ماہرین نے امراضِ قلب اور فالج کی ایک عام مگر خطرناک وجہ دریافت کرلی
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ چند برسوں کے دوران ماہرینِ طب نے اس بات کا گہرا مطالعہ شروع کیا ہے کہ رات کے وقت گھروں، گلیوں اور دفاتر میں استعمال ہونے والی مصنوعی روشنی انسانی صحت پر کس حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔
مختلف تحقیقات سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ رات کے وقت روشنی کے ماحول میں زیادہ دیر تک رہنا جسم کے قدرتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ نومبر 2022 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، بیرونی مصنوعی روشنیوں میں زیادہ وقت گزارنے سے ذیابیطس کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ مارچ 2023 میں سامنے آنے والی ایک اور تحقیق نے بتایا کہ نیند کے دوران کسی بھی قسم کی روشنی کا استعمال بڑھاپے میں موٹاپے، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔
تازہ ترین تحقیق، جو جرنل JAMA Network Open میں شائع ہوئی ہے، میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ رات کے وقت مکمل تاریکی میں نہ سونے سے امراضِ قلب کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق وہ افراد جو روشن کمروں میں سوتے ہیں، ان میں ہارٹ فیلئر کا خطرہ 56 فیصد، دل کی شریانوں کے مرض کا 32 فیصد اور فالج کا 28 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
یہ تحقیق برطانیہ میں کی گئی، جس میں 49 سے 69 سال کی عمر کے پانچ لاکھ سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ان افراد کو 2013 سے 2022 کے درمیان ایک ہفتے تک لائٹ ٹریکرز پہنائے گئے، تاکہ رات 12:30 سے صبح 6 بجے تک ان کے اردگرد موجود روشنی کی مقدار اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔ نتائج سے پتا چلا کہ زیادہ روشنی میں سونے کے عادی افراد میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ 47 فیصد اور دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا خطرہ 32 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ خواتین اور نوجوانوں میں یہ اثرات نسبتاً زیادہ پائے گئے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ اگرچہ یہ تحقیق تعلق ظاہر کرتی ہے، مگر یہ حتمی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا کہ روشنی براہِ راست ان بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جسم کی اندرونی گھڑی (Biological Clock) روشنی کے زیرِ اثر کام کرتی ہے، اور جب یہ گھڑی متاثر ہوتی ہے تو دل، نیند اور ہارمونز کے نظام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر مکمل تاریکی ممکن نہ ہو تو رات کو مدھم روشنی کا استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ عادت دل کی صحت برقرار رکھنے اور نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس درست معلومات فراہم نہیں کرتے،تحقیق میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن: آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس درست معلومات فراہم نہیں کرتے۔
دنیا بھر کے 22 عالمی نشریاتی اداروں کی مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آٓئی) چیٹ بوٹس سوالات کے فراہم کردہ جوابات میں بھی بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔
جرمنی میں شائع رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتا چلا کہ چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی اور کوپائلٹ جیسے اے آئی چیٹ بوٹس خبروں کو اکثر توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور حقائق کو رائے سے الگ نہیں کر پاتے۔
مذکورہ تحقیق 22 عوامی نشریاتی اداروں نے کی، جن میں خود ڈی ڈبلیو بھی شامل تھا، تحقیق کے دوران چار مشہور اے آئی اسسٹنٹس چیٹ جی پی ٹی، مائیکروسافٹ کے کوپائلٹ، گوگل کا جیمنائی اور پرپلیکسٹی اے آئی کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تمام مذکورہ اے آئی بوٹس مجموعی طور پر خبروں کو 45 فیصد وقت غلط یا ناقص طور پر بیان کرتے ہیں، چاہے خبروں کی زبان کوئی بھی ہو اور ان خبروں کا تعلق کسی بھی علاقے یا ملک سے کیوں نہ ہو لیکن ان میں غلطیاں ہوتی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، این پی آر اور دیگر اداروں کے صحافیوں نے مذخورہ چاروں اے آئی اسسٹنٹس سے عام خبری سوالات پوچھے، جیسے ’یوکرین کا معدنیات کا معاہدہ کیا ہے؟ یا ’کیا ٹرمپ تیسری بار الیکشن لڑ سکتے ہیں؟‘
مذکورہ اداروں کے صحافیوں نے اے آئی چیٹ بوٹس کی جانب سے دیے گئے 3,000 جوابات کا جائزہ لیا، ان کا معیار دیکھا، درستگی، ذرائع کا حوالہ، سیاق و سباق، حقائق اور رائے میں فرق سمیت مناسب ایڈیٹوریل انداز کو بھی دیکھا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے 45 فیصد جوابات میں کم از کم ایک بڑی خرابی تھی، 31 فیصد میں ذرائع کی سنگین غلطی اور 20 فیصد میں حقائق کی بڑی غلطی تھی، یعنی ان میں درست حقائق نہیں دیے گئے تھے۔