27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیر یا منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا: رانا ثناء اللہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ خان نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جس کی منظوری کے بعد اسے سینیٹ اور بعدازاں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے بتایا کہ ترمیمی مسودہ کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو بھی ارسال کیا جائے گا، جہاں اس پر دو روز تک بحث متوقع ہے، اگر سینیٹ پیر کے روز مسودہ منظور کر لیتا ہے تو قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے مزید تین دن درکار ہوں گے۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ اتحادی جماعتوں سے مکمل مشاورت کی جا چکی ہے اور تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے کیے جائیں گے۔ جس نکتے پر اتفاق ہو جائے گا، وہ 27ویں ترمیم کا حصہ بنے گا، اور جن امور پر اختلاف برقرار رہے گا، انہیں آئندہ مرحلے کے لیے مؤخر کر دیا جائے گا۔
رانا ثناءاللہ نے بتایا کہ آئینی عدالت کے قیام پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتفاق رائے موجود ہے، جبکہ دوہری شہریت کے خاتمے کی تجویز بھی ترمیمی مسودے میں شامل ہے، اگرچہ پی ٹی آئی نے کمیٹیوں سے استعفے دے دیے ہیں، تاہم اسے ایوان میں ترمیم پیش کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لوکل گورنمنٹ نظام بھی 27ویں ترمیم کے ایجنڈے میں شامل ہے، اور اگر ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو آئندہ چار برسوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات لازمی ہوں گے، اتحادی جماعتوں نے مجموعی طور پر مثبت ردعمل دیا ہے، جبکہ امید ہے کہ پیپلز پارٹی این ایف سی ایوارڈ سے متعلق تجاویز پر بھی مثبت مؤقف اختیار کرے گی۔
آئینی عدالت کے حوالے سے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور آٹھ ججوں پر مشتمل عدالتی ڈھانچے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ ان کے مطابق، سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کا اسٹیٹس برابر ہو گا، جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہی آئینی عدالت کے چیف جج بھی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری اور تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہو گا، جو ایک علیحدہ خودمختار ادارہ ہوگا۔ رانا ثناءاللہ نے مزید بتایا کہ حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹ کا نظام کسی نہ کسی شکل میں بحال کرنے پر غور کر رہی ہے، تاہم ڈپٹی کمشنرز کو وہ وسیع اختیارات حاصل نہیں ہوں گے جو ماضی میں تھے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل رانا ثناءاللہ نے آئینی عدالت کیا جائے گا بتایا کہ ہوں گے نے کہا
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں وقفہ کیوں کیا گیا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق بیان کے بعد قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ آج نہیں تو کل آئینی ترمیم پیش کر دی جائے گی۔ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت حکومت کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل نہیں تھی، اس لیے حکومت نے اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کافی وقت صرف کیا تھا، جس کے بعد ترمیم پیش کی گئی۔
تاہم اس مرتبہ چونکہ آئینی ترمیم کے لیے درکار حمایت حکومت کو حاصل ہے، اس لیے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ترمیم جلد پیش کر دی جائے گی۔
پارلیمانی اجلاسوں میں غیر معمولی وقفہرواں ہفتے پہلے 4 نومبر کو سینیٹ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، جس کے بعد 5 نومبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ سینیٹ اجلاس میں 2 دن کا وقفہ کیا گیا ہے اور اب اجلاس 7 نومبر کو صبح ساڑھے 10 بجے طلب کیا گیا ہے، جبکہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک روز کا وقفہ کیا گیا ہے اور یہ اجلاس بھی 7 نومبر کو صبح 11 بجے طلب کیا گیا ہے۔
حکومت نے اجلاسوں میں وقفہ کیوں دیا؟وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ حکومت نے 27ویں ترمیم پیش کیے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس میں وقفہ کیوں کیا۔
سینیئر تجزیہ کار حافظ طاہر خلیل نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل پارلیمانی اجلاس میں عارضی وقفہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن سے مشاورت مکمل کی جا سکے۔
ان کے مطابق اجلاس میں وقفہ اس لیے کیا گیا ہے کہ حکومت ایک ہی ترمیم کے ذریعے آئین میں کم از کم 11 تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، جن میں زرعی اصلاحات، مالیاتی ترامیم اور عدالتی نظام میں ردوبدل شامل ہیں۔
ان مجوزہ ترامیم کے اثرات وسیع نوعیت کے ہیں، لہٰذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ منظوری سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے اتفاقِ رائے حاصل کیا جائے۔
حکومتی اختلافات اور اتحادی جماعتوں سے مشاورتحافظ طاہر خلیل کے مطابق اگرچہ اکثریت کی بنیاد پر ترمیم منظور کرانا ممکن ہے، مگر حکومت نہیں چاہتی کہ یہ اہم آئینی ترمیم متنازع قرار پائے۔ اسی وجہ سے اجلاس میں وقفہ دیا گیا ہے تاکہ اتحادی جماعتوں، خصوصاً پیپلز پارٹی، جے یو آئی، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سے مشاورت مکمل ہو سکے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اور حکومتی ارکان میں بھی اس ترمیم کے چند نکات پر اختلاف موجود ہے، خاص طور پر ان شقوں پر جن میں زرعی ٹیکسز اور آئینی عدالت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ حکومت موجودہ آئینی عدالت کے سربراہ کو توسیع دینے اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کے لیے سروس ایکسٹینشن کا راستہ کھولنے جا رہی ہے، جس پر بعض حکومتی ارکان نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
حکومت کی حکمتِ عملی اور قومی اتفاقِ رائےحافظ طاہر خلیل نے کہا کہ اجلاس میں وقفہ دینا حکومت کی ایک حکمتِ عملی ہے تاکہ ترمیم کو جلد بازی کے بجائے قومی اتفاقِ رائے سے منظور کرایا جا سکے۔ ماضی میں بھی ایسی بڑی ترامیم، جیسے 18ویں ترمیم، طویل مشاورت کے بعد ہی ممکن ہو سکی تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں