دنیا میں تیزی سے فروغ پا رہا سود سے پاک مالیاتی نظام
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
دنیا کی غالب تہذیبیں ہمیشہ مالیاتی وسائل پر قابض رہی ہیں۔ تاریخی طور پر یورپی طاقتوں نے اطالوی بینکوں کے سود پر مبنی قرض کے نظام کو عالمی مالیاتی معیار کے طور پر مسلط کیا، لیکن حالیہ دہائیوں میں اسلامی مالیات نے یہ تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔
اسلامی معیشت آج فلاح و بہبود اور پائیدار ترقی کے لیے ایک موثر اور متبادل نظام کے طور پر سامنے آئی ہے، اور سود پر مبنی مغربی مالیاتی نظام کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران اسلامی مالیات کے سب سے بڑے مراکز ہیں، جہاں مارکیٹ شیئر 25 تا 30 فیصد ہے، اس کے بعد ملائیشیا (12 فیصد)، متحدہ عرب امارات (10 فیصد)، کویت اور قطر (5.
یہ ممالک نہ صرف اسلامی مالیات کی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ جدت اور پائیدار اصولوں کے ذریعے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسلامی معیشتی نظام مضبوط، قابل عمل اور عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر ہے۔ آج دنیا بھر میں اقتصادی بے یقینی کے دوران سود سے پاک مالیاتی نظام ایک امید کی کرن کے طور پر ابھر رہا ہے، جو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے مالیاتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
اسلامی مالیاتی اصولوں پر مبنی یہ نظام تاریخی مالیاتی اقدار کی تجدید بھی ہے، جو مدینہ سے قسطنطنیہ تک عظیم اسلامی سلطنتوں کے مالیاتی ڈھانچے کی بنیاد تھی۔ اسلامی معاشی فکر مسلمانوں کے لیے مذہبی ذمہ داری ہے، تاہم یورپی سودی نظام نے وقت کے ساتھ اس کی جگہ لے لی۔ اب جب دنیا اقتصادی دباؤ اور غیر یقینی حالات سے دوچار ہے، یہ نظام انصاف، شراکت داری اور فلاح و بہبود پر مبنی ایک مؤثر متبادل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
ملائیشیا کے محقق عبدالعظیم اصلاحی کے مطابق، اسلامی بینکاری کی ترقی ماضی کی روایات کی بازگشت نہیں بلکہ ایک جدید مالیاتی ماڈل کی علامت ہے، جو پائیدار ترقی، شراکت داری اور اخلاقی اصولوں کے امتزاج پر مبنی ہے۔
تاریخی طور پر اسلامی بینکاری کا آغاز مصر کے چھوٹے زرعی قصبے مت غمر سے ہوا، اور 1950 کی دہائی میں پاکستان کے دیہی علاقوں میں زمینداروں نے بغیر سود قرض دینے کے نیٹ ورک قائم کیے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ملائیشیا نے بھی اسلامی مالیات کو فروغ دیا، جبکہ 1973 میں فلپائن میں امانہ بینک قائم ہوا، جو آج بھی فعال ہے۔
اسلامی بینکاری کے سب سے اہم سنگ میل میں 1975 میں نجی شعبے کے تحت پہلا جدید اسلامی بینک قائم ہوا، اور اسی سال اسلامی ترقیاتی بینک بھی وجود میں آیا۔ 1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائی میں خلیجی ممالک، پاکستان، ایران اور سوڈان نے اپنے بینکاری نظاموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا شروع کیا، جس سے دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کی پذیرائی میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں بھی اسلامی بینکاری نے قدم جمایا اور آج یہ شعبہ روایتی اور ڈیجیٹل دونوں میدانوں میں ترقی کر رہا ہے۔ ایک نجی بینک کو مکمل طور پر اسلامی بینک میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ پاکستان میں موجود ہے، جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دیگر بینکوں کے لیے رہنمائی کے طور پر استعمال کیا۔
اسلامی بینکاری کا بنیادی مقصد سود سے پاک نظام ہے، اور یہ شراکت داری، ضمانتی سرمایہ کاری اور نفع و نقصان کی شراکت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ آج یہ نظام کمزور اور قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے روایتی معیشتی ڈھانچے کو سہارا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور پائیداری، شمولیت اور اجتماعی ترقی کے لیے ایک مؤثر متبادل فراہم کرتا ہے۔ یہ دراصل سرمایہ داری اور اشتراکیت کا متوازن امتزاج ہے، جو اہلیت، مساوات اور دیانت کے اصولوں پر ترقی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
اسلامی مالیات نہ صرف تاریخی اصولوں کی تجدید ہے بلکہ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں بھی ایک مضبوط، قابل عمل اور پائیدار مالیاتی متبادل کے طور پر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلامی بینکاری اسلامی بینک اور پائیدار کے طور پر رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
آئی ایم ایف نے پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-01-29
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط ملنے کی تصدیق کردی ہے۔ حکام اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی رقم مل گئی ہے ایک ارب ڈالر توسیعی فنڈ فسیلیٹی پروگرام کے تحت جاری کیے گئے۔ آئی ایم ایف نے 20 کروڑ ڈالرز کلائمٹ فناننسنگ کی مد میں جاری کیے ، واضح رہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پیر کے روز پاکستان کے لیے1.2 ارب ڈالر کی رقم کے اجرا کی منظوری دی تھی اور آئی ایم ایف کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) اور ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی (آر ایس ایف) کے تحت فراہم کی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس فیصلے کے بعد دونوں پروگراموں کے تحت مجموعی ادائیگیاں بڑھ کر 3 اعشاریہ 3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