26ویں آئینی ترمیم کے مقابلے میں 27ویں ترمیم کی منظوری کس طرح مختلف تھی؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
گزشتہ سال قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کا عمل حالیہ 27ویں آئینی ترمیم کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مشکل تھا۔
26ویں ترمیم سینیٹ سے 65 جبکہ قومی اسمبلی سے 225 اراکین کی حمایت سے منظور ہوئی تھی، جب کہ موجودہ 27ویں ترمیم سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 235 اراکین کی حمایت سے منظور کی گئی۔
26ویں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کے وقت حکومت کے پاس نہ قومی اسمبلی میں 2 تہائی اکثریت تھی اور نہ ہی سینیٹ میں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے جمعیت علما اسلام (ف) کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
وزیراعظم شہباز شریف، صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر وزرا پر مشتمل متعدد وفود مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ گئے تاکہ ان کی تائید حاصل کی جا سکے۔
بالآخر جے یو آئی (ف) کی حمایت سے حکومت مطلوبہ 2 تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی
26ویں ترمیم کے موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 2 سینیٹرز کے اچانک غائب ہونے پر سیاسی ہلچل مچ گئی تھی۔
پارٹی سربراہ اختر مینگل نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے سینیٹرز لاپتا ہیں، بعد ازاں انہی کے ووٹ سے ترمیم کی منظوری ممکن ہوئی تھی۔
26ویں ترمیم پہلے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی، جہاں سے اسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم بھی سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور
کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین، بشمول مولانا فضل الرحمان، نے مل کر مسودے پر غور کیا۔
بعد ازاں یہ ترمیم دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی۔
سینیٹ میں ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا، جن میں حکومت کے 58، جے یو آئی (ف) کے 5 اور بی این پی کے 2 ارکان شامل تھے، جب کہ مخالفت میں صرف 4 ووٹ ڈالے گئے۔
مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: سابق صدر، وزیراعظم کو جیلوں میں ٹھونسنے کا رواج، اس لیے استثنیٰ بڑی بات لگتی ہے، رانا ثنااللہ
اس بار 27ویں آئینی ترمیم کا عمل مختلف تھا۔ یہ ترمیم پہلے سینیٹ میں پیش کی گئی اور غور کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجی گئی۔
اس کمیٹی میں قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا۔
کمیٹی نے ترامیم کے ساتھ نیا مسودہ تیار کیا جو سینیٹ کو واپس بھیجا گیا اور گزشتہ پیر کے روز ایوانِ بالا سے منظور ہوا۔
مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم آئین کی روح کے منافی ہے: اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا
حکومت کو اس بار پہلے سے 61 سینیٹرز اور 3 آزاد ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
اگرچہ سینیٹر عرفان صدیقی بیماری کے باعث اجلاس میں شریک نہ ہو سکے اور چیئرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔
لیکن جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی کے ایک ایک سینیٹر نے پارٹی پالیسی کے برخلاف ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
یوں سینیٹ سے 64 ووٹوں کی حمایت سے ترمیم منظور ہو گئی۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم دستخط کے لیے صدر کو کب بھیجی جائے گی اور اس کی منظوری کیسے ہو گی؟
قومی اسمبلی میں بھی حکومت کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ حمایت حاصل تھی، 27ویں ترمیم کے حق میں 235 ارکان نے ووٹ دیا۔
جبکہ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ جے یو آئی (ف) کے 4 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
26ویں ترمیم میں کل 27 شقیں شامل تھیں، جب کہ 27ویں ترمیم میں 63 ترامیم کی منظوری دی گئی۔
ان میں سے 59 شقیں پہلے سینیٹ سے منظور کی گئیں اور 4 نئی ترامیم قومی اسمبلی میں شامل کی گئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں آئینی ترمیم آصف زرداری بلاول بھٹو بی این پی پی ٹی آئی جے یو آئی ف سینیٹ شہباز شریف قائمہ کمیٹی قانون و انصاف قومی اسمبلی منطوری مولانا فضل الرحمان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 27ویں ا ئینی ترمیم بلاول بھٹو بی این پی پی ٹی ا ئی جے یو آئی ف سینیٹ شہباز شریف قائمہ کمیٹی قانون و انصاف قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی حمایت سے مزید پڑھیں 27ویں ترمیم 26ویں ترمیم کی منظوری جے یو آئی منظور ہو سینیٹ سے ترمیم کی ترمیم کے ووٹ دیا کے لیے کی گئی
پڑھیں:
سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟
ایوان بالا (سینیٹ) نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری دینے کے بعد آئینی ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔
27ویں آئینی ترمیم کے حق میں 64 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا، جن میں پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے احمد خان بھی شامل تھے۔
27ویں ترمیم کی ایوان بالا سے منظوری کے بعد اب قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری دی جائے گی، جس کے بعد مکمل آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے ایوان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے اراکین حکومت کی لابی میں چلے جائیں گے جبکہ ترمیم کے مخالف اراکین اپوزیشن لابی میں چلے جائیں گے اور قومی اسمبلی کے دروازوں کو بند کر دیا جائے گا۔
اس موقع پر اراکین کی تعداد گننے کے لیے دونوں لابیوں پر موجود اراکین سے دستخط کرائے جائیں گے اور اس طرح گنتی شمار کی جائے گی۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی گنتی کا اعلان کریں گے اور اگر مطلوبہ 224 اراکین یا زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہوئی تو آئینی ترمیم منظور ہو جائے گی۔
اس کے بعد وزیراعظم اس پر دستخط کر کے اسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو ارسال کر دیں گے۔
صدر مملکت آئینی ترمیم پر دستخط کردیں گے جس کے بعد باقاعدہ طور پر ان ترامیم کو آئین کا حصہ بنا لیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ، پارلیمنٹیرینز کیا کہتے ہیں؟
واضح رہے کہ اپوزیشن نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ترمیم سینیٹ شق وار منظوری قومی اسمبلی وی نیوز