آکسفورڈ یونیورسٹی مباحثہ پاکستانی طلبا نے دو تہائی اکثریت سے جیت لیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والا پاک بھارت مباحثہ پاکستانی طلبا نے واضح برتری سے اپنے نام کرلیا ہے۔
مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ بھارتی پالیسی پاکستان کے لیے واقعی قومی سیکیورٹی کا معاملہ ہے یا پھر یہ عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے ایک سیاسی نعرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر احسن اقبال کی بڑی کامیابی، آکسفورڈ یونین کے تاریخی مکالمے میں اپنا مؤقف منوا لیا
پاکستانی ٹیم کی قیادت اسٹوڈنٹس یونین کے صدر موسیٰ ہراج نے کی، جبکہ بھارتی طلبا مباحثے کے دوران پوچھے گئے اہم سوالات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔
ڈیبیٹ ہال میں ووٹنگ کے دوران پاکستانی ٹیم کو 106 اور بھارتی ٹیم کو صرف 50 ووٹ ملے۔
نتیجتاً پاکستانی طلبا نے پاک بھارت مباحثہ دو تہائی اکثریت سے جیت کر اپنی برتری ثابت کردی۔
بھارت کی راہ فراراس سے قبل اس مباحثے میں بھارتی وفد عین وقت پر دستبردار ہوگیا تھا، بھارتی رہنماؤں کی اجتماعی پسپائی کے بعد پاکستان کو آکسفورڈ یونین میں بلامقابلہ فتح مل گئی، یہ اعلان پاکستان ہائی کمیشن لندن کی جانب سے کیا گیا تھا۔
ہائی کمیشن کے مطابق آکسفورڈ یونین میں طے شدہ مباحثے کے لیے بھارت کی جانب سے جنرل ایم ایم نروا، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی اور سچن پائلٹ کے نام فائنل تھے، تاہم تینوں مقررین نے عین وقت پر شرکت سے انکار کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا آکسفورڈ یونین مباحثے سے فرار، پاکستان کی بڑی فتح
اس کے بعد بھارتی وفد کی جانب سے چند غیر معروف اور کم درجے کے مقررین کی پیشکش کی گئی، جسے آکسفورڈ یونین نے مباحثے کے معیار کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا۔
پاکستانی وفد میں جنرل (ر) زبیر محمود حیات، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ڈاکٹر محمد فیصل لندن میں مباحثے کے لیے موجود تھے۔ ہائی کمیشن کے مطابق بھارتی اعلیٰ سطحی مقررین کی دستبرداری نے نہ صرف مباحثے کی ساکھ متاثر کی بلکہ جامعہ آکسفورڈ کو بھی خفت سے دوچار کیا۔
مباحثے کی قرارداد یہ تھی کہ ’بھارت کی پاکستان پالیسی محض عوامی جذبات بھڑکانے کی حکمت عملی ہے‘ اور بھارتی وفد اسی بحث سے راہِ فرار اختیار کرتا دکھائی دیا۔ ہائی کمیشن کا کہنا ہے کہ بھارتی وفد کی عدم شرکت نے غیر جانبدار علمی فورم پر بھارتی بیانیے کی کمزوری کھل کر بے نقاب کر دی۔
یہ بھی پڑھیں: آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر منتخب ہونے والے ولیم ہیگ کون ہیں؟
پاکستان ہائی کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی رہنما میڈیا پر بلند آہنگ بیانات تو دیتے ہیں مگر علمی دلائل اور مکالمے کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ آکسفورڈ میں طلبہ کی اکثریت بھارتی ہونے کے باوجود بھارتی پینل نے ووٹنگ اور براہِ راست سوالات کا سامنا کرنے سے انکار کیا۔
پاکستانی سفارتکاروں کے مطابق بھارت کی نام نہاد سیکیورٹی پالیسی ممکنہ منطقی سوالات کا وزن نہ اٹھا سکی اور مباحثہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھارتی وفد نے خود کو تنقید اور جواب دہی سے بچانے کے لیے پیچھے ہٹ کر اسے سبوتاژ کر دیا۔
