اتفاق رائے ہوگیا تو 28 ویں ترمیم بجٹ سے پہلے آسکتی ہے:رانا ثنا اللہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
ویب ڈیسک:وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے ہوگیا تو 28 ویں ترمیم بجٹ سے پہلے آسکتی ہے اور کوشش بھی یہی کی جائے گی اور یہ عمل مئی تک بھی ہوگیا تو بہتر رہے گا، تا ہم انہوں نے عندیہ دیا کہ جیسے جیسے اشوز پر اتفاق رائے ہوتا گیا ویسے ویسے وہ قسطوں میں بھی مختلف ترامیم کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔
نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ این ایف سی یا صوبوں اور وفاق کے مابین ذرائع کی تقسیم، بلدیاتی انتخابات، پاپولیشن، ہیلتھ اور ہائر ایجوکشن یہ وہ امور ہوں گے جن پر اتفاق رائے ہونا ہوگا اور جیسے ہی یہ ہوجائے گا تو ترمیم آجائے گی۔
ٹریکٹر نے دو پولیس اہلکاروں کو کچل ڈالا،ایک جاں بحق
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جیسے جیسے اتفاق رائے ہوتا جائے گا تو وہ چیز ترمیم کا حصہ بنتی جائے گی اور ایسی صورت میں یہ ٹکڑوں میں بھی آسکتی ہے یعنی مختلف ترامیم کی صورت میں۔
خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے امکانات؟
خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے امکانات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی صورت سامنے آتی ہے کہ جہاں قومی سلامتی خطرے میں ہوتی ہے تو پھر قومی تحفظ تو ہر چیز پر فوقیت رکھے گا لیکن لگتا نہیں ہے کہ بات گورنر راج کی حد تک جائے گی۔
عالمی برادری بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا نوٹس لے:پاکستان
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف چلنے والے خیبرپختونخوا میں آپریشن میں صوبائی حکومت کا اتنا عمل دخل نہیں ہے کیوں کہ اس کی سربراہی مسلح افواج کر رہی ہے اس لیے پی ٹی آئی کی سوچ کے مطابق بیان بازی جاری رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: رانا ثنا اللہ اتفاق رائے جائے گی
پڑھیں:
عوام کو 28ویں ترمیم اور نئی انتظامی اکائیوں کی بحث میں نہ الجھایا جائے، محمود مولوی
سینئر سیاستدان نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران سندھ حکومت اپنی واضح کارکردگی دکھائے اور ٹاؤن چیئرمینز مثال قائم کریں، اگر چھ ماہ بعد بھی سندھ کے حالات نہ بدلے تو عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ موجودہ نظام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا نئے انتظامی یونٹس ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو 28ویں ترمیم اور نئی انتظامی اکائیوں کی بحث میں مت الجھایا جائے اور نہ ہی عوام کو آپس میں لڑایا جائے بلکہ حقیقی حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ محمود مولوی نے سوال کیا کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر سب سے زیادہ مسائل کا شکار کیوں ہے؟ ان کے مطابق کراچی کا اصل بحران اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہونا اور کرپشن ہے، سندھ میں پہلے ہی چھ ڈویژن اور تیس اضلاع موجود ہیں مگر مقامی حکومتیں بے اختیار ہیں اور ٹاؤن چیئرمینز بھی اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر فنڈز دیئے گئے تھے تو کام کیوں نہیں ہوا اور سندھ حکومت کو سخت احتساب کرتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیئے۔
سینئر سیاستدان نے واضح کیا کہ مسئلہ نقشے یا انتظامی تقسیم کا نہیں، بلکہ سیاسی طور پر اختیارات نہ دینے کی ضد کا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ میئرز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کو ان کا حق دیا جائے تاکہ مقامی سطح پر حقیقی ترقی اور اصلاحات ممکن ہوں۔ محمود مولوی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران سندھ حکومت اپنی واضح کارکردگی دکھائے اور ٹاؤن چیئرمینز مثال قائم کریں، اگر چھ ماہ بعد بھی سندھ کے حالات نہ بدلے تو عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ موجودہ نظام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا نئے انتظامی یونٹس ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