد کو سیاسی تنازعے کے بجائے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی کبھی بھی حماس کو اس کے کیے ہوئے عمل پر براہِ راست موردِ الزام نہیں ٹھہراتے، اُن کی تنقید اس تنظیم پر اس لیے ہوتی ہے کہ حماس نے اکیلے اسرائیل کو ختم کرنے کی کوشش کی، جو اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، کیونکہ حزبِ اللہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی شرکت، 1948 کے عرب (اسرائیلی شہریت رکھنے والے عرب) اور ایران کی حمایت کے بغیر اسرائیل کو شکست دینا اور اس کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔  

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا حوثی باغیوں کی جیل پر حملہ اور 61 قیدیوں کی ہلاکت ممکنہ جنگی جرم ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
  • اسرائیل نے غزہ پر حملوں سے قبل امریکی انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا، اسرائیلی میڈیا
  • نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی طیاروں کے غزہ پر حملے
  • حماس کا اسرائیلی وزیراعظم کے حملوں کے حکم کے بعد اہم اعلان
  • نیتن یاہو کا حماس پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام، غزہ پر بڑے حملے کا حکم
  • نیتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو غزہ میں فوری اور شدید حملوں کا حکم دیدیا
  • کیا اسرائیل نئے و شدید تر حملوں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اماراتی میڈیا کا سوال
  • غزہ بین الاقوامی فورس میں پاکستان کے فوجی بھی شامل ہوں گے، اسرائیل میڈیا
  • 7 اکتوبر کو ہم مکمل تباہی سے صرف ایک منٹ کے فاصلے پر تھے، اسرائیلی تجزیہ کار