مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے امام و خطیب شیخ حسین آل الشیخ نے مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کی ہے۔

جمعہ کے خطے میں انہوں نے کہاکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اور اس کا اجر عظیم بناتا ہے)۔

یہ بھی پڑھیں مسلمان گناہوں سے باز آجائیں اور تقویٰ اختیار کریں، امام مسجدالحرام کا پیغام

شیخ حسین آل الشیخ نے خطبے میں یہ بھی بیان کیاکہ دین اسلام کا اصول ہے کہ ہر وہ عمل جس پر قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی دلیل نہ ہو، وہ بدعت شمار ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جو ہمارے دین میں کوئی نئی چیز شامل کرے جو اس میں سے نہیں ہے، وہ ناقابل قبول ہے)۔

امام مسجد نبوی نے مزید کہاکہ اللہ تعالیٰ نے چار حرمت والے مہینے مقرر کیے ہیں، جن میں رجب کا مہینہ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں)۔ انہوں نے کہاکہ ان مہینوں میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اللہ کے احکامات کی زیادہ تعظیم کریں، گناہوں سے بچیں، نیک اعمال کریں اور بدعات سے اجتناب کریں۔

شیخ حسین آل الشیخ نے وضاحت کی کہ علما کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ رجب کے مہینے میں کسی خاص عبادت کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جیسے اس مہینے میں خاص طور پر روزے رکھنا یا راتوں کو قیام کرنا۔

انہوں نے کہاکہ جو روایات ان اعمال کے فضائل کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا من گھڑت ہیں۔

انہوں نے خاص طور پر رجب کی ستائیسویں رات کو معراج کی رات کے طور پر منانے کو ایک نئی بدعت قرار دیا اور کہاکہ اس کے لیے نہ کوئی وقت مقرر ہے اور نہ ہی کوئی معتبر دلیل ہے۔

امام مسجد نبوی نے مزید کہاکہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ شریعت کی پیروی ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اللہ کی محبت اور رضا حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا)۔

دوسری خطبے میں انہوں نے وضاحت کی کہ رجب کے حوالے سے مشہور دعا: (اللہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان) کو علما نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم عام طور پر اللہ سے خیر کی دعا کرنا شریعت کے اصولوں کے تحت جائز ہے۔

یہ بھی پڑھیں سعودی وزارت اسلامی امور اور پاکستانی وزارت مذہبی امور کے درمیان معاہدہ

خطاب کے آخر میں شیخ حسین آل الشیخ نے زور دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے سے پہلے اہل علم کی تصدیق ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کی پیروی میں کامیابی اور سعادت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امام مسجد نبوی خطہ جمعہ دین اسلام سعودی عرب سنت کی پیروی پر زور شیخ حسین آل شیخ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امام مسجد نبوی دین اسلام سنت کی پیروی پر زور وی نیوز شیخ حسین آل الشیخ نے امام مسجد نبوی انہوں نے کی پیروی اللہ سے

پڑھیں:

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی اسٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس ہے‘ طویل باؤنڈری وال اور وسیع گیٹ کے بعد پانی کے لمبے چوڑے تالاب ہیں‘ ان میں پتھروں کے راستے ہیں اور دائیں بائیں کنول کے پھول تیرتے رہتے ہیں‘ محل کی مرکزی عمارت درمیان میں ہے اور وہ آنکھوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہے‘ عمارت کے آگے پیچھے باغ‘ پھولوں کی روشیں اور جگہ جگہ چھوٹی آبشاریں اور ندیاں ہیں‘ باغوں کے درمیان گرم چشموں کے تالاب‘ غسل خانے اور حمام ہیں جب کہ محل کی پشت سے پتھر کا راستہ پہاڑی کی چوٹی تک جاتا ہے۔

 سیاحوں کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ یہ چیئرلفٹ کے ذریعے پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ جائیں یا پیدل ہائیکنگ کر لیں وہاں سے پوری وادی اور شیان شہر دکھائی دیتا ہے‘ محل شیان سے 25کلومیٹر دور ہے‘ بادشاہ نے شاید اپنی محبوبہ کو شاہی سازشوں سے بچانے کے لیے یہ اتنی دور بنایا تھا محل بہرحال خوب صورت تھا‘ ہم وہاں پہنچے تو سامنے چینی کلچرل ڈانس چل رہا تھا‘ نازک اندام چینی دوشیزائیں پیلی پوشاکوں میں رقص کر رہی تھیں اور محل‘ پہاڑ اور آبشار کے بیک گراؤنڈ میں وہ بہت دل پذیر تھا۔

شیان کے قدیم حصے میں چار چیزیں دیکھنے لائق ہیں‘ اولڈ سٹی کا آغاز بیل ٹاور سے ہوتا ہے‘ عین چوک میں ایک تہہ در تہہ چینی عمارت ہے‘ سیڑھیاں دور سے نظر آتی ہیں‘ آپ سیڑھیاں چڑھ کر تھک ہار کر اوپر پہنچتے ہیں تو چھت پر قدیم اسٹائل کی بڑی بڑی گھنٹیاں بلکہ گھنٹے لگے ہیں‘ صبح کے وقت یہ گھنٹیاں بجا کر شہر کو بیدار کیا جاتا تھا‘ گھنٹیوں کی آواز کے ساتھ ہی شہر کے دروازے کھل جاتے تھے اور مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا‘ بیل ٹاور سے آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر ڈرم ٹاور ہے‘ یہ بھی بیل ٹاور کی طرح تہہ در تہہ چینی عمارت ہے تاہم اس کی چھت پر بڑے بڑے ڈرم (ڈھول) رکھے ہیں۔

 یہ تمام ڈھول رات کے وقت بجائے جاتے تھے جس کے بعد شہر کے تمام گیٹس بند کر دیے جاتے تھے اور لوگ گھروں میں گھس کر دروازے بند کرلیتے تھے‘ اس کے بعد کسی شخص کو گلی میں نکلنے یا شہر میں گھومنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی‘ گلیوں اور چوکوں میں پولیس تعینات ہو جاتی تھی‘ رات جو بھی شخص باہر نظر آتا تھا وہ چور سمجھا جاتا تھا اور اگر وہ شخص رات کے وقت باہر نکلنے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہیں کر پاتا تھا تو اسے سرعام کوڑے مارے جاتے تھے‘ یہ انتظام آج بھی دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔

 پولیس رات کے وقت شہروں میں گردش کرتی ہے اور اگر کوئی شخص یا خاتون سڑک یا گلی میں نظر آ جائے تو اسے روک کر شناخت چیک کی جاتی ہے اور اس سے گلی میں گھومنے یا ڈرائیو کرنے کی وجہ بھی پوچھی جاتی ہے اگر جواب تسلی بخش نہ ہو تو پولیس اسے تھانے لے جاتی ہے اور بعدازاں اسے کسی باعزت شخص کی ذاتی ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے تاہم شہروں کا سینٹر اس اصول سے مبریٰ ہے وہاں کیوں کہ نائیٹ لائف ہوتی ہے چناں چہ لوگ وہاں ساری رات گھوم پھر سکتے ہیں‘ شہروں میں اس نوعیت کا بندوبست قبل مسیح میں شیان سے شروع ہوا اور یہ چلتے چلتے یورپ اور اس کے بعد دنیا کے دیگر ملکوں میں پہنچ گیا۔

 قدیم دور میں ڈرم ٹاور کے اردگرد شیان کی سب سے بڑی منڈی ہوتی تھی‘یہ 200قبل مسیح سے بھی پہلے ہن سلطنت کے زمانے میں بنی اور یہ بعدازاں دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی ٹریڈروٹ شاہراہ ریشم (سلک روٹ) کا نقطہ آغاز ہو گئی‘ یہ سڑک اس زمانے میں چار ہزار میل (6400 کلومیٹر) طویل تھی اور یہ ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کو آپس میں ملاتی تھی‘ اس زمانے میں عرب تجارت پر چھائے ہوئے تھے‘ یہ چین سے بارود‘ کاغذ اور ریشمی کپڑا شام لاتے تھے‘ اس زمانے میں مڈل ایسٹ میں لیوانت (Levant)نام کا ملک ہوتا تھا‘ آج کا شام‘ اردن اور اسرائیل اس کا حصہ تھا‘ عرب چین سے تجارتی سامان لیوانت لاتے اور وہاں سے جہازوں میں بھر کر اسے یورپ اور افریقہ کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے۔

 تجارتی سرگرمیاں کیوں کو سارا سال جاری رہتی تھیں چناں چہ عربوں نے ڈرم ٹاور کے اردگرد چھوٹے چھوٹے گودام بنا لیے ‘ وہ بالائی منزل پر قیام کرتے تھے اور نیچے ان کے گودام ہوتے تھے‘ عرب بعدازاں چوکی داری اور خریداری کے لیے عربی غلام یہاں آباد کرنے لگے یوں ڈرم ٹاور کے گرد عرب اسٹریٹ بن گئی‘ اسلام کا ظہور ہوا اور عرب مسلمان ہونے لگے تو عربی اسٹریٹ مسلم اسٹریٹ میں تبدیل ہو گئی‘ حضرت عثمانؓ کے دور میں عرب تاجروں نے خلیفہ وقت سے درخواست کی ہم شیان میں مسجد بنانا چاہتے ہیں‘ آپؓ نے اجازت دے دی لیکن خلفاء راشدین کے زمانے میں شیان میں کوئی باقاعدہ مسجد نہ بن سکی‘حضرت علیؓ اور امیرمعاویہؓ کی جنگوں کے دوران یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اموی بادشاہ ہاشم ابن عبدالمالک کے زمانے میں 742ء میں شیان میں مسجد کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی گئی۔

 چین میں اس وقت ٹنگ سلطنت تھی‘ وہ چین کی تاریخ کا سنہری ترین دور تھا‘ ملک میں استحکام تھا‘ دولت کی ریل پیل تھی اور بادشاہ لبرل تھا‘ وہ ہر قسم کے مذہب اور ثقافت کو خوش آمدید کہتا تھا چناں چہ حکومت نے مسجد کی تعمیر کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی‘ اس زمانے میں سینٹرل ایشیا سے دھڑا دھڑ مسلمان شیان میں آباد ہو رہے تھے‘ یہ لوگ چینی زبان میں ہوئی (Hui) جب کہ عربی میں خوزو کہلاتے تھے‘ سینٹرل ایشین مسلمانوں کی وجہ سے شیان کی مسجد خوجہ مسجد کہلانے لگی‘ مسلمانوں کی عادت ہے یہ اپنا گھر مسجد کے اردگرد بناتے ہیں‘شیان میں بھی مسلمان مسجد کے گرد آباد ہوتے گئے یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ پورا علاقہ مسلم آبادی میں تبدیل ہو گیا‘ آج ساڑھے تیرہ سو سال بعد اس علاقے میں صرف مسلمان آباد ہیں اور اس نسبت سے یہ علاقہ مسلم کوارٹر کہلاتا ہے‘ آج یہاں دس مسجدیں اور 60 ہزار مسلمان ہیں‘ تمام لوگ پابند صوم و صلوٰۃ ہیں‘ یہ لوگ گیارہ سو سال سے یہاں حلال ریستوران بھی چلا رہے ہیں۔

 آبادی کی مرکزی سڑک مسلم فوڈ اسٹریٹ کہلاتی ہے‘ اس کی دونوں سائیڈ پر ریستوران‘ جوس کارنرز‘ چائے خانے اور سویٹ شاپس ہیں جب کہ دائیں بائیں لاہور کے بانو بازار جیسی چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں اور ان گلیوں میں ہر قسم کی دکانیں ہیں تاہم علاقے میں شراب اور حرام گوشت کی ممانعت ہے‘ آپ کو ہرمرد داڑھی اور خاتون اسکارف میں نظر آئے گی‘ ہم دو بار مسلم اسٹریٹ گئے اورشیان کے ثقافتی کھانوں کو انجوائے کیا‘ یہ لوگ درختوں کی چھوٹی چھوٹی شاخوں پر گوشت کے تکے چڑھاتے ہیں اور انھیں کوئلوں پر پکاتے ہیں‘ تکے ذائقے میں لاجواب ہوتے ہیں‘ میرا مشورہ ہے آپ اگر شیان جائیں تو ان تکوں پر مصالحہ نہ لگانے دیں۔

 ان کا مصالحہ بہت تیز ہوتا ہے‘ یہ پیٹ کے جس جس مقام سے گزرتا ہے آپ کو اطلاع کرتا جاتا ہے چناں چہ اس سے بچ کر رہیں کیوں کہ یہ آپ کو تین مرتبہ تکلیف دے گا‘ کھاتے وقت‘ ہضم ہوتے وقت اور اخراج کے اوقات میں‘ ان کی مٹھائیاں قدیم‘ منفرد اور ذائقے میں لاجواب ہیں لیکن ان میں مٹھاس ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے‘ لوگ قدیم زمانے کے شربت بھی بناتے ہیں‘ ان میںبھی چینی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے۔

آپ نے اگر شیان کی جامع مسجد نہیں دیکھی تو پھر آپ نے دنیا میں کچھ نہیں دیکھا‘ یہ چینی اسٹائل کی دنیا کی واحد قدیم مسجد ہے‘ میں گیٹ سے اندر داخل ہوا تو سامنے چینی پگوڈا تھا‘ اس کے بعد مسجد کا پہلا صحن آیا‘ دائیں بائیں حجرے اور کلاس رومز تھے‘ مسجد میں پانچ صحن اور 22 کمرے ہیں‘ ایک کے بعد دوسرا صحن آتا ہے‘ صحن بھی چینی اسٹائل کے ہیں‘ اس زمانے میں قرآن مجید کے نسخے لانا مشکل تھا‘ عرب مسلمان سینٹرل ایشیا سے ایسے حفاظ تلاش کر کے شیان لائے جو پتھر پر آیات کندہ کر سکتے تھے‘ حفاظ نے پتھر کی بڑی بڑی سلوں پر پورا قرآن مجید نقش کر دیا‘ یہ پتھر آج بھی مسجد میں موجود ہیں‘ مسجد کی بنیاد کا کتبہ دوسرے صحن میں رکھا ہے۔

 یہ میز کی طرح ہے اور اس کے گرد پتھر کی چار کرسیاں دھری ہیں‘ مسجد کا ہال لکڑی کا ہے اور یہ آنکھوں سے ہوتا ہوا دل اور روح میں اتر جاتا ہے‘ ہال کی چاروں سائیڈز پر پورا قرآن مجید لکڑی میں منقش ہے‘ آیات کے نیچے چینی زبان میں اس کا ترجمہ بھی کھدا ہے‘ انگلیوں سے آیات کو چھونا اور انھیں بوسا دینا بہت بڑی سعادت ہے اور میں نے جی بھر کر یہ سعادت سمیٹی‘ عورتوں اور مردوں کے وضو خانے الگ ہیں‘ خواتین کے لیے ہال میں نماز کی جگہ متعین ہے‘یہ لوگ خواتین کو ہال کے درمیان گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دیتے‘ جنرل ضیاء الحق مسجد کی زیارت کے لیے خصوصی طور پر شیان آئے تھے‘ یہ اپنے ساتھ طویل قالین بھی لائے تھے۔

 جنرل صاحب نے امام صاحب سے وعدہ لیا تھا پاکستان کا قالین مرکزی ہال کے مرکزی دروازے کے ساتھ بچھایا جائے گا تاکہ ہر نمازی کا پہلا پاؤں پاکستان کے قالین پر آئے اور یہ جب نماز کے بعد مسجد سے رخصت ہو تو اس کا آخری قدم بھی پاکستانی قالین سے الگ ہو‘ مسجد کی انتظامیہ نے یہ وعدہ پورا کیا چناں چہ دہلیز کے ساتھ پہلا قالین پاکستانی ہے‘ ترکی‘ قطر اور سعودی عرب کے قالین اس کے بعد آتے ہیں‘ مسجد ثقافتی اثاثہ ہے لہٰذا یہ ہر دور میں کھلی اور آباد رہی حتیٰ کہ چین کے ثقافتی انقلاب میں جب تمام مسجدیں فیکٹریوں اور گوداموں میں تبدیل کر دی گئی تھیں یہ اس وقت بھی برقرار رہی‘ ہمارے گروپ نے مسجد میں دو رکعت نفل ادا کیے اور ہم شہر کی قدیم فصیل کی طرف روانہ ہو گئے۔

متعلقہ مضامین

  • شیان کی قدیم مسجد
  • وفاقی وزیر خزانہ نے منی بجٹ لانے کا عندیہ دیدیا
  • 312ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کرلئے ،چیئرمین ایف بی آر
  • بجٹ میں جتنا ہو سکتا تھا عوام کو ر یلیف دیا ‘پاکستان کی معیشت بتدریج بحالی کی جانب بڑھ رہی ہے، محمد اورنگزیب
  • عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر مفتی مبارک حسین نعمانی کا خصوصی انٹرویو
  • اوکاڑہ، شراب نوشی سے منع کرنا امام مسجد کا جرم بن گیا، بااثر افراد کا مبینہ تشدد
  • سنت نبوی ﷺ پر عمل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے،علامہ فقیر نذر
  •  وزیراعظم پاکستان کو امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا داعی نہیں قرار دینا چاہیے تھا، حبیب اللہ شاکر 
  • ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام لائسنسداران عزاداری امام حسین کے اعزاز میں استقبالیہ 
  • بجٹ  بہترین،اپوزیشن کے پاس تنقید کیلئے کچھ نہیں ،حیلے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں،عطاء تارڑ