Jasarat News:
2025-10-20@16:56:10 GMT

ایران نے چین میں ذخیرہ شدہ 30 بیرل تیل طلب کرلیا

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران نے چین میں ذخیرہ کرنے والی جگہ سے تقریباً 30 لاکھ بیرل تیل نکلوا لیا۔اس تیل کے ذریعے اکٹھا ہونے والے فنڈز مشرق وسطیٰ میں ایران کے اتحادی مسلح گروہوں کی مدد کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق 2019ء میں چین کو امریکی پابندیوں سے عارضی استثنا سے فائدہ اٹھا کر تہران حکومت نے تیل چین بھیجا تھا۔ ایران کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کرنے سے ممالک کو ایران کو تیل برآمد کرنے سے روک دیا جائے گا۔ چین نے گزشتہ برس نومبر اور دسمبر کے آخر میں ایرانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد اس تیل کی واپسی اور ترسیل کی منظوری دی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایران نے تیل نکالنے اور فروخت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بیجنگ نے ایسا کرنے کی پہلی بار منظوری دی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیجنگ بین الاقوامی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ایران سمیت تمام ممالک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ چین امریکا کی طرف سے غیر قانونی اور غیر معقول یکطرفہ پابندیوں کے غلط استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔ واضح رہے تیل سے حاصل ہونے والی یہ اضافی آمدن ایران کے لیے اس وقت بہت اہم ہے کیونکہ وہ خطے میں حزب اللہ جیسے اپنے اتحادی گروپوں کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان اتحادی گروپوں کو اسرائیل کے ساتھ تنازعات میں شدید نقصان پہنچا ہے۔ شام میں بشار الاسد حکومت کا زوال ایران کے لیے ایک اور دھچکا تھا کیونکہ بشارحکومت کے جانے سے لبنان میں حزب اللہ تک ہتھیاروں کی براستہ شام ترسیل رک گئی ہے۔ یہ وقت اس لیے بھی اہم ہے کہ ان دنوں ایران کو افراط زر کی بلند شرح اور سست ترقی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ چین کی جانب سے ایران کو تیل بھیجنے کی اجازت دینے کے فیصلے سے واشنگٹن کے ساتھ چین کا تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار میں ایرانی تیل کی فروخت روکنے کے لیے سخت اقدامات کی طرف گئے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایران کو کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

دس سالہ پابندیوں کا خاتمہ

اسلام ٹائمز: ایرانی جوہری مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو یقینی بنایا جائے اور اسے ہتھیاروں کی تیاری کی طرف نہ موڑا جائے۔ یہ ہدف مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اس کے برعکس کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ تین یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے ایجنسی پر ایران کی جانب سے حفاظتی ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کو ثابت کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود، ایران کے عدم تعاون کی تصدیق کبھی نہیں کی گئی۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
                
