ہمارے بچے مر رہے ہیں کراچی کا میئر کہاں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کا یہ سانس لیتا ہوا مگر زخموں سے چور شہر آج ایک بار پھر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ سڑکوں کی بے حسی، نالوں کی بے ترتیبی، مین ہولز کی وحشت ناک کھلی ہوئی قبریں اور حکمرانوں کی بے زاری اس شہر کے ہر گھر میں درد کی کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ گلشن ِ اقبال کے کھلے نالے میں تین سالہ ابراہیم کی موت نے اس شہر کو پھر جھنجھوڑا ہے مگر حکمرانوں کے چہروں پر وہی بے نور سکون ہے، وہی سیاسی تکبر، وہی مصنوعی ہمدردی، وہی سستی اور غفلت جو پچھلے حادثوں میں بھی دیکھی گئی۔ جس شہر میں بچے کھیل نہیں سکتے، ہاتھ نہیں چھوڑ سکتے، دائیں بائیں نہیں دیکھ سکتے، وہ شہر زندہ نہیں ہوتا، وہ ایک چلتا پھرتا قبرستان ہوتا ہے۔ اور کراچی اب شاید انہی قبرستانوں میں سے ایک بنتا جا رہا ہے جہاں روز نئی قبریں زیادہ بنتی ہیں، نئی تعمیرات کم۔
ابراہیم کوئی پہلا بچہ نہیں تھا۔ نہ آخری ہو گا اگر یہ میئر ایسے ہی خوابوں میں غرق رہیں۔ کبھی کوئی بچہ ڈمپر کے نیچے کچلا جاتا ہے، کبھی چھینے جانے والے موبائل کی گولی اس کے جسم کو چھلنی کر دیتی ہے، کبھی بجلی کے ننگے تار اسے جلا دیتے ہیں، کبھی نالے اس کی سانسیں روک دیتے ہیں، کبھی اغوا اسے ماں کی گود سے چھین لیتا ہے۔ ہر واقعے کے بعد ایک بیان، ایک تعزیتی ٹویٹ، ایک فوٹو سیشن، ایک ’’تحقیقات جاری ہیں‘‘ کا مذاق، پھر خاموشی۔ اس شہر میں اصل قاتل مجرم نہیں، اصل قاتل انتظامیہ کی وہ غفلت ہے جس کا بوجھ ہر شہری اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ افسوس اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ ہمارے حکمرانوں کو نہ شرمندگی ہے، نہ احساس، نہ دکھ، نہ خوفِ خدا۔ ان کی کرسی محفوظ ہے، وہی ان کی اصل عبادت ہے۔
کراچی کا میئر جسے لوگ تبدیلی کی علامت سمجھ بیٹھے تھے، آج اس شہر پر ایک بوجھ بن چکا ہے۔ ابراہیم کی موت کے بعد ان کے بیانات سن کر یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی دوسرے سیارے کی کہانی سنا رہے ہوں۔ نہ معافی، نہ استعفا، نہ اعترافِ غلطی، نہ دل کی کسک۔ صرف الفاظ، خالی الفاظ، کھوکھلے جملے، بے جان پریس کانفرنسیں۔ وہی پرانی لائنیں کہ ’’ہم تحقیقات کررہے ہیں‘‘، ’’ذمے داروں کے خلاف کارروائی ہوگی‘‘، ’’میں خود موقع پر گیا‘‘۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میئر صاحب کسی موقع پر نہیں جاتے، وہ صرف کیمرے کے سامنے جاتے ہیں۔ ان کا غم شہر کے دکھ سے نہیں، میڈیا کے وقت سے جڑا ہوتا ہے۔
بچوں کے مرنے پر بھی اگر حکمران کے دل پر چوٹ نہ لگے تو پھر اسے حکمران کہنے کا کوئی جواز نہیں۔ کراچی کا ہر باپ، ہر ماں آج یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ اگر یہی سانحہ میئر کے اپنے گھر میں ہوتا، اگر کسی حکمران کا اپنا بچہ نالے میں گر کر مر جاتا، اگر کسی بااثر خاندان کا بچہ کھلے مین ہول میں بہہ جاتا! کیا تب بھی سب کچھ اتنا ہی سست، اتنا ہی بے حس اور اتنا ہی بے کار ہوتا؟ کیا تب بھی ریسکیو ٹیمیں دیریں لگاتیں؟ کیا تب بھی نالوں کے نقشے وقت پر نہ ملتے؟ کیا تب بھی شہر کی انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کھڑی رہتی؟ نہیں! تب شہر بدل جاتا، راستے ایک رات میں صاف ہوجاتے، نالے ڈھک جاتے، اور غفلت کے ذمے داروں کی فائلیں بھی دھڑام سے بند ہو جاتیں۔ لیکن یہ بچہ ’’عام آدمی‘‘ کا تھا، اس لیے ریاست بھی عام سی رہی، میئر بھی عام سا رہا، اور افسوس بھی معمولی سا رہا۔
