190 ملین پاؤنڈ کیس: کب کیا ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر دائر 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آج اڈیالہ جیل میں سنایا جارہا ہے۔ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید آج دن 11 بجے اس اہم کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کے تحصیل سوہاوہ میں واقع 458 کنال سے زائد کی زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیرقانونی پیسے سے جائیداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔
یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرنے کا کہا گیا تھا۔
یوں اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی ملزم کو مل گئی اور قومی خزانے میں جمع کرنے کے بجائے برطانیہ سے ملنے والی رقم ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کی گئی۔ بدلے میں ملک ریاض نے مبینہ طور پر عمران خان کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی بنانے کے لیے مذکورہ زمین عطیہ کی۔
کیس کا ٹائم لائن: کب کیا ہوا؟
4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا۔ اس کے بعد بحریہ ٹاون کی طرف سے عدالت کو مقدمہ ختم کرکے تصفیہ کرنے کے لیے پہلے 250، پھر 358 اور بعد میں 405 ارب روپے کی پیش کش کی گئی تاہم سپریم کورٹ نے یہ آفرز مسترد کردیں۔ دسمبر 2018 میں برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے الزام میں ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی جانب سے بحریہ ٹاون کراچی کے مقدمے کے تصفیے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی۔ اگست 2019 میں برطانیہ کے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ نے ملک ریاض کے 12 کروڑ پاؤنڈز کے آٹھ آکاؤنٹس منجمند کرنے کے احکامات دیے تھے۔ 3 دسمبر 2019 کو برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لوٹانے کے عوض تصفیہ طے پایا۔ تصفیہ نیشنل کرائم ایجنسی کی ملک ریاض حسین کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے اور فیصلہ ہوا کہ رقم اور اثاثے ریاست پاکستان کو لوٹا دیے جائیں گے۔ 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں برطانیہ سے ملنے والی ملک ریاض کی 50 ارب روپے کی رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرانے کی ممنظوری ہوئی اور یوں بالواسطہ طور پر رقم ملک ریاض کا قرض چکانے میں خرچ ہوئی۔ 26 دسمبر 2019 کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ ملک ریاض نے اس ٹرسٹ کے لیے جہلم میں زمین عطیہ کی جو مبینہ طور عمران خان کی طرف سے تصفیے والی رقم ان کے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرانے کے فیصلے کا عوض تھا۔ اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ 9 مئی 2023 کیس القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان گرفتار ہوئے۔ 1 دسمبر 2023 کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا ریفرنساحتساب عدالت میں دائر ہوا۔ 6 جنوری 2024 کو عدالت نے شریک ملزمان فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر، ضیاء الاسلام نسیم اورذلفی بخاری سمیت 6 شریک ملزمان کو عدالتی مفرور یا اشتہاری قرار دے دیا۔ 27 فروری 2024 کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد ہوئی۔ 18 دسمبر 2024 کو احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ 23 دسمبر 2024 کو فیصلہ سنانے کی تاریخ دی گئی جو بعد میں 6 جنوری 2025 تک مؤخر کردی گئی تھی۔ بعد ازاں 13 جنوری یعنی آج کے دن یہ اہم فیصلہ سنانے کا فیصلہ ہوا۔آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 million case timeline ۱۹۰ ملین پاونڈ کیس Bushra bibi imran khan PTI بشریٰ بی بی عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ۱۹۰ ملین پاونڈ کیس ملک ریاض کے سپریم کورٹ ارب روپے پاؤنڈ کی کیس کا کے لیے
پڑھیں:
فضل الرحمٰن کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور، کراچی، کوئٹہ میں ملین مارچ کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’عوام مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں‘
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’اپوزیشن کا باضابطہ کوئی اتحاد موجود نہیں‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
’مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کرتے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