میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا شہر کی ترقی اور عوام کے لیے اقدامات پر زور
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے کام ہمارا فرض ہے اور تختیاں لگانا محض رسمی عمل ہے۔ انہوں نے بارہا واضح کیا کہ ان کا مقصد ووٹ حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام میں امید پیدا کرنا ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد کی شاہراہِ نور جہاں کی تعمیر ان کے دور میں ہوئی، اور بینر شکریہ جماعت اسلامی کے لگائے گئے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کام ہو رہا ہے تو تنقید اور تعصب کی پریس کانفرنسیں کیسے ہوں گی۔
میئر نے یہ بھی کہا کہ رقم وصول ہونے کے باوجود ٹی ایم سیز نے سڑکوں کی مرمت نہیں کی، اور انہوں نے سعید غنی کو بھی اس سلسلے میں خط لکھا ہے۔ سندھ سمیت دنیا بھر میں بسنے والے سندھیوں کو سندھی کلچر ڈے کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے امن، محبت اور اتحاد کا پیغام دیا۔
مرتضیٰ وہاب نے پرانے شہر کے علاقوں جیسے برتن گلی، کھجور مارکیٹ اور جونا مارکیٹ کی صورتحال بیان کی، جہاں روزانہ کروڑوں روپے کی تجارت ہوتی ہے اور اطراف میں صدیوں پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیوریج اور نکاسیٔ آب کا نظام تباہ حال تھا اور علاقے کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔
میئر نے عوام اور متاثرہ افراد سے معافی بھی مانگی، اور کہا کہ چائنہ کٹنگ کے ذریعے اس علاقے کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے صرف ایک کونسلر کے باوجود ان کے اقدامات جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رات کے اوقات میں بھی سڑکیں گندگی اور غلاظت سے بھری ہوئی تھیں، لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی نے وعدہ کیا ہے کہ ہر گلی اور محلّہ بہتر بنایا جائے گا۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ چار بازاروں میں سیوریج لائنز ڈالی گئی ہیں اور سڑکوں پر 2 لاکھ 20 ہزار اسکوائر فٹ پیور لگایا گیا ہے، جس پر تاجر اور مکین خوش ہیں اور شہر کے پیسے کا درست استعمال دیکھ کر مطمئن ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نکاح کے لیے لوگ انہی سڑکوں پر آتے ہیں، اور 15 دسمبر تک اس علاقے کے لیے ایک اور اسکیم کا آغاز ہوگا، جس پر 50 کروڑ روپے مزید خرچ کیے جائیں گے۔
میئر نے کراچی کی دیگر اہم ترقیاتی اسکیموں کا بھی ذکر کیا، جس میں لیاری ٹاؤن کی اندرونی گلیوں کی مرمت کے لیے 1 ارب روپے اور ملیر میں فلائی اوور تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب روپے شامل ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی کے انفرااسٹرکچر میں دلچسپی نہیں رکھتے، لیکن کے ایم سی شہر کی ترقی کے لیے پرعزم ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاب نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
حادثات و گٹروں کے سانحات پر سیاست
کراچی میں عام حادثات تو معمول ہیں ہی مگر اب مسلسل ٹرالروں و ٹینکروں کی زد میں آ کر اور شہر کے کھلے گٹروں میں گر کر ہلاکتوں پر سیاست تیزی سے پروان چڑھائی جا رہی ہے جس میں پیپلز پارٹی کے میئر کراچی، کراچی کے امیر جماعت اسلامی اور ان کے 9 ٹاؤن چیئرمینوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے رہنما پیش پیش ہیں، جن کے پاس کوئی بلدیاتی عہدہ تو نہیں مگر قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں کراچی سے منتخب ارکان کی بڑی بلکہ سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔
چوتھے نمبر پر چار ٹاؤنوں اور یوسیز میں پی ٹی آئی کے بلدیاتی عہدیدار بھی موجود ہیں جو اپنے بلدیاتی کاموں سے کام رکھے ہوئے ہیں جن کی شہری مسائل پر زیادہ تر خاموشی ہی رہتی ہے اور اسمبلیوں سے باہر پی ٹی آئی رہنماؤں کی سیاست زیادہ تر اپنے بانی کی رہائی کے لیے ہی نمایاں ہے یا وہ سندھ حکومت، پیپلز پارٹی پر ہی تنقید میں مصروف رہتے ہیں۔
جماعت اسلامی کو توقع تھی کہ وہ کراچی میں تحریک انصاف سے مل کر اپنا میئر لے آئیں گے اور یہ ممکن بھی تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت خفیہ ہاتھ دکھا کر پی ٹی آئی کے یوسیز چیئرمینوں سے معاملہ طے نہ کر لیتی تو جماعت اسلامی کا میئر اور پی ٹی آئی کا ڈپٹی میئر منتخب ہو سکتا تھا مگر سندھ حکومت کراچی میں اپنا میئر اکثریتی بنیاد پر منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی اور جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کا منہ دیکھتی رہ گئی تھی جس کے بعد سے وہ میئر کو قبضہ میئر قرار دیتے آ رہے ہیں اور اب تک ان کی تان قابض میئر پر ہی ٹوٹتی ہے اور وہ ہر مسئلے پر میئر کراچی سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے۔
