Daily Ausaf:
2025-05-30@10:18:20 GMT

بھارتی آرمی چیف کا درد

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

دہلی سے یہ اچانک چیخ وپکار کیوں شروع ہوگئی ہے؟ بھارتی لیڈرشپ کو پاکستان کی طرف منہ کرکے ہذیانی انداز میں گالیاں بکنے اور الزام تراشی کرنے کا دورہ کیوں پڑگیا ہے؟ وہ تو اپنی فلم انڈسٹری اور میڈیا کے ذریعہ سے خود خطے کی سپر طاقت بناچکے تھے ، امریکی قوت کے تمام مراکز ان کے سر پر سایہ فگن تھے، پاکستان کے عاقبت نااندیش فتنہ پرور انتشاری بھی جی جان سے مودی کے مقاصد کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے ۔ اس سب کےباوجود یہ اچانک کیاایسا ہوگیا کہ پہلے بھارتی وزیر دفاع’’ راج ناتھ سنگھ‘‘ اور اب آرمی چیف’’ اوپندرا دویدی ‘‘زباں وبیان کی چوکڑی بھول بیٹھے،الزام تراشی اور گالم گلوچ پر اتر آئے ، آخر کیوں ؟ یہ سب بےسبب تو ہو نہیں سکتا۔کل تک بھارت کی پالیسی یہ تھی کہ پاکستان تو مسئلہ ہی نہیں،ہمارا مقابلہ چین سے ہے ، اب پھر وہ پاکستان پاکستان چلانے لگا ہے،کیوں؟اس کا دکھ، اس کی پریشانی اور تکلیف ہم بہت اچھے سے جانتے ہیں،لیکن صد افسوس کہ بھارت کے دکھ کی اس گھڑی میں ہم بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم قطعاً اس سے ہمدردی نہیں رکھتے، کیونکہ اس کا دکھ ہماری خوشی سے وابستہ ہے ، ان کی تکلیف ہماری ترقی اور کامیابی کا لازمی نتیجہ ہے۔
بھارتی آہ وبکا کی ٹائمنگ کو دیکھیں تو صاف سمجھ آتی ہے کہ ان کے درد کی وجوہات دو ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جس تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ، وہ بھارت کے لئے اک ڈرائونا خواب ہے ۔ اس نے ربع صدی کی محنت سے پاکستان کے اندر غدار خریدے ،میرجعفر وصادق کے وارث میر دریافت، ان کی مدد سے مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلی ، قتل عام کیا، پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیابی حاصل کی ، اس بے شرمی کے’’ چہلم ‘‘ یعنی چالیس برس مکمل ہونے پر حسینہ واجد کی قیادت میں ڈھاکہ میں جشن منایا گیا اور اپنے میروں ، غداروں کے وارث بلا کر انہیں ایوارڈ دئیے گئے ۔ غیرت وحمیت سے تہی دامن وتہی دست میر جعفر کے یہ وارث اس قدر بے باک ثابت ہوئے کہ نہ صرف اپنی غداریوں پر ایوارڈ لینے جا پہنچے، بلکہ پاکستان کی افواج پر کیچڑ اچھالتے، شہدا کی توہین کرتے پاکستان سے معافی مانگنےکا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ دہلی سرکار اور اس کے ایجنٹ پاکستان میں 1971 جیسے مزید المیے تخلیق کرنے کے سازشوں میں مصروف تھے کہ ڈھاکہ جاگ اٹھا ، پاکستان کے خلاف لگایا گیا شیطانی مورچہ بنگالیوں کی غیرت ایمانی کے سامنے نہ صرف خس وخاشاک ثابت ہوا اور حسینہ واجد کو بھاگتے بنی بلکہ ڈھاکہ کے گلی کوچوں سے بھارت اور اس کے پالتو بنگلہ بدھو کی ایک ایک نشانی یوں کھرچ کر مٹادی گئی کہ اب کوئی نام لینے والا بھی نہیں بچا۔ یہ صدمہ ہی دہلی سرکارکے لئے کم وحشت ناک نہ تھا کہ اب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ، بیرونی مداخلت کے خلاف دونوں ممالک کی افواج کا اتحاد اور پاکستان سے دفاعی خریداری کے بنگلہ دیشی ارادے دہلی سرکار کو ہذیان بکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے بال نہ نوچے تو کیا کرے؟بنئے کی تو ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی، ممکن ہے بات یہاں تک محدود نہ رہے۔ جس بھارت کو ہم جانتے ہیں ، وہ زخمی سانپ کی طرح ڈسنے کی کوشش کرسکتا ہے ، لیکن فکر کی بات اس لئے نہیں کہ ہم اسے جانتے ہیں اور دانت توڑنے کا ہنر بھی ہمیں معلوم ہے ۔ بقول کسے ’’ ہم نے پون صدی سے بھارت کو ہی پڑھا ہے ، سمجھا ہے ، اسی سے نمٹنے کی تیاری کی ہے ، ہمارا ہدف کوئی اور ہے ہی نہیں ۔‘‘