ہائی کمیشن نے اس واقعے کو مئی 2025 سے جاری بھارتی سفارتی ناکامیوں کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے دلیل، مکالمے اور مضبوط قانونی مؤقف کے ساتھ مباحثہ جیتنے کی تیاری کی تھی، جبکہ بھارت نے ایک بار پھر پسپائی کو ہی حکمت عملی بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے تعلق رکھنے والے موسیٰ ہراج آکسفورڈ یونین کے صدر منتخب
پاکستانی وفد کے مطابق آکسفورڈ یونین میں بھارتی عدم شرکت نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ بھارت کے اپنے عوام کے سامنے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آکسفورڈ بھارت پاکستان مباحثہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا کسفورڈ بھارت پاکستان آکسفورڈ یونین کسفورڈ یونین یہ بھی پڑھیں بھارتی وفد ہائی کمیشن مباحثے کے کہ بھارتی ا کسفورڈ بھارت کی کے مطابق کہ بھارت کے لیے
پڑھیں:
آکسفورڈ یونین کے مباحثے میں پاکستان کی بڑی فتح‘ بھارتی وفد عین وقت پر فرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251128-01-22
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے علمی میدان میں بڑی فتح حاصل کرلی جہاں آکسفورڈ یونین کے تصدیق شدہ مباحثے سے بھارتی وفد عین وقت پر دستبردار ہوگیا اور پاکستان کو بلامقابلہ فتح حاصل ہوئی۔لندن میںپاکستانی ہائی کمیشن کے بیان کے مطابق جنرل (ر) زبیر محمود حیات، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ڈاکٹر محمد فیصل مباحثے کے لیے لندن میں موجود رہے لیکن بھارتی وفد حاضری کی ہمت نہ کر سکا۔بیان میں کہا گیا کہ قرارداد یہ تھی کہ بھارت کی پاکستان پالیسی محض عوامی جذبات بھڑکانے کی حکمت عملی ہے، بھارتی مقررین نے اسی بحث سے راہ فرار اختیار کی اور یوں بھارتی وفد کی دست برداری نے آکسفورڈ یونین جیسے غیرجانب دار فورم پر بھارتی بیانیے کی کمزوری بے نقاب کر دی ہے۔پاکستانی ہائی کمیشن کے مطابق بھارتی رہنما ٹی وی چینلز پر شور مچاتے ہیں، مگر علمی مباحثے میں دلیل اور جواب دینے سے گھبراتے ہیں، آکسفورڈ میں طلبہ کی اکثریت بھارتی ہونے کے باوجود بھارتی وفد نے ووٹ کا سامنا کرنے سے انکار کیا۔اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ بھارت کی نام نہاد ’’سیکورٹی پالیسی‘‘ آکسفورڈ یونین میں ممکنہ منطقی سوالات کا وزن نہ اٹھا سکی اور بھارتی مقررین نے ممکنہ شرمندگی سے بچنے کے لیے پہلے سے طے شدہ مباحثہ خود ہی سبوتاژ کر دیا۔پاکستانی ہائی کمیشن سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میڈیا پر پاکستان مخالف پراپیگنڈا کرنے والے بھارتی تجزیہ کار جب کھلی بحث کا موقع ملا تو غائب ہوگئے۔بیان میں کہا گیا کہ آکسفورڈ یونین میں بھارتی وفد کی غیرحاضری مئی 2025ء کے بعد سے جاری سفارتی و بیانیے کی ناکامیوں کی تازہ کڑی ہے، چرچل نے کہا تھا ’’گفتگو جنگ سے بہتر ہے‘‘ مگر بھارت آج ثابت کر رہا ہے کہ وہ نہ گفتگو کے لیے تیار ہے نہ جواب دہی کے لیے۔مزید بتایا گیا کہ پاکستان نے دلیل، مکالمے اور قانونی مؤقف سے بحث جیتنے کی تیاری کی لیکن بھارت نے بحث شروع ہونے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے، آکسفورڈ یونین میں بھارتی وفد کی عدم شرکت ان کے اپنے عوام کے سامنے بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔پاکستانی ہائی کمیشن نے کہا کہ پاکستان نے واضح، مدلل اور پراعتماد مؤقف کی تیاری کر رکھی تھی، جبکہ بھارت نے پسپائی کو ہی حکمت عملی بنایا۔