Islam Times:
2025-10-29@14:32:20 GMT

ایران ایک اہم اور اثرگذار ملک ہے، عراق

اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT

ایران ایک اہم اور اثرگذار ملک ہے، عراق

عراقی نیوز ایجنسی کیساتھ گفتگو میں وزیراعظم نے کہا کہ عراق نے دمشق کی نئی قیادت کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کا نیا مرحلہ شروع کیا ہے جو دو اہم شعبوں دہشتگردی کے خلاف جنگ، اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے پر مرکوز ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ہمسایہ ملک عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے خطے کی تازہ صورتحال اور اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک مسئلۂ فلسطین منصفانہ طور پر حل نہیں ہوتا، خطہ عدم استحکام کا شکار رہے گا اور اس نوعیت کے واقعات بار بار پیش آتے رہیں گے۔ عراقی خبر رساں ایجنسی واع کے مطابق السودانی نے غزہ بحران کے انتظامی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ عراق امریکی صدر کی جانب سے پیش کردہ غزہ کے مستقبل سے متعلق منصوبے کی حمایت کرتا ہے اور اسے انسانی بحران کے خاتمے کی سمت ایک مثبت قدم سمجھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران ایک اہم اور اثرگذار ملک ہے، اور اس کے ساتھ احترام اور براہِ راست مکالمے کے ذریعے تعلقات استوار کیے جانے چاہییں۔ وزیراعظم نے بغداد واشنگٹن تعلقات کے بارے میں کہا کہ عراق کے تعلقات امریکہ کے ساتھ حقیقی شراکت داری اور باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہییں، نہ کہ یکطرفہ فیصلوں پر۔ السودانی نے بتایا کہ عراق نے اپنے مالیاتی نظام کی اصلاحات میں نمایاں ترقی حاصل کی ہے، اور حکومت اس عمل کو مزید وسعت دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش اب عراق کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہا۔

وزارتِ دفاع کے اندازوں کے مطابق اس تنظیم کے صرف 400 سے 500 جنگجو چھوٹے گروہوں کی صورت میں شام کی سرحد اور شمال مشرقی علاقوں میں باقی رہ گئے ہیں۔ السودانی نے تصدیق کی کہ امریکی فوجی مشیران کا ایک محدود دستہ اب بھی عین‌الاسد فوجی اڈے پر موجود رہے گا جو شام کی سرحدی نگرانی، انٹیلی جنس تعاون اور انسدادِ دہشتگردی کے امور میں عراقی فورسز کے ساتھ کام کرے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عراق نے دمشق کی نئی قیادت کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کا نیا مرحلہ شروع کیا ہے جو دو اہم شعبوں دہشتگردی کے خلاف جنگ، اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے پر مرکوز ہے۔  

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: السودانی نے کہ عراق کے ساتھ کہا کہ

پڑھیں:

’’دہشتگردی روکیں‘‘ پاکستان موقف پر قائم  

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق افغان طالبان تحریری معاہدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے لچک نہ دکھانے پر صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ آج مذاکرات کے دور میں ثالث ابراہیم قالن بھی موجود ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا پاکستان نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پاکستان کے برعکس طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے جب کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔ جبکہ پاکستان مذاکرات میں اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان خوارج کی سرپرستی ختم کریں۔ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے استعمال سے روکا جائے۔ منفی اور بیرونی اثرات کے باوجود پاکستان اور دوست ممالک سنجیدگی سے بات چیت آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوست ممالک خلوص کے ساتھ بات چیت مثبت طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتوار کے روز افغان طالبان کو دو ٹوک مؤقف سے آگاہ کیاگیا تھا۔ پاکستان نے کہا کہ دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں۔ مطالبات واضح اور شواہد پرمبنی ہیں۔ مذاکرات میں پیش رفت مثبت رویے پر منحصر ہے۔استنبول میں پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات کا تیسرا دور ہوا۔ مذاکرات میں پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان خوارج کی سرپرستی ختم کریں۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے استعمال سے روکی جائے۔ذرائع کے مطابق استنبول میں جاری مذاکرات کا تیسرا دن بھی مشکلات کا شکار  ہے۔ پاکستان نے جو منطقی اور مدلل مطالبات پیش کیے ہیں وہ جائز ہیں۔ افغان طالبان کا وفد ان مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میزبان ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے یہ مطالبات معقول اور جائز ہیں۔ دلچسپ طور پر افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔ افغان طالبان کا وفد بار بار کابل انتظامیہ سے رابطہ کر کے انہی کے احکامات کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ انہیں کابل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے۔ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہی بات سمجھائی ہے۔ تاہم کابل انتظامیہ سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آ رہا، جس سے تعطل پیدا ہو رہا ہے۔ کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کا مؤقف بدستور منطقی، مضبوط اور امن کے لیے ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیکیورٹی سمیت انسداد منشیات کیلئے ایران کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہتے ہیں: محسن نقوی
  • دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی ہر ممکن مدد کریں گے: ترک سفیر
  • ’’دہشتگردی روکیں‘‘ پاکستان موقف پر قائم  
  • ایران اور عمان خطے کے نشیب و فراز میں ہمیشہ ایک ساتھ رہے ہیں، ڈاکٹر پزیشکیان
  • کرد عسکریت پسند ہتھیاروں سے دستبردار، ترکیہ سے انخلا کا اعلان
  • ترکیہ عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، عراقی رہنما
  • امریکا کی دوغلی پالیسی
  • ایران امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے: ایرانی وزیرِ خارجہ
  • شاید مستقبل میں اپنا چہرہ اے آئی کو بیچ دوں:احد رضا میر