WE News:
2025-07-06@10:33:05 GMT

190 ملین پاؤنڈ کیس: کب کیا ہوا؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

190 ملین پاؤنڈ کیس: کب کیا ہوا؟

سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر دائر 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آج اڈیالہ جیل میں سنایا جارہا ہے۔ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید آج دن 11 بجے اس اہم کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کے تحصیل سوہاوہ میں واقع 458 کنال سے زائد کی زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔

دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیرقانونی پیسے سے جائیداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔

یہ رقم  برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرنے کا کہا گیا تھا۔

یوں اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی ملزم کو مل گئی اور قومی خزانے میں جمع کرنے کے بجائے برطانیہ سے ملنے والی رقم ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کی گئی۔ بدلے میں ملک ریاض نے مبینہ طور پر عمران خان کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی بنانے کے لیے مذکورہ زمین عطیہ کی۔

کیس کا ٹائم لائن: کب کیا ہوا؟

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا۔ اس کے بعد بحریہ ٹاون کی طرف سے عدالت کو مقدمہ ختم کرکے تصفیہ کرنے کے لیے پہلے 250، پھر 358 اور بعد میں 405 ارب روپے کی پیش کش کی گئی تاہم سپریم کورٹ نے یہ آفرز مسترد کردیں۔ دسمبر 2018 میں برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے الزام میں ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی جانب سے بحریہ ٹاون کراچی کے مقدمے کے تصفیے کے لیے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی۔ اگست 2019 میں برطانیہ کے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ نے ملک ریاض کے 12 کروڑ پاؤنڈز کے آٹھ آکاؤنٹس منجمند کرنے کے احکامات دیے تھے۔ 3 دسمبر 2019 کو برطانیہ کے نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے درمیان منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم لوٹانے کے عوض تصفیہ طے پایا۔ تصفیہ نیشنل کرائم ایجنسی کی ملک ریاض حسین کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے اور فیصلہ ہوا کہ رقم اور اثاثے ریاست پاکستان کو لوٹا دیے جائیں گے۔ 3  دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں برطانیہ سے ملنے والی ملک ریاض کی 50 ارب روپے کی رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرانے کی ممنظوری ہوئی اور یوں بالواسطہ طور پر رقم ملک ریاض کا قرض چکانے میں خرچ ہوئی۔ 26 دسمبر 2019 کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ ملک ریاض نے اس ٹرسٹ کے لیے جہلم میں زمین عطیہ کی جو مبینہ طور عمران خان کی طرف سے تصفیے والی رقم ان کے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرانے کے فیصلے کا عوض تھا۔  اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ 9  مئی 2023 کیس القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان گرفتار ہوئے۔ 1 دسمبر 2023 کو 190  ملین پاؤنڈ کیس کا ریفرنساحتساب عدالت میں دائر ہوا۔ 6 جنوری 2024 کو عدالت نے شریک ملزمان فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر، ضیاء الاسلام نسیم اورذلفی بخاری سمیت 6 شریک ملزمان کو عدالتی مفرور یا اشتہاری قرار دے دیا۔ 27 فروری 2024 کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد ہوئی۔ 18 دسمبر 2024 کو احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔ 23 دسمبر 2024 کو فیصلہ سنانے کی تاریخ دی گئی جو بعد میں 6 جنوری 2025 تک مؤخر کردی گئی تھی۔ بعد ازاں 13 جنوری یعنی آج کے دن یہ اہم فیصلہ سنانے کا فیصلہ ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

190 million case timeline ۱۹۰ ملین پاونڈ کیس Bushra bibi imran khan PTI بشریٰ بی بی عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ۱۹۰ ملین پاونڈ کیس ملک ریاض کے سپریم کورٹ ارب روپے پاؤنڈ کی کیس کا کے لیے

پڑھیں:

بلوچستان کے تین ملین بچے تعلیم سے محروم: ذمے دار کون؟

بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں تین ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں بلکہ ایک مکمل نسل کی تعلیمی محرومی کا اعلان ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 15 ہزار 165 اسکول ہیں جن میں سے 80.1 فیصد پرائمری اسکول ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے بارے میں تیارکی جانے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں 85 فیصد اسکول غیر فعال ہیں۔ حکومتِ بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کچھ اسکولوں کو فعال کردیا گیا ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 542 اسکول مزید بند ہوگئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں سال بند ہونے والے اسکولوں کی تعداد 3152 تھی۔ صوبہ میں سب سے زیادہ 254 اسکول پشین میں بند ہیں۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ بگٹی میں سب سے کم 13 اسکول غیر فعال ہیں۔ خضدار میں 251، قلات میں 179، قلعہ سیف اﷲ میں 179، بارخان میں 174 ، اور ان میں 161 اور دارالحکومت کوئٹہ میں 152 اسکول بند ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ صوبہ میں 16 ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔

اب حکومت نے اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی طرح پورے بلوچستان میں 135 انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کالجز ہیں، جب کہ پورے بلوچستان میں صرف 9 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس وقت بلوچستان کا مالیاتی بجٹ 1020 بلین ہے جس میں سے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے 640 بلین روپے رکھے گئے ہیں اور اسکولوں کے لیے 19.8 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں خواندگی کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 42 فیصد کے قریب ہے۔ مردوں میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد اور خواتین میں 32.80 فیصد بتایا گیا ہے۔ خواندگی کی یہ شرح تینوں صوبوں، پاکستان کے زیرِ انتظامی کشمیر اورگلگت بلتستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بلوچستان کے ماہرینِ تعلیم کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت نے خواندگی کی شرح کے اعداد و شمار میں کوئی ملاوٹ کی ہے۔

حقیقی طور پر بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے بڑے پیمانہ پر بچے اسکول نہ جانے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا وبا، بے روزگاری کے علاوہ تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کا طریقہ کار ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کے مقابلے میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد خاطر خواہ حد تک کم ہے جس کی بناء پر پرائمری اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لیے سیکنڈری اسکول میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ۔

اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول پاس کرنے والے 70 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں رپورٹنگ کرنے والے کچھ صحافیوں کی یہ رائے ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں نے ایسے افراد کو استاد کی حیثیت سے منتخب کر کے ملازمتیں دیں جو تدریس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان افراد کو سیاسی وجوہات کی بناء پر ملازمتیں دی گئیں۔ یوں بہت سے اسکول اساتذہ میسر نہ آنے کی بناء پر بند ہوگئے۔

 بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی قائم ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں قائم ہونے والی اس حکومت میں بلوچستان میں پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی اور میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اسی طرح تعلیمی بورڈ بھی قائم کیا گیا، مگر اس حکومت کو 9 ماہ بعد رخصت کردیا گیا۔ 2013 میں ڈاکٹر مالک کی قیادت میں نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دور میں بلوچستان میں مادری زبان میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھا کر 24 فیصد کردیا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے امور کے ماہرین کا بیانیہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں منتخب نہ ہونا ہی بنیادی المیہ ہے۔

یہی وہ بنیادی المیہ ہے جو بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ گھوسٹ ووٹوں سے بنیں، عوام کی نمایندگی کرنے والے چہرے غائب ہوگئے اور ان کی جگہ کٹھ پتلی حکمران لائے گئے۔ جب حکمران عوام کے اصل نمایندے نہیں ہوتے تو ان کی ترجیحات بھی عوام نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، بلوچستان میں جمہوریت پنپ نہ سکی بلکہ عوامی ادارے بھی دن بہ دن کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان اداروں کا زوال سب سے زیادہ شعبہ تعلیم پر پڑا۔ وہ تعلیمی نظام جو کسی بھی قوم کے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، بلوچستان میں بوسیدہ، ناکارہ اور فرسودہ بنا دیا گیا۔

