پیپلز پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم کی تجاویز مسترد کردیں، حکومت کے پاس کیا راستہ بچا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ نے 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق زیادہ تر تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی کے اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کے بعد آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا گیا ہے، جب کہ یہ ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں بھی شامل نہیں کی گئی۔
PPP Chairman Bilawal Bhutto-Zardari says his party’s CEC meeting has rejected the majority of the proposed 27th Amendment, adding it has only backed amendments to Article 243 of the Constitutionhttps://t.
— The Standard (@PakStandard) November 7, 2025
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آئینی ترمیم کی پیش رفت میں چند روز کی تاخیر ہو سکتی ہے۔
نجی خبررساں ادارے نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر پیپلز پارٹی آئینی ترمیم میں حکومت کی حمایت نہیں کرتی تو اس کی منظوری کے لیے حکومت کے پاس کیا آپشنز باقی ہیں۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو دونوں ایوانوں میں 2 تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔
اس وقت حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
لیکن اگر پیپلز پارٹی کے 74 ارکان حمایت نہ کریں تو حکومت کو ترمیم منظور کرانے کے لیے اپوزیشن کے 61 ارکان کی حمایت درکار ہوگی، جو بظاہر ممکن نہیں لگتا۔
اپوزیشن جماعتوں میں جے یو آئی کے 10 اور آزاد اراکین کی تعداد 7 ہے، اگر حکومت جے یو آئی کی حمایت حاصل کر بھی لے تو بھی اسے مزید 51 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
سینیٹ میں پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد 26 ہے، حکومت کو اس وقت سینیٹ میں 35 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ آئینی ترمیم کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔
اس لیے پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر ترمیم کی منظوری ناممکن ہے۔
قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کو مسلم لیگ (ن) کے 125، ایم کیو ایم کے 22، مسلم لیگ (ق) کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ضیا کے ایک ایک، اور 4 آزاد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
اس طرح حکومت کو مجموعی طور پر 163 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ 2 تہائی اکثریت کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو بھی 2 تہائی اکثریت حاصل نہیں، حکومت کو مسلم لیگ (ن) کے 20، بی اے پی کے 4، ایم کیو ایم کے 3، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ایک ایک، اور 3 آزاد سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
یہ تعداد مجموعی طور پر 35 بنتی ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے مزید 29 ووٹ درکار ہیں، جے یو آئی کے 7 اور پی ٹی آئی کے 14 سینیٹرز ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنا بظاہر ممکن نہیں۔
حتیٰ کہ اگر جے یو آئی بھی حمایت کر دے تو بھی آئینی ترمیم کی منظوری کے امکانات کم ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر 27ویں آئینی ترمیم کا منظور ہونا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منگل تک پیپلز پارٹی کو راضی کرنے کے بعد پہلے کابینہ سے آئینی ترمیم کی منظوری لی جائے گی، جس کے بعد اسے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ارکان کی حمایت حاصل ہے آئینی ترمیم کی منظوری کی منظوری کے قومی اسمبلی پیپلز پارٹی سینیٹ میں جے یو آئی حکومت کو پارٹی کے مسلم لیگ کے لیے
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا مشن، حکومت کو 237 ارکان کی حمایت حاصل
27 ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کا مشن جاری ہے۔قومی اسمبلی کا ایوان 336 اراکین پر مشتمل ہے، 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب ایوان میں اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کیلئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے، حکومتی اتحاد کو پیپلزپارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ن لیگ 125 اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلزپارٹی کے 74 اراکین ہیں،ایم کیو ایم کے 22، ق لیگ کے 5 اور آئی پی پی کے 4 اراکین ہیں،مسلم لیگ ضیا،بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4 آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے، اپوزیشن بنچوں پر 75 آزاد اراکین ہیں، جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔سینیٹ میں ترمیم کی منظوری کیلئے 96 میں سے 64 ووٹ درکار ہیں، حکومتی اتحاد کے پاس 65 ووٹ ہیں۔