قوم کو متحد رکھنے کی ضرورت!
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں نے 8 فروری 2024 کے انتخابات میں فارم 47 کے ذریعے حکومت بننے پر پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔ تاہم امید کی جارہی تھی کہ لایا گیا سیٹ اپ ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکال کر ترقی کی طرف گامزن اور عوام کے دکھ درد کا ازالہ کرے گا۔ تاہم گزشتہ پونے دو سال میں حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے جس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ آج وطن عزیز اندرونی اور بیرونی خطرات کی زد میں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت ایک بار پھر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور دعویٰ کر رہا ہے کہ صوبہ سندھ کو دوبارہ ممبئی سے ملایا جائے گا، جب کہ افغانستان سے تعلقات دوستی کے بجائے دشمنی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ گیس معاہدے اور پائپ لائن بچھانے کے باوجود امریکی خوف کی وجہ سے معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی عروج پر ہے اور سندھ میں ڈاکو راج ہے۔ یہاں تک کہ عام آدمی کو تحفظ دینا تو درکنار لیکن اب تو تھانے اور چوکیاں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے بھی پریشان ہے، دوسری طرف 80 لاکھ افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ ملک کی آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ لاکھوں لوگ صحت، تعلیم، روزگار اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، جب کہ حکمران ٹولے نے ہر مسئلے کے حل کے لیے پٹرول، ڈیزل، پانی اور بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکس عائد کررکھے ہیں، لیکن حکمران اپنے شاہانہ اخراجات ختم کرنے کو تیار نہیں۔ قرض لے کر ملک چلایا جا رہا ہے۔ شہباز حکومت نے بھی قلیل مدت میں ریکارڈ قرضہ لے کر ملک و قوم کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی کارکردگی کوتسلی بخش نہیں کہا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ نے حکومت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں کرپشن کے بارے میں اپنا مرکزی موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں کرپشن مسلسل اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، اور اسی وجہ سے مختلف ریاستی اداروں میں فیصلہ سازی کمزور اور وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے‘۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن اور گورننس کے مسائل کو بہتر کر لیا جائے تو جی ڈی پی میں پانچ سے چھے فی صد تک اضافی ترقی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ٹیکس نظام کو ڈسٹورٹیو اور پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری ٹیکس چھوٹ طاقتور طبقوں کو فائدہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر میں آئی ٹی اور آڈٹ پروسیس کو کمزور گردانا ہے۔ (بحوالہ اردونیوز) دوسری جانب آئی ایم ایف کی مخالفت کے باوجود حکومتی اتحادی ایم این ایز کو 43 ارب روپے جاری کرنے کی اطلاعات ہیں، یعنی ہر ایم این اے کو 25 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ اس صورتحال کے باوجود صاحب اقتدار لوگ کہتے ہیں کہ ’’سب کچھ ٹھیک اور پاکستان اب اونچی اُڑان کی طرف جائے گا‘‘۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکمران اوران کے بینک بیلنس تو اونچی اُڑان کی طرف جارہے ہیں مگر عام آدمی کے لیے تو زندہ رہنما بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے اسد قیصر نے نیب سے 5300 ارب روپیے کی کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ کراچی صوبے کے بجٹ کا 98 فی صد حصہ فراہم کرتا ہے لیکن اس شہر اور عوام کا کوئی پْر سان حال نہیں، سندھ حکومت گزشتہ 15 برس میں کراچی کے 3360 ارب روپے کھا چکی ہے، صوبوں اور انتظامی یونٹس بنانے کی بحثیں چھیڑ کر عوام کو لڑوایا جاتا ہے، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی چل رہی ہے۔
اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کو ملک کو سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے اور بیرونی خطرات سے نمٹے کے لیے پوری سیاسی قیادت کو اکٹھا کرنا چاہیے تھا لیکن جس طرح پی ٹی آئی کو انتقامی کارروائیوں کے ذریعے دیوار سے لگایا گیا، خصوصی نشستیں چھین لی گئیں اور دوسری طرف بادشاہت قائم کرنے کے لیے 26 ویں اور 27 ویں ترمیم لائی گئی اور اب 28 ویں ترامیم لانے اور خیبر پختون خوا میں گورنر راج کے نفاذ کی بازگشت ہے، دوسری جانب فوج کے ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس میں نام لیے بغیر سابق وزیراعظم کو ذہنی مریض قرار دینے سے ماحول مزیدگرم ہوگیا ہے۔ اس سے جمہوری جماعتوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور عوام کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔ سینئر سیاستدان اور نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا لب ولہجہ، باڈی لینگویج کے ساتھ پیغام رسانی اپوزیشن جماعتوں کے لیے ریڈ کارڈ اور یہ سیاسی میدان میں صریحاً جانبداری ہے۔ اب یہ وقت ہے کہ اپوزیشن، سیاسی جمہوری قیادت، جمہوریت پسند سول سوسائٹی کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اْن کے درمیان موجود اور بڑھتے فاصلے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بنتے جارہے ہیں۔ قومی ترجیحات کی روشنی میں آئین، جمہوریت، انتخابات، پارلیمانی نظام اور وفاق و صوبوں کے درمیان اعتماد کے رشتوں کی مضبوطی کے لیے سیاسی جمہوری قیادت اور سول سوسائٹی نمائندگان کا کم از کم قومی ایجنڈے پر اتفاق ناگزیر ہوگیا ہے۔ ہر ادارہ آئین، قانون اور جمہوری اقدار کا پابند بنے تو ملک میں سیاسی، معاشی استحکام آئے گا۔ سیاست، جمہوریت، پارلیمانی جدوجہد میں شائستگی، جمہوری رویے، پْر امن جمہوری مزاحمت اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرتے ہیں۔ جیل میں بند قیدی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے جیل ضابطوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمیشہ مْہذّب، باوقار اور ترجیحی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی حالیہ آئینی ترامیم، عدلیہ کی آزادی اور انسانی حقوق پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے جمہوریت دشمن اقدامات کو گہری نظرسے دیکھ رہی ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے لیکن یکطرفہ اور جلد بازی میں اہم فیصلے لینے سے عوام میں تشویش پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صوبوں کے پاس کتنے اختیارات، وسائل اور سہولتیں ہیں۔ اس لیے یہ وقت ملک میں مزید انتشار اور فاصلے پیدا کرنے کا نہیں بلکہ قوم کو متحد رکھنے کا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اب یہ ملکی قیادت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے کہ وہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کے مقابلے میں کیسے متحد ہو کر آگے بڑھ سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کے باوجود کے لیے کی طرف رہا ہے
پڑھیں:
تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی جاری، انجام کیا ہوگا؟
تحریک تحفظ آئینِ پاکستان کے بینر تلے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے گزشتہ روز پشاور میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا، جس میں وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کہاکہ پی ٹی آئی پر ناقص حکمرانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، اگر ایسا ہوتا تو جماعت کو خیبرپختونخوا میں تیسری بار عوام کا مینڈیٹ نہ ملتا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا پشاور میں جلسہ: بہت جلد ڈی چوک جانے کی کال دوں گا، وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا اعلان
پی ٹی آئی رہنما شاہد خٹک نے مزید سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہاکہ اگر منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ’اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی‘۔
جلسے کے دوران ایک قرارداد بھی منظور کی گئی، جس میں بانی پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی رہائی اور دیگر سیاسی مطالبات شامل تھے، جبکہ چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
سیاسی محاذ آرائی یا نئی اسٹریٹجی؟سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی اسی شدت کے ساتھ جاری رہے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو اس کے سیاسی و ریاستی نتائج کیا ہوں گے؟ حکومتی حلقوں کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی جان بوجھ کر اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست کررہی ہے، تاکہ اپنی سیاسی مشکلات اور داخلی کمزوریوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں پی ٹی آئی کی قیادت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ آج کی تقاریر اور دھمکیوں نے ثابت کر دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک دن قبل جو کچھ کہا، وہ درست تھا۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کی زبان سیاسی اختلاف کے دائرے سے نکل چکی ہے۔
اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما انجینیئر خرم دستگیر نے اپنے بیان میں کہاکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیا ہے۔
اُن کے مطابق قومی سلامتی کو سیاسی داؤ پیچ کا ہدف بنانا ایک خطرناک روش ہے، اور بیرونِ ملک پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کرنا یا ایسے اقدامات کی ترغیب دینا کسی بھی صورت سیاسی جدوجہد کے زمرے میں نہیں آتا۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے کچھ خوفزدہ تو نظر آ رہی ہے اور اِسی وجہ سے ردعمل بھی دیا گیا، لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی باقی سیاسی جماعتوں جن کی وہاں طاقت بھی موجود ہے اور جنہوں نے وہاں حکومت بھی کی ہے اُن کے ساتھ معاملات درست اور تعلقات نہیں بڑھائے جا رہے۔
انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک اپنا تعلق جمیعت علمائے اِسلام یا اے این پی کے ساتھ نہیں بڑھا پائی اور یہ جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے دہشتگردوں کے خوف میں بھی مبتلا رہتی ہیں۔
حماد حسن نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے اور آج کا جلسہ بھی اتنا ہی تھا جتنا کوئی اور سیاسی جماعت بھی کر سکتی ہے، لیکن پی ٹی آئی کے علاوہ صوبے کی دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطے نہیں بڑھائے جا رہے جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو رہا ہے۔
’پی ٹی آئی کی بدترین کرپشن اور بدترین طرزِ حکومت سے مقامی لوگ نالاں ہیں، اور اِسی لیے صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کی جائے گی نہ گورنر راج لگے گا۔ پی ٹی آئی کو کوئی ایسا جواز فراہم نہیں کیا جائے گا جو اِس کی مقبولیت میں پھر سے اِضافے کا سبب بن سکے۔‘
سہیل وڑائچ کے پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کو مشورےسیاسی امور کے ماہر سینیئر صحافی سہیل وڑائچ اپنی مختلف تحریروں میں پاکستان تحریکِ انصاف کو گورننس کے مسائل دور کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتےہیں کہ سخت زبان وقتی طور پر کارکنوں کو متحرک کر سکتی ہے، لیکن طویل المدتی سیاست صرف احتجاجی بیانیے سے نہیں چلتی۔
ان کے مطابق عوام اب کارکردگی اور مسائل کے حل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سہیل وڑائچ ریاست کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔
اپنے گزشتہ روز شائع ہونے والے کالم میں لکھتے ہیں ’مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آگ کو ہوا نہ دی جائے بلکہ آگ پر پانی ڈالا جائے ۔ گزشتہ 3 سال سے مصالحت اور مذاکرات کی بات کرتے کرتے مایوسی تک پہنچنے کے باوجود اب بھی لڑائی، جھگڑا، سزائیں اور جماعت پر پابندی مسئلے کا مستقل حل نہیں، عارضی طور پر اس سے تحریک انصاف دب جائے گی لیکن غصے، تشدد اور دباؤ سے سیاسی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں ان سیاسی جذبات اور سیاسی تحریکوں کو سیاست سے ہی ختم کرناپڑتا ہے۔
’سیاست کا مقابلہ ایلو پیتھک نہیں ہومیو پیتھک علاج سے ہوتا ہے‘’سیاست کا مقابلہ ایلو پیتھک طریقہ علاج سے نہیں بلکہ ہومیو پیتھک علاج سے ہوتا ہے۔ سیاست کے اندر جوش، غصے اور انتہا پسندی کا علاج دانش مندی ہے، عقل اور ٹھنڈے مزاج سے ہی جذبات سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے انتہا پسندوں اور یوٹیوبرز کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہرایک کو ملزم، لفافی اور ٹاؤٹ سمجھتے ہیں۔ ریاست کو سیاست میں غصہ اور انتقام نہیں ڈالنا چاہیے۔ سیاست کا تعلق دانش سے ہے، اس کے مسائل غصے سے نہیں ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دیکھیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے عمران خان کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا
’تحریک انصاف کی غلطیوں، گستاخیوں، گالیوں اور ناانصافیوں کا جواب اسی کی زبان میں دینے کے بجائے اسے سیاست سے حل کرنے کا سلسلہ شروع کریں۔ سیاست کڑوے زہر سے بندے نہیں مارتی سیاست میٹھے زہر سے انسانوں کا شکار کرتی ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی سیاسی لڑائی فوجی ترجمان وی نیوز