دہلی سرکار کا دکھ صرف یہ نہیں کہ ڈھاکہ اور اسلام آباد قریب آرہے ہیں ، سازشوں سے الگ کئے گئے دو جڑواں بھائی پھر سے گلے مل رہے ہیں، اس کا دکھ ایک اور بھی ہے۔ جس کی تفصیلات بھارتی دفاعی تجزیہ نگار’’ دنیش کے ووہرا ‘‘ نے بیان کی ہیں ، ووہرا نے اپنے ایک ویلاگ میں دعویٰ کیاہے کہ بھارت پاکستان کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور حربی صلاحیتوں میں اضافے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے ۔ دہلی سرکار آج تک کہتی آئی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو کوئی خاص خطرہ نہیں سمجھتی ۔ تاہم چائنہ راہداری کی وجہ سے پاکستان کی حربی صلاحیتوں کے بارے میں بھارت کا خیال تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔دنیش کے مطابق معاشی چیلنجز کے باوجود،پاکستان کی فوج نے حربی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے،خاص طور پر جدید ہتھیاروں کے حصول میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے ووہرا نے کہاکہ پاکستان خطے میں ایک اہم قوت کے طورپر ابھر رہاہے، اس نے چین سے 40ففتھ جنریشن کے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیاروںJ-35کے حصول کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے، جن کی پاکستان کی فراہمی 2026کے آخر تک شروع ہوجائیگی، جبکہ بھارت اس کے برعکس ابھی صرف فورتھ جنریشن کے جنگی طیاروں کے حصول کی جدوجہد کر رہا ہے ، اس میں بھی وہ ابھی کامیابی سے کوسوں دور ہے ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے ہمسایہ ملک سے بہت پیچھے ہے ۔پاکستان پہلے ہی ففتھ جنریشن کے لڑاکاطیاروں کے حصول کا معاہدہ کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس ان جدید طیاروں کے حصول کا کوئی واضح منصوبہ ہی نہیں ہے۔ ووہراکہتا ہے کہ اس کے موقف کی تصدیق بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل اے پی سنگھ کے حالیہ بیان سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ کہتا ہے کہ ’چین اور پاکستان دونوں نے بھارت کو جنگی صلاحیتوں کے شعبے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ووہرا جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی پیشرفت کاحوالہ دیتے ہوئے کہتا ہےکہ بھارت اس شعبے میں چین سے کئی دہائیوں پیچھے تھاتاہم اب وہ پاکستان سے بھی ایک دہائی پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک جانب چینی اشتراک سے j-35 پاکستان کے ترکش کو خطرناک بنا رہا ہے تو دوسری جانب ترکیہ کے KAAN سسٹم کے حصول کے بعد جلد ہی بھارت پرپاکستان کی برتری مزید واضح اور فیصلہ کن ہو جائیگی ۔ بھارت کا رونا یہ ہے کہ وہ اب بھی مگ 21 جیسے فرسودہ طیاروں پر انحصار کر رہا ہے۔ جنہیں بڑے پیمانے پر حادثات کا شکار ہونے کی وجہ سےاڑتے ہوئے تابوت کہاجاتا ہے ۔ ووہرا غالباً بھارتی نیول چیف کا رونا بھول گیا ہے ، جس نے دسمبر کے آخر میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ پاکستان نیوی مختصر وقت میں جس تیزی سے مستحکم ہوئی ہے ، وہ ہمارے لئے خطرہ ہے۔‘‘بہرحال بھارتی آرمی چیف ہو یا وزیر دفاع ہم یہی کہیں گے کہ تمہارا دکھ ہمیں معلوم ہے ، لیکن ہم دکھ کی اس گھڑی میں قطعاً تمہارے ساتھ نہیں ہیں ، خدا کرے کہ تمہارا یہ دکھ دن دگنی رات چگنی رفتار سے بڑھتا رہے۔ انشا اللہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی کے کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کی کہ بھارت کے حصول تیزی سے رہے ہیں رہا ہے کا دکھ

