مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
، مولانا فضل الرحمان —فائل فوٹو
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے انہوں نے کہا کہ ہم مکمل طور پر 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے نہ دستور میں بہتری آئے گی نہ یہ عوامی مفاد کا تقاضا پورا کرے گی۔ حکومت مکمل طور پر عدلیہ کو اپنے پنجے میں رکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال قبل 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں لائی گئی، عدلیہ سے متعلق 26ویں ترمیم ابھی بھی عدالت میں ہے اور نئی ترمیم لائی گئی، جے یو آئی آئینی عدالت کے حق میں تھی، اپوزیشن اور ہر مکتب فکر کو اعتماد میں لے کر آئین بنایا گیا تھا۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں قومی دائرے میں آنے کا کہا جاتا ہے، یہ کہتے ہیں ہم تو علماء کو 25 ہزار روپے دینا چاہتے ہیں، علماء کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں، یہ کس مد میں ملا کے ضمیر کو خریدنا چاہتے ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ پی پی پی نے بھی جمہوریت کی نفی میں اپنا کردار ادا کیا، پیپلز پارٹی نے اپنی روایات کو برقرار نہیں رکھا، ہم آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا چکے ہیں، 27ویں ترمیم کے بعد حکومت کی عوامی مقبولیت میں بہت کمی آئی۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ 27ویں ترمیم میں ایسی پیچیدگیاں ہیں عدالت بھی انہیں سمجھ نہیں پا رہی، ترمیم پاس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ سب کو ترجیح دیں اور اعتماد میں لیں، 27ویں ترمیم میں ایک تاحیات استثنیٰ دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جس آصف زرداری کو سالوں جیل میں رکھا گیا اب ان پر تاحیات کوئی مقدمہ درج نہ ہوسکے گا، پارلیمنٹ میں ہمارے ارکان نے اس ترمیم کی مخالفت کی، مرکزی شوریٰ نے ارکان کے فیصلے کی توثیق کی۔
انہوں نے کہا کہ ایک ماہ ایک ہفتہ تک جے یو آئی کے ساتھ حکومت نے مذاکرات کیے، تحریک انصاف آن بورڈ لی گئی اور ہم آئینی ترمیم پر ہر پیشرفت سے آگاہ بھی کرتے رہے، 26ویں ترمیم میں پی ٹی آئی کی تجاویز بھی لیں اور حکومت سے بھی منواتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم باہمی مشاورت سے آگے بڑھی اور کہا جاسکتا ہے متفقہ منظور ہوئی، ہم مسلسل کہتے کرتے رہے ایسی کوئی ترمیم منظور نہ ہو جس سے متفقہ ٹائٹل مجروح ہو، 27ویں ترمیم میں ان کا فرض تھا کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ 26ویں ترمیم ہمارے ساتھ عہدو پیمان تھا اور 27 ویں میں ہمیں نظر انداز کیا، بنیادی وجہ یہ تھی جبری طور پر پارٹی سے لوگوں کو توڑا گیا جعلی تعداد پوری کی گئی، یہ سب پارلیمنٹ اور جمہوری کے اقدار کے خلاف ہوا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان 26ویں ترمیم 27ویں ترمیم ان کا کہنا نے کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
ستائیسویں ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی، ترمیم لانے والی قوتوں کی عزت نہیں بڑھی، فضل الرحمن
اسلام آباد:جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ستائیسویں ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی، ترمیم لانے والی قوتوں کی عزت نہیں بڑھی۔
پارٹی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم اور بعض ایسے قوانین جو پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے، پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے ستائیسویں آئنی ترمیم کو کلیتاً مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہمارے اراکین نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔ مجلس شوریٰ نے اپنی جماعت کے پارلیمنٹیرینز کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ 26 ویں ترمیم کے حوالے سے ہم پی ٹی آئی کو ہر پیشرفت سے آگاہ کرتے رہے ۔ پی ٹی آئی کی تجاویز پر ہم حکومت کو مجبور بھی کرتے رہے۔ وہ ترمیم باہمی مشاورت کے عمل سے گزری تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ترمیم پارلیمنٹ میں قدرے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 27 ویں ترمیم کے دوران ان کا فرض تھا کہ وہ اپوزیشن سے مشاورت کرتے۔ کم ازکم جے یو آئی سے مشاورت کرتے۔ انہوں نے ایک فریق کو نظر اندازکیا۔ یہ دوتہائی اکثریت جبری اور جعلی تھی۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہورہت کے منافی ہوا۔ جو قوتیں اس ترمیم کو لانے پر مصر تھیں ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عوام میں حکومت کی مقبولیت بڑی تیزی سے گری۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں حکومت جن چیزوں سے دستبردار ہوئی، آج پارلیمنٹیرینز کا ہاتھ مروڑ کر انہیں پاس کیا۔ ترمیم لاکر ایسی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں کہ خود عدالت کو بھی سمجھ نہیں آرہا۔ اصولی طور پر جے یو آئی آئینی عدالت کے حق میں تھی۔ جب آئین بن رہا تھا، اس وقت بھی پارٹیوں کا موقف مختلف تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے دوتہائی اکثریت ہونے کے باوجود سب سے مشاورت کی، چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ آج پیپلزپارٹی کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کے خلاف گئی؟۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی نفی میں کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی نے غیرجمہوری عمل میں حکومت کا ساتھ دیا ۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ بعض اہل منصب کو تاحیات استثنا دیا گیا۔ فوجی حکومت میں زرداری صاحب الزامات پر 8سال جیل میں رہے۔ آج اسی کو کہا جارہاہے تاحیات آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان کا قانون ان کو 8سال تک عدالت میں پیش نہیں کرتا رہا ؟۔ صدارت کے منصب کے بعد ایسا کیوں؟ کیوں معصوم شخصیت کا روپ دیدیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی بھارت کے مقابلے میں بہادری کی سب سے پہلے ہم نے تعریف کی، لیکن اس کی پاداش میں ان کو تاحیات جو مراعات دی گئی ہیں، وہ جمہوری معاشرے میں متحمل نہیں۔ مسلح افواج کے سربراہان اس ترمیم کے تحت ملنے والی مراعات سے خود سے انکار کردیں۔ اس طرح تو ملک میں طبقاتی نظام پیدا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مساوات کے نعرے لگانا اور اس کے برعکس قانون پاس کرنا جمہوری معاشرے کے شایان شان نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کو آئین سازی کا اساس قراردیا گیا ہے۔ خلفائے راشدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے تو کیا یہ ان سے بھی بڑے ہیں؟۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ یہ قائداعظم کے اصولوں کی بھی نفی ہے۔