آج بلوچستان میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، ان کے لیے نہ تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں، نہ بنیادی سہولیات اور نہ ہی ایک محفوظ تعلیمی ماحول۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں عوام کو جوابدہ نہیں ہیں۔ انھیں عوام کے مستقبل سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر ہوتی ہے، اور یہی سوچ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ بلوچستان کے بچوں کا مستقبل آج اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب تک حقیقی معنوں میں عوامی حکومت قائم نہیں ہوتی، جب تک ووٹ کی حرمت بحال نہیں کی جاتی اور جب تک حکمران عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے تب تک نہ تعلیم سنور سکتی ہے، نہ صحت، نہ روزگار اور نہ ہی بلوچستان کی تقدیر۔ بلوچستان کو جمہوریت، شفاف الیکشن اور عوامی نمایندوں کی حکومت کی اشد ضرورت ہے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال، مگر ترقی کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ خطہ ہے، آج ایک ایسے موڑ پرکھڑا ہے جہاں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ ناقابلِ تردید ہو چکا ہے۔ یہ فاصلہ صرف جغرافیائی یا ترقیاتی نہیں، بلکہ جذباتی، سیاسی اور اعتماد کا ہے۔ کچھ بلوچوں کی ریاست سے دوری محض کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل ہے، جس کی جڑیں سیاسی ناانصافی، معاشی استحصال جیسے عوامل میں پیوست ہیں۔ بارہا وعدے کیے گئے، کئی پیکیج دینے کے اعلانات ہوئے، مگر زمینی حقائق جوں کے توں رہے۔

اس بداعتمادی نے محرومیوں کو جنم دیا۔ تعلیمی ادارے ویران، اسپتال خالی، سڑکیں کچی اور نوجوانوں کے لیے نہ روزگار ہے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی واضح راستہ۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسائل پر بات کرنے والے افراد بھی لاپتہ ہیں، تو وہ اپنی آواز دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی خاموشی محرومی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ریاست کی پالیسیوں میں بلوچستان کے عوام کی رائے نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ان کا نفاذ بلوچستان جیسے علاقوں پر ہوتا ہے۔ یہی دوری، یہی احساسِ بیگانگی اور یہی سیاسی نظر اندازی آج بلوچ عوام کو پرے دھکیل رہی ہے۔

بد اعتمادی اب فقط ایک سیاسی اصطلاح نہیں رہی، بلکہ ایک زندہ سچائی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت کو بلوچستان کی صورتحال پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ان فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ اور شام کے درمیان سفارتی تعلقات بحال، 14 سال بعد برطانوی وزیر کا پہلا دورہ دمشق
  • بلوچستان کے تین ملین بچے تعلیم سے محروم: ذمے دار کون؟
  • کراچی: سجاس کے تحت منعقدہ ورلڈ اسپورٹس جرنلسٹس ڈے کی تقریب میں پی ایس ڈبلیو ایف کے سیکریٹری جنرل اصغر عظیم، سجاس کے صدر محمود ریاض، سیکریٹری شاہد ساٹی، کراچی پریس کلب ہے سیکریٹری سہیل افضل کے ہمراہ گروپ فوٹو۔ تصویر میں سجاس اور پریس کلب کے ممبران و عہدیدا
  • پی ٹی آئی کانوازشریف کی عمران خان سے ملاقات کی خواہش پر فوری جواب نہ دینے کا فیصلہ 
  • عمران خان نے ذہنی طور فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ جیل میں رہ لیں گے مگر سمجھوتہ نہیں کریں گے، نجم سیٹھی
  • صدرآصف علی زرداری سے متعلق بڑادعویٰ سامنے آگیا
  • علی امین گنڈا پور کا فیصلہ بانی ہی کریں گے، فیصل چوہدری
  • عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کیوں نہیں ملی؟ لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
  • عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کیوں نہیں دی جاسکتی؟ تحریری فیصلہ جاری
  • 9 مئی کے 8 مقدمات میں عمران خان کی تمام ضمانتیں مسترد ہونے کا تحریری فیصلہ جاری