پڑھیں:

پاک بھارت کشیدگی عسکری کے بعد اب سفارتی میدان میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مئی 2025ء) پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی آج کل ملکی فوج کے سربراہ عاصم منیر کے ہمراہ ان ممالک کے دورے کر رہے ہیں جنہوں نے حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران پاکستان کی حمایت کی۔ یہ پاکستانی وفد ترکی، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان جیسے دوست ممالک کے دورے پر ہے۔ اس دورے میں وزیر اعظم شہباز شریف کا مقصد یہ ہے کہ ان دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا جائے اور پاکستان کے موقف کو مزید تقویت دی جائے۔

پاکستانی وفود کے یورپ اور امریکا کے دورے

اس کے علاوہ پاکستان کے دو اور اعلیٰ سطحی وفود امریکہ اور یورپ بھی روانہ ہو رہے ہیں۔ ان وفود میں حکومتی وزراء، اراکین پارلیمان، سینئر سیاستدان اور سابق سفارتکار بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

بلاول بھٹو زرداری، جو مختصر مدت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، امریکہ جانے والے پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔

بھارت کا پانی کو ہتھیار بنانا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی، پاکستان

یہ وفد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امریکی قانون سازوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا اداروں کے سرکردہ نمائندوں سے ملاقاتیں کرے گا تاکہ ان کے سامنے بھارت کے ساتھ تصادم سے متعلق پاکستانی موقف کی وضاحت کی جا سکے۔

اس وفد میں مصدق ملک، حنا ربانی کھر، شیری رحمان، خرم دستگیر اور سابق سفیر جلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں۔

یہ پاکستانی وفد یکم جون کو نیو یارک پہنچے گا اور تین جون کو واشنگٹن میں اس وفد کے ارکان کی امریکی کے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بات چیت متوقع ہے۔ بھارت کے بھی آٹھ وفود 33 ممالک کے دوروں پر

دوسری طرف بھارت نے بھی اپنی سفارتی مہم تیز کر دی ہے۔ بھارتی رکن پارلیمان اور اقوام متحدہ کے سابق اعلیٰ عہدیدار ششی تھرور امریکہ کے دورے گئے ہوئے بھارتی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔

ان کے اس دورے میں گیانا، پاناما، کولمبیا اور برازیل کے سفر بھی شامل ہیں۔ بھارت نے دنیا کے 33 دارالحکومتوں میں اپنے آٹھ وفود بھیجے ہیں، جو وہاں پاک بھارت کشیدگی سے متعلق نئی دہلی کا بیانیہ پیش کر رہے ہیں۔

ششی تھرور ایک تجربہ کار سفارتکار اور کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان ہیں۔ وہ بھارت کی پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ بھی ہیں اور 27 کتابوں کے مصنف بھی۔

وہ اقوام متحدہ میں اپنی خدمات اور بھارتی وزارت خارجہ میں دو مرتبہ بطور وزیر اپنے کردار کے باعث عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم کا مبینہ ’اشتعال انگیز‘ بیان اور پاکستان کا ردعمل

اسی طرح پاکستان کے بلاول بھٹو زرداری بھی ایک نمایاں سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے بیٹے اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں اور 2022 سے 2023 تک پاکستانی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کشیدگی برقرار

یہ جملہ سفارتی سرگرمیاں ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہیں، جب جنوبی ایشیا میں کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے اور چند حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کچھ حصہ بھی جنگی بیانیے کو تقویت دے رہا ہے۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت مؤثر دلائل موجود ہیں اور بین الاقوامی برادری کی توجہ بھی حاصل ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کے علاوہ کسی ملک نے پاکستان کی پوزیشن پر اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، ''بھارت کو یہ جواب دینا ہو گا کہ اس نے بغیر ثبوت پاکستان پر الزامات کیوں عائد کیے اور یکطرفہ حملے کیوں کیے جبکہ بھارت نے شہری آبادیوں کو نشانہ بھی بنایا اور دونوں ممالک کے مابین سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی۔

‘‘

بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، شہباز شریف

پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت نے پہلگام میں خونریز حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے فوری طور پر پاکستان پر لگا دیا۔ پھر بھارت نے فوجی کارروائی کے طور پر 'آپریشن سندور‘ شروع کیا، جب کہ پاکستان کی جوابی کارروائی، جسے 'آپریشن بنیان مرصوص‘ کا نام دیا گیