ڈالر اور مہنگائی پر قابو، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی حکومت کا کریڈٹ ہے، ایکسپریس فورم
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
ڈالر اور مہنگائی پر قابو، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی یقینا حکومت کا کریڈٹ ہے تاہم معاشی استحکام کیلیے سیاسی استحکام ضروری ہے، اس کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔
ملک میں آج بھی میثاق جمہوریت پر کام ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں میثاق معیشت پر راضی نہیں، ملک کو درست سمت دینے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلیے میثاق معیشت ناگزیر ہے، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا ہوگا۔
اڑان پاکستان اچھا نعرہ اور منصوبہ ہے ، اس کے اہداف بڑے ہیں، کیسے پورے ہوں گے اس کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا، کاروبار کرنے میں غیر ضروری رکاوٹوں اور مداخلت کو ختم کردیا جائے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ تین سال میں ملک اڑان پاکستان جیسے منصوبوں میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت یہ اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو بیوروکریسی کے بجائے بزنس کمیونٹی، اکیڈیما اور معاشی ماہرین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہوگا، صرف شعبہ زراعت پر توجہ دینے سے اڑان پاکستان کے معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں۔
65 فیصد سے زائد نوجوان آبادی کو آئی ٹی اور انٹرپرینیورشپ کی تربیت دینا ہوگی، انہیں جدید سکلز سکھا کر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین معاشیات، اکیڈیمیا اور انڈسٹری کے نمائندوں نے ’’ملکی معاشی صورتحال اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔
فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ ڈین فیکلٹی آف کامرس، جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان نے کہاکہ اڑان پاکستان اچھا برانڈ نیم ہے، اس میں بڑے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، پاکستان کی آزادی کے100 برس مکمل ہونے پر 3ٹریلین کی معیشت بنانے کا ہدف ہے، سوال یہ ہے کہ یہ سب حاصل کیسے ہوگا؟کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا، ایز آف ڈوئنگ بزنس کیلیے کچھ نہیں کیا گیا،اگر واقعی ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو حکومت کو کم سے کم حکومت بننا ہوگا، کاروبار پر بے جا دباؤ ختم کرنا اور بزنس کنٹرول سے نکلنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی لیکن وقت ڈالر اور مہنگائی میں اضافہ رک گیا ہے، اسٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے جو معاشی حوالے سے مثبت ہے، اس کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشی استحکام اور اڑان پاکستان جیسے منصوبوں کی کامیابی کیلیے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی، اس میں تمام سیاسی جماعتوں، بزنس کمیونٹی، اکیڈیمیا و دیگر طبقات کو شامل کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ سب محب وطن ہیں، ملکی بقاء کی خاطر تینوں بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھیں اور اتفاق رائے سے ملک کو مسائل سے نکالنے کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین محمد ندیم قریشی نے کہاکہ ملک میں میثاق جمہوریت پر پہلے بھی کام ہوا، اب بھی ہو رہا ہے لیکن آج تک میثاق معیشت پر کام نہیں ہوا، ہم نے بار ہا کہا، ایف پی سی سی آئی میں سیاسی جماعتوں کو اس پر اکٹھا کرنے کی کوشش بھی کی مگر میثاق معیشت پر پیشرفت نہ ہوسکی، جب تک ملک میں میثاق معیشت نہیں ہوگا تب تک نہ تو معاشی استحکام آسکتا ہے اور نہ ہی اڑان پاکستان جیسے منصوبے خاطر خواہ نتائج دے سکتے ہیں۔
ا نہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی اور بزنس چیمبرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا جس کے باعث موثر پالیسی نہیں بنتی۔ حکومت ترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا ہوگی۔ا نہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجہ اس کے ماڈل میں تبدیلی ہے، بنکوں نے ’میوچل فنڈز‘ بنا دیے ہیں،زراعت پر ہماری توجہ نہیں ہے، اگر کنولا اور سرسوں پر توجہ دی جائے تو اس سے زیرو امپورٹ کا ہدف پورا ہوسکتا ہے، صرف زراعت سے ہی اڑان پاکستان کے معاشی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ ودہولڈنگ سے ملکی معیشت چلائی جا رہی ہے، رٹیل پر ٹیکس نہیں مگر تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے، بڑے ٹیکس چوروں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا جا تا، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو مفت گھر، گاڑیاںو دیگر مراعات دی جارہی ہیں، معیشت سمگلنگ، رشوت اور ٹیکس چوری پر چل رہی ہے، پیسہ باہر جا رہا ہے جس سے معیشت مستحکم نہیں ہورہی۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ویژن پاکستان کے تحت اڑان پاکستان کی صورت میں ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جس میں معیشت ، سوشل سیکٹر، انفارمیشن، ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کو ٹھیک کرنا ہے، امید ہے یہ اہداف پورے کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے ہم پر سختی ہے، بجلی کے نرخ کم نہیں کر پا رہے۔انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور چین نے قرضے رول اوور کیے ہیں، سعودی عرب نے 3 ارب ہمارے بنکوں میں رکھے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی ڈیڑھ بلین مل چکا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اہداف حاصل رہا ہے
پڑھیں:
امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
امریکا کا سفر کرنے کے خواہش مند یوگنڈا کے شہریوں کو جلد ہی ویزا کے لیے بھاری لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ نئی امریکی امیگریشن قانون سازی کے تحت بیشتر نان امیگرنٹ ویزوں پر 250 ڈالر کی ’ویزا انٹیگریٹی فیس‘ لاگو کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘
یہ فیس اس نئے قانون کا حصہ ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ون بگ بیوٹی فل بل‘(BBB) ،کا نام دیا ہے۔
یہ قانون 4 جولائی 2025 کو نافذ کیا گیا اور توقع ہے کہ یہ اکتوبر 2025 یا ابتدائی 2026 میں مکمل طور پر لاگو ہو جائے گا، جب امریکا کا نیا مالی سال شروع ہوتا ہے۔
یہ اضافی فیس تقریباً تمام عارضی ویزا اقسام پر لاگو ہو گی، جن میں سیاحتی (B1/B2)، تعلیمی (F، M)، تبادلہ پروگرام (J)، عارضی ملازمین (H)، اور ان کے زیر کفالت افراد شامل ہیں۔
سفارتی پاسپورٹ رکھنے والے اور ویزا ویور پروگرام (جس میں یوگنڈا شامل نہیں) کے تحت سفر کرنے والے افراد اس فیس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
فیصلے کے اثرات اور اخراجات کی تفصیلموجودہ شرح تبادلہ (1 امریکی ڈالر = تقریباً 3,820 شِلنگ) کے مطابق، 250 ڈالر کی فیس یوگنڈا کے تقریباً 955,000 شِلنگ بنتی ہے، جو کہ یوگنڈا کی کم از کم ماہانہ اجرت سے 5 گنا زیادہ ہے اور موجودہ ویزا فیس (185 ڈالر) سے بھی تقریباً دُگنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ کا دورہ کرنے والے امریکی ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھنے کا حکم
اس طرح ایک یوگنڈا کے شہری کو ویزا درخواست کے لیے مجموعی طور پر 1.66 ملین شِلنگ ادا کرنا ہوں گے، جس میں سفری اور دستاویزی اخراجات شامل نہیں۔
امریکی حکومت کے مطابق اس فیس کا مقصد ویزا کی شرائط کی بہتر نگرانی، غیر قانونی قیام اور ملازمتوں کے خلاف کارروائیوں کی مالی معاونت کرنا ہے۔
یہ فیس اس شرط پر قابلِ واپسی ہو گی کہ درخواست گزار امریکی ویزا کی تمام شرائط، بشمول مدت ختم ہونے سے قبل واپسی، پوری کریں۔
تنقید اور مخالفتناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ویزا شفافیت سے زیادہ ایک روک تھام کی حکمت عملی ہے۔
ایک تبصرہ نگار کے مطابق یہ دیانت دار مسافروں، طلبہ اور پیشہ ور افراد کو سزا دینے کے مترادف ہے اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جعلی دستاویزات پر امریکی ویزا کے حصول کی کوشش ناکام، 3 ملزمان گرفتار
ان کا کہنا تھا کہ امریکا دیواروں اور درختوں سے نہیں بلکہ تارکین وطن سے بنا تھا۔ یہ انٹیگریٹی نہیں، اخراج ہے۔
طلبہ سب سے زیادہ متاثریہ اضافی فیس ان یوگنڈا کے خاندانوں کے لیے خاص طور پر بوجھ کا باعث بنے گی جو اپنے بچوں کو امریکی جامعات میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں۔
مثلاً F-1 اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اب صرف ویزا فیس میں 1.6 ملین شِلنگ سے زائد لاگت آئے گی، جب کہ اس میں SEVIS فیس، ٹیوشن ڈپازٹ، اور میڈیکل انشورنس جیسے اضافی اخراجات شامل نہیں۔
یوگنڈا کے ایک والد ڈینیئل کیرابو کا کہنا ہے کہ امریکا میں تعلیم پہلے ہی مہنگی ہے، اب تو کلاس میں قدم رکھنے سے پہلے ہی والدین کو لاکھوں خرچ کرنا ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی ویزا طلبہ مسافر یوگنڈا