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے حوالے سے اسلامی جمہوری ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر متوقع پابندیاں 18 اکتوبر کو ختم ہو جائیں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے بارے میں 20 جولائی 2015ء کی JCPOA اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں بیان کردہ 10 سالہ مدت ہفتہ 18 اکتوبر 2025ء کو ختم ہو جائے گی۔ یعنی اس قرارداد کی تمام دفعات بشمول جوہری پروگرام سے متعلق مجوزہ پابندیاں اس تاریخ کو ختم ہو جائیں گی۔ لہذا وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق اب ایرانی جوہری مسئلے کو جو  "عدم پھیلاؤ" کے عنوان سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے، اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیر غور مسائل کی فہرست سے نکال دینا چاہیئے اور قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے بعد ایران کے جوہری پروگرام کو عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل کسی بھی غیر جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ریاست کے جوہری پروگرام کی طرح ہی سمجھا جانا چاہیئے۔ ایرانی جوہری مسئلے کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو یقینی بنایا جائے اور اسے ہتھیاروں کی تیاری کی طرف نہ موڑا جائے۔ یہ ہدف مکمل طور پر حاصل کر لیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے اس کے برعکس کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ تین یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے ایجنسی پر ایران کی جانب سے حفاظتی ذمہ داریوں کی عدم تعمیل کو ثابت کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود، ایران کے عدم تعاون کی تصدیق کبھی نہیں کی گئی۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، JCPOA کے تحت تحفظات سے ہٹ کر وعدوں کو قبول کرنے کے باوجود، بیک وقت جابرانہ پابندیوں کی زد میں رہا اور یہی تین یورپی ممالک، یورپی یونین اور امریکہ تھے جنہوں نے پابندیاں ہٹانے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔ قرارداد 2231 اور اس سے ملحقہ، JCPOA، کثیر جہتی سفارت کاری کی ایک بڑی کامیابی تھی جس نے اس کی تشکیل کے ابتدائی سالوں میں اس کی ساکھ کو قائم رکھا۔ بدقسمتی سے امریکہ نے 2018ء میں  غیر ذمہ دارانہ کردار  ادا کیا ہے اور تین یورپی ممالک بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے جے سی پی او اے کے رکن تین یورپی ممالک (انگلینڈ، فرانس، جرمنی) کے ان سابقہ اقدام کے غیر قانونی ہونے کا اعادہ کیا ہے جو بغیر کسی قانونی بنیاد یا منطقی وجہ کے امریکہ کی حمایت پر مشتمل تھے۔ بیان کے مطابق سلامتی کونسل نے تنازعات کے از سر نو حل کے لیے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ دو مستقل ارکان چین اور روس کی واضح مخالفت کی وجہ سے قراردادوں کی میعاد ختم ہوئی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق JCPOA کی مسلسل خلاف ورزی کرنے والوں کے طور پر جرمنی، انگلینڈ اور فرانس نے اگر اپنے برے ارادوں کے ساتھ  متعلقہ قانونی طریقہ کار کا مشاہدہ کیے بغیر، منسوخ شدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بحال کرنے کی کوشش کی تو اسے قانونی نہیں سمجھا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ کو بھی ان تینوں ممالک کے غیر قانونی اقدام کی توثیق اور اسے تسلیم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ سلامتی کونسل کے چھ رکن ممالک جن میں دو مستقل ارکان بھی شامل ہیں، نے تین یورپی ممالک اور امریکہ کی غیر قانونی نقل و حرکت سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ بیان میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے پرزور درخواست کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 100 کے مطابق، ایران کے خلاف میعاد ختم ہونے والی قراردادوں کو واپس کرنے کے مبینہ عمل کے بارے میں اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود غلط معلومات کو فوری طور پر درست کیا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کے خلاف اسرائیلی اور امریکی حکومتوں کی فوجی جارحیت اور حفاظتی اقدامات کے تحت پرامن ایٹمی تنصیبات پر حملے کی مذمت کرنے میں ناکامی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر وحشیانہ اور جارحانہ حملے، جو کہ امریکہ کے ساتھ سفارتی مذاکرات کے دوران ہوئے، سفارت کاری کے ساتھ سخت خیانت اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ ایران کے پرامن جوہری بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ، ان حملوں نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ایران کے معمول کے تعاون کو متاثر کیا۔ قاہرہ مفاہمت کے نتیجے میں ہونے والی مصروفیات کو بحال کرنے کی ایران کی کوششوں کو بھی تین یورپی ممالک کے غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ اقدامات نے، JCPOA کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کا غلط استعمال کرتے ہوئے ناکام بنایا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے تین یورپی ممالک کی جانب سے JCPOA کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے غلط استعمال کی مسلسل مخالفت کرنے پر سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی حیثیت سے چین اور روس کے ذمہ دارانہ موقف کو سراہا۔ اسی طرح الجزائر اور پاکستان کے ان اقدامات کو بھی سراہا جن کے ذریعے انہوں نے کونسل کے دو غیر مستقل ارکان کی حیثیت سے  سلامتی کونسل میں تین یورپی ممالک کے غیر قانونی اقدامات کی مخالفت کی۔ وزارت خارجہ نے کونسل کے دیگر دو غیر مستقل ارکان جنوبی کوریا اور گیانا کے اس فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا جس کے تحت انہوں نے تین یورپی ممالک کے اس اقدام کی توثیق نہیں کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کمپالا (یوگنڈا) میں وزرائے خارجہ کے 19ویں عبوری اجلاس کے بیان میں قرارداد 2231 کو اس کے پیراگراف 8 کے مطابق ختم کرنے پر زور دیا۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پرامن ایٹمی توانائی کے استعمال سمیت تمام شعبوں میں ایرانی قوم کے جائز حقوق اور قانونی مفادات پر تاکید کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران نے جدید بیلسٹک میزائل ’’عماد‘‘ اور ’’قدر‘‘ کی اپ گریڈ ورژن کے ساتھ رونمائی کردی
  • دس سالہ پابندیوں کا خاتمہ
  • شرائط نرم : پاکستان نے ایران افغانستان ‘ روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ فریم ورک متعارف کرادیا 
  • ایران میں ایک اور اسرائیلی جاسوس کو پھانسی دے دی گئی
  • کراچی، پولیس کے ساتھ مختلف علاقوں میں مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک
  • پاکستان نے افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ نیا بارٹر ٹریڈ فریم ورک متعارف کرا دیا
  • پاکستان نے افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ نیا بارٹر ٹریڈ فریم ورک متعارف کرادیا
  • اسلام آباد: سالے کو تیز دھار آلے سے وار کرکے قتل کرنے والا ملزم گرفتار
  • بھارتی ایما پر افغان طالبان کی کارروائیوں سے پورا خطہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