حال ہی میں تین سالہ معصوم بچے کی گلشن اقبال ٹاؤن میں کھلے گٹر میں گرنے سے ہلاکت کا ذمے دار میئر کراچی کو قرار دے کر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا جس پر میئر کا کہنا تھا کہ گلشن ٹاؤن کا چیئرمین جماعت اسلامی کا ہے میں بولوں گا تو جماعت اسلامی برا منائے گی۔
جماعت اسلامی کراچی میں گٹروں میں گر کر ہلاکتیں ہونے کا ذمے دار میئر کراچی کو اور ایم کیو ایم ٹرالروں اور ٹینکروں تلے دب کر ہلاک ہونے والوں کی ذمے داری پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر ڈالتی آ رہی ہے کہ جو ٹرالرز و ٹینکرز مافیاز کی سرپرست بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی زد میں آ کر افراد کی ہلاکتوں کو روکا نہیں جا رہا اور ایسے حادثات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے جواب میں صوبائی وزرا خاموش نہیں رہتے اور ایم کیو ایم کے ماضی کو بنیاد بنا کر تنقید شروع کر دیتے ہیں جس کا جواب ایم کیو ایم کے رہنما فوری دیتے ہیں اور جماعت اسلامی بھی درمیان میں کود پڑتی ہے اور سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کو کراچی کے مسائل اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ روکنے میں ناکام رہنے والی سندھ حکومت کو قرار دے دیتی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا شہر اور وفاقی و صوبائی حکومت کو سب سے زیادہ آمدنی فراہم کرنے والا کراچی بلاشبہ بے شمار اہم مسائل کا شکار ہے جس کے مسائل کے حل میں 17 سال سے برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی سندھ کی حکومت مسلسل ناکام ہے جب کہ پہلی بار کراچی کا میئر 13ٹاؤن چیئرمین اور یوسی چیئرمینوں کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی کی ہے جس کی پی پی قیادت سالوں سے خواہش مند تھی جو پوری بھی ہو گئی مگر سندھ حکومت نے عملی طور پر کراچی کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جس کی شہریوں کو توقع تھی۔
اگر جماعت اسلامی کا میئر آ جاتا تو سندھ حکومت کے پاس کراچی کو نظرانداز کرنے کا سیاسی جواز ہوتا کہ کراچی کی نمایندگی پی پی کے پاس نہیں مگر اب میئر کراچی 13 ٹاؤنز کی سربراہی رکھنے والی پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو کراچی دشمن پالیسی تبدیل کرنی چاہیے تھی جو عملی طور پر تبدیل نہیں ہوئی کیونکہ کراچی میں ان کے ارکان اسمبلی پہلے سے زیادہ ہیں مگر اکثریتی نمایندگی ایم کیو ایم کی ہے اور اندرون سندھ میں واضح اکثریت کے باعث سندھ میں چوتھی بار حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں کا سلوک کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں کا رہا۔ تینوں ہی پارٹیوں نے کراچی کے لیے زبانی طور پر صرف دعوے کیے، عملی طور پر کچھ نہیں کیا جس کی سزا کراچی کے لوگ بھگت رہے ہیں اور صرف جنرل پرویز مشرف واحد صدر مملکت تھے جنھوں نے کراچی کو اہمیت اور بڑی مقدار میں فنڈز دیے اور کراچی سے وفا نبھائی جو ان کا آبائی شہر تھا۔
یوں تو بے نظیر بھٹو اور ان کے صاحبزادے بلاول زرداری بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے مگر دونوں نے کراچی کو اندرون سندھ جیسی ترجیح نہیں دی اور کراچی میں اپنی پیدائش کا حق ادا نہیں کیا۔ شریف فیملی نے اپنے آبائی شہر لاہور، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے اپنے آبائی شہروں ملتان اور گوجر خان کو ترقی دلائی اگر بے نظیر اور ان کے صاحبزادے نے کراچی پر توجہ دی ہوتی تو آج ملک کا سب سے بڑا شہر تباہ حالی کا شکار نہ ہوتا۔
کراچی کا المیہ یہ ہے کہ یہ بدقسمت شہر میئر کراچی کے مطابق 38 مختلف اداروں کے ماتحت کام کر رہا ہے جن میں ایک بڑا ادارہ بلدیہ عظمیٰ اور کنٹونمنٹس ہیں اور یہ شہر کسی ایک چین آف کمان میں نہیں ہے اور نہ کراچی کا میئر ان اختیارات کا حامل ہے جو عالمی طور پر بڑے شہروں کے میئرز ہیں۔
حال ہی میں گلشن اقبال میں گٹر میں گرنے سے بچے کی ہلاکت نے صوبائی حکومت کو بھی نیند سے بیدار کر دیا ہے جو اس سے قبل ایسی ہلاکتوں کو معمولی مسئلہ سمجھتی تھی اور وزیر بھی لب سی لیتے تھے۔ پہلی بار میئر کراچی نے سانحہ نیپا چورنگی کی ذمے داری قبول کی اور مرحوم بچے کے گھر جا کر اپنی ناکامی کا اعتراف کیا اور ورثا سے معافی مانگی جو ایک اچھا اقدام ہے مگر آئے دن کراچی اور سندھ حکومت کی غیر ذمے داری اور غفلت پر وزیر اعلیٰ سندھ تو کیا کسی ایک وزیر نے معافی نہیں مانگی کیونکہ کراچی ان کا آبائی شہر نہیں اور جس بڑے کا یہ آبائی شہر ہے اب ان کو بھی دیکھنا ہوگا کہ اسٹریٹ کرائم، گٹروں اور ٹرالر اور ٹینکرز مافیا سے ہلاکتیں کیوں ہو رہی ہیں اور ذمے دار کون ہے؟