سیالکوٹ‘ پشاور‘ اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + بیورو رپورٹ+ آئی این پی) وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بزنس فیسیلیٹیشن سنٹر کا دورہ کیا۔ ایک سال مکمل کرنے پر کیک کاٹا اور شیلڈز تقسیم کیں۔ ڈپٹی کمشنر محمد ذوالقرنین لنگڑیال، صدر چمبر آف کامرس اکرام الحق، ڈپٹی سیکرٹری انڈسٹریز ابوبکر اور منیجر بی ایف سی سید حیدر منیر کے علاوہ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بزنس فیسیلیٹیشن سنٹر آٹومیشن کی جانب سفر ہے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات سے مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں تو ان کی ملاقات کروانے میں کوئی مضحکہ نہیں تاہم ٹویٹ کے بعد مذاکرات اتمام حجت ہیں جو پورا ہونا چاہئے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا فارن ریمیٹینٹس نہ بھجوانے کی پی ٹی آئی کا حربہ بری طرح ناکام رہا ہے۔ نومبر اور دسمبر میں ترسیلات زر کی شرح گزشتہ سال کی نسبت زیادہ رہی۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن نے پیرس میں فلائٹ آپریشن شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں 19 مختلف ممالک میں فلائٹس کا آغاز ہو گا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں کہ انہیں بنی گالہ منتقل ہونے کی پیش کش ہوئی تھی۔ سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنی گالہ منتقل ہونے کی بانی پی ٹی آئی کی خواہشات ہیں، اس میں کوئی صداقت نہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے بھی دباؤ نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا تعلق عدالت سے ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے کہا ہے کہ مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس طلب کرنے کے لیے اپوزیشن یا حکومت نے رابطہ نہیں کیا۔ فریقین جب کہیں گے ایک دو روز کے نوٹس پر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوں۔ تحریک انصاف مذاکراتی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میری ذمہ داری نہیں وہ حکومت کو کروانی ہے۔ حکومت اور اتحادی فیصلہ کر لیں ملاقات ہو سکتی ہے یا نہیں۔4 جنوری کو اسد قیصر سے ٹیلیفونک گفتگو میں واضح کر دیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا مطالبہ حکومت تک پہنچا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما رانا ثناء اللہ اور حکومت کے اکابرین سے براہ راست بھی بات کر سکتے ہیں۔ ادھر مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو عمران خان کے ٹویٹ سے تکلیف ہے مگر اپنی زبان درازی نظر نہیں آ رہی۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وفاقی وزراء روزانہ پی ٹی ائی کے خلاف پریس کانفرنسسز کر رہے ہیں۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد سے مریم نواز  پی ٹی آئی کے خلاف روزانہ بیان بازی کر رہی ہیں۔ وفاقی اور پنجاب کے صوبائی وزراء نے بھی مذاکرات کے بعد بیانات کو زور دیا ہے۔ وفاقی وزراء کے بیانات سے پہلے ہی غیر سنجیدگی عیاں تھی، پی ٹی آئی ملک کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کے لئے راضی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کو بھی وسیع تر مفاد مدنظر رکھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، پی آئی کے مطالبات آئین وجمہوریت کی بالادستی پر مبنی ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے سوال کیا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیوں نہ ہو سکی؟ ن لیگ کو چاہئے کہ اپنا واضح مؤقف بیان کر کے مذاکرات میں سنجیدگی کیلئے لیڈرشپ کی رائے ضروری ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ ہم طعنہ نہیں دینا چاہتے لیکن ان کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمٹمنٹ کیوں پوری نہیں ہوئی یہ بہت بڑا سوال ہے کہ پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی بانی سے ملاقات کیوں نہ ہو سکی۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کمٹمنٹ پوری ہو ہم نے پاکستان کی خاطر ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور اپنے تحفظات کو صرف پاکستان کی خاطر پیچھے کیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خواجہ محمد ا صف نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات صف نے کہا کی بانی پی ٹی ا کے بعد

پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔

 ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔

 ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔

عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔

سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج، اپوزیشن کا بائیکاٹ کا اعلان
  • اربعین پالیسی 2025 ایران کی زائرین کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • 5 اگست کو مینار پاکستان جلسہ، اب مذاکرات نہیں تحریک چلے گی: بیرسٹر گوہر 
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
  • خیبر پختونخوا سینیٹ انتخابات، پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا
  • چار جنرل نشستوں پر ظہیر عباس بانی سے نام لے آئے تھے، سلمان اکرم
  • خیبرپختونخوا کی سینیٹ نشستوں پر اپوزیشن کیساتھ معاہدہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں تھا، سلمان اکرم راجہ
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب جو بھی ہوگا بانی ہدایات دیں گے، بیرسٹر گوہرکا اعلان
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب جو بھی ہوگا بانی ہدایات دیں گے: بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا وقت ختم ہوگیا، اب وہی ہوگا جو عمران خان ہدایات دیں گے: بیرسٹر گوہر