یہ وہ شہر ہے جہاں نالے حکومت کی نگرانی میں نہیں، بلکہ شہریوں کی بدقسمتی میں بہتے ہیں۔ جہاں مین ہول کے ڈھکن نہیں، موت کے دروازے ہیں۔ جہاں ہر پہلا حادثہ آخری نہیں بنتا بلکہ ہر دوسرا حادثہ پہلے والے سے زیادہ دردناک ہو جاتا ہے۔ مئیر کراچی نے اس شہر کے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ سب آج ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔ شہر کی صفائی کا وعدہ، نالوں کی مرمت کا دعویٰ، نکاسی آب کی بہتری، گلیوں کی حفاظت سب جھوٹ، سب ڈھکوسلا، سب ایک سیاسی اشتہار، ایک دھوکا۔
مئیر صاحب کو چاہیے تھا کہ شہر بھر کے کھلے مین ہولز کی ہنگامی بنیادوں پر نشاندہی کرتے، فوری ڈھکن ڈلواتے، ریسکیو اور ڈرینج محکموں میں رابطے مضبوط کرتے، لیکن ان کے نزدیک سوشل میڈیا کی پوسٹیں زیادہ اہم ہیں، شہر کم۔ ابراہیم کی موت کے بعد اگر ان کے اندر ذرا سا بھی احساس ہوتا تو وہ ایک منٹ ضائع کیے بغیر استعفا دیتے۔ مگر یہاں عہدہ بچانا بچے بچانے سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مئیر صاحب! کراچی مزید قبریں برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ کی ناقص کارکردگی، جھوٹے وعدے، غیر سنجیدگی اور بدترین انتظامی ناکامی نے اس شہر کو تباہی کے آخری کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے شہریوں کی زندگی روز ایک نئے خطرے کے رحم و کرم پر ہے۔ براہِ کرم، یہ شہر آپ کے تجربات، سیکھنے کے عمل یا سیاسی مشق کا میدان نہیں۔ اگر آپ سے شہر نہیں چل رہا اور حقیقت یہ ہے کہ نہیں چل رہا تو جھوٹ بولنا چھوڑیں اور گھر چلے جائیں۔ اس شہر کو عمل چاہیے، بہانے نہیں۔ اسے حفاظت چاہیے، پریس کانفرنسیں نہیں۔ اسے سچائی چاہیے، دکھاوا نہیں۔ کراچی کے بچے مزید نہیں مر سکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یا تو شہر بدل جائے، یا وہ لوگ بدل دیے جائیں جو اس شہر کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا تب بھی اس شہر کو کراچی کا
پڑھیں:
سازشی گروہ کا اصل بیانیہ کہاں سے آتا، کہاں تک پہنچتا ہے؟
سٹی42: مسلح افواج کے ترجمان نے آج نیوز کانفرنس میں یہ بھی ڈسکس کیا کہ سازشی گروہ نے چیف آف ڈیفنس فورسز(سی ڈی ایف) کے نوٹیفکیشن پر بھی پروپیگنڈا کیا، انہوں نے کہا کہ نوٹیفکیشن پر جھوٹ کا سیلاب برپا کیا گیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا، سی ڈی ایف نوٹیفکیشن پر فیک نیوز پھیلانےوالوں نے جھوٹ کا پروپیگنڈا کیا ۔ یہ کونسی سیاست ہے! یہ کہاں کی آزادی اظہار رائے ہے ! ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اپنی "سیاست" سے دور رکھو! گرو اپ!
جعلی ملازمتوں کی پیشکش، ایف آئی اے نے بیرون ملک جانے والوں کو خبردار کردیا
سازشی گروہ کا اصل بیانیہ کہاں سے آتا، کہاں تک پہنچتا ہے؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا، "اصل بیانیہ ذہنی مریض دیتا ہے . پھر افغانستان اور بھارت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اس بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پھر ان ٹوئٹس اور بیانیے کو چلاتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے اتنے ایشوز ہیں ان پر بات کیوں نہیں کرتے؟ان کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے۔ 13 سال سے حکومت ان کی ہے، اس کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتے۔
اس سال اب تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالا اسمارٹ فون کونسا ہے؟
Waseem Azmet