امید ہے کہ سعودی عرب جلد ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا، امریکی صدر
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایئر فورس وَن میں صحافیوں سے گفتگو کی۔ اس دوران ایک صحافی نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ آپ آئندہ ہفتے سعودی ولی عہد سے ملاقات کرنے والے ہیں؟ ملاقات کے مقاصد کیا ہیں؟ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امید ہے کہ سعودی عرب جلد ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایئر فورس وَن میں صحافیوں سے گفتگو کی۔ اس دوران ایک صحافی نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ آپ آئندہ ہفتے سعودی ولی عہد سے ملاقات کرنے والے ہیں؟ ملاقات کے مقاصد کیا ہیں؟ اس پر امریکی صدر نے کہا کہ یہ ملاقات سے بڑھ کر ہے۔صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا ابراہیمی معاہدے اس بات چیت کا حصہ ہوں گے؟ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ابراہیمی معاہدے بھی بات چیت کا حصہ ہوں گے۔ صحافیوں کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کا فیصلہ کیا ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ سعودی عرب بہت سے طیارے خریدنا چاہتے ہیں، ہم بہترین طیارے بناتے ہیں، بہترین میزائل بناتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب بہت سارے لڑاکا طیارے خریدنا چاہتا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابراہیمی معاہدے کہ سعودی عرب امریکی صدر کہا کہ
پڑھیں:
جل کر راکھ ہو چکا امریکی مہرہ
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں زلنسکی نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ خصوصی رپورٹ:
زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں اور واشنگٹن کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کے مستقل خوف میں زندگی گزار رہا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اخبار گارڈین سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں دوستانہ تھیں اور ان میں کوئی تنازع یا تناؤ نہیں تھا، اور بنیادی طور پر انہیں یعنی زلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
لیکن زلنسکی کا یہ تازہ دعویٰ کئی زاویے رکھتا ہے جنہیں آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ معاصر یوکرین کی تاریخ میں ولادیمیر زلنسکی کا نام سب سے زیادہ اس تصور کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ وہ ایسا صدر ہے جو امریکہ کی دو بڑی سیاسی قوتوں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان فٹ بال بنا رہا، اور آخرکار واشنگٹن کی جیوپولیٹیکل شطرنج میں ایک مدت کے بعد ختم شدہ اور غیر مؤثر مہرہ بن کر رہ گیا۔
زلنسکی جب اقتدار میں آیا تو اس نے قومی خودمختاری اور یوکرین کی تعمیرِ نو کے وعدوں کے ساتھ سیاسی میدان میں قدم رکھا، مگر جو راستہ اس نے چُنا، وہ اسے ایک ایسے دلدل میں لے گیا جو عالمی استعمار نے اس کے لیے پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ زلنسکی نہ صرف امریکہ کی متضاد پالیسیوں کا شکار ہوا، بلکہ اب وہ وائٹ ہاؤس کے عجلت پسندانہ فیصلوں اور واشنگٹن کے بدلتے مؤقف کے مستقل خوف میں جی رہا ہے۔
یہ خوف خاص طور پر اُس وقت بڑھا جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کی سیاسی دوڑ میں سامنے آئے اور انہوں نے صدارتی انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ علانیہ طور پر زلنسکی کو ایک جل کر راکھ ہو چکا مہرہ سمجھتے ہیں، ایسا مہرہ کہ جو اب یوکرین کی جنگ کے منظرنامے میں اپنا کردار پورا کر چکا ہے اور مزید امریکی مفادات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ لیکن زلنسکی کو اور راگنی الاپ رہے ہیں۔
زلنسکی کا ’’سب سے بڑا جھوٹ‘‘، خصوصاً اپنی آزاد خارجہ پالیسی اور ٹرمپ سے نہ ڈرنے کے حوالے سے، اس المیے کی ایک المناک تصویر ہے، وہ بارہا دعویٰ کرتا رہا کہ اس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی دہلیز تک پہنچا دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے اتحادی تک کییف اور یوکرین کے بڑے شہروں کے اوپر نو فلائی زون بنانے پر بھی آمادہ نہ ہوئے تاکہ شہریوں کی جان بچائی جا سکے۔
مغرب کی یہ بے عملی دوبارہ ثابت کرتی ہے کہ یوکرین اس کھیل میں پھنس چکا ہے، جس کے قواعد خود اس نے نہیں بلکہ دوسرے طے کرتے ہیں۔ آج کییف اُس آگ میں جل رہا ہے جو زلنسکی نے رضاکارانہ طور مغربی وابستگی اپنا کر خود بھڑکائی تھی۔ یوکرین کے عوام دراصل ایسے حکمران چاہتے ہیں جو بیگانی طاقتوں پر انحصار چھوڑ کر حقیقی معنوں میں قومی خودمختاری بحال کریں، لیکن یہ امید زلنسکی کی ذاتی پالیسیوں کے سائے تلے ماند پڑ چکی ہے۔
یوکرین کے موجودہ صدر زلنسکی نے اپنی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ آخری ملاقات میں اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ وہ یعنی خود زلنسکی اور کییف کے دیگر اعلیٰ حکام امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان یوکرین جنگ یا جنگ بندی کے بارے میں ہونیوالی گفتگو کے پسِ پردہ معاملات اور خفیہ نکات سے بے خبر رکھے گئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے سختی سے جواب دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ ’’یہ مسئلہ یوکرین کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا!‘‘ ٹرمپ کے اسی جملے سے زلنسکی جھوٹ بھی ثابت ہوتا ہے۔