امام مسجد نبوی کا مسلمانوں پر بدعات سے اجتناب اور سنت کی پیروی پر زور
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و خطیب شیخ حسین آل الشیخ نے مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کی ہے۔
جمعہ کے خطے میں انہوں نے کہاکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اور اس کا اجر عظیم بناتا ہے)۔
یہ بھی پڑھیں مسلمان گناہوں سے باز آجائیں اور تقویٰ اختیار کریں، امام مسجدالحرام کا پیغام
شیخ حسین آل الشیخ نے خطبے میں یہ بھی بیان کیاکہ دین اسلام کا اصول ہے کہ ہر وہ عمل جس پر قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی دلیل نہ ہو، وہ بدعت شمار ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جو ہمارے دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے جو اس میں سے نہیں ہے، وہ ناقابل قبول ہے)۔
امام مسجد نبوی نے مزید کہاکہ اللہ تعالیٰ نے چار حرمت والے مہینے مقرر کیے ہیں، جن میں رجب کا مہینہ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں)۔ انہوں نے کہاکہ ان مہینوں میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اللہ کے احکامات کی زیادہ تعظیم کریں، گناہوں سے بچیں، نیک اعمال کریں اور بدعات سے اجتناب کریں۔
شیخ حسین آل الشیخ نے وضاحت کی کہ علما کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ رجب کے مہینے میں کسی خاص عبادت کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جیسے اس مہینے میں خاص طور پر روزے رکھنا یا راتوں کو قیام کرنا۔
انہوں نے کہاکہ جو روایات ان اعمال کے فضائل کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا من گھڑت ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر رجب کی ستائیسویں رات کو معراج کی رات کے طور پر منانے کو ایک نئی بدعت قرار دیا اور کہاکہ اس کے لیے نہ کوئی وقت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی معتبر دلیل ہے۔
امام مسجد نبوی نے مزید کہاکہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ شریعت کی پیروی ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اللہ کی محبت اور رضا حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا)۔
دوسری خطبے میں انہوں نے وضاحت کی کہ رجب کے حوالے سے مشہور دعا: (اللہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان) کو علما نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم عام طور پر اللہ سے خیر کی دعا کرنا شریعت کے اصولوں کے تحت جائز ہے۔
یہ بھی پڑھیں سعودی وزارت اسلامی امور اور پاکستانی وزارت مذہبی امور کے درمیان معاہدہ
خطاب کے آخر میں شیخ حسین آل الشیخ نے زور دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے سے پہلے اہل علم کی تصدیق ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کی پیروی میں کامیابی اور سعادت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امام مسجد نبوی خطہ جمعہ دین اسلام سعودی عرب سنت کی پیروی پر زور شیخ حسین آل شیخ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امام مسجد نبوی دین اسلام سنت کی پیروی پر زور وی نیوز شیخ حسین آل الشیخ نے امام مسجد نبوی انہوں نے کی پیروی اللہ سے
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭
سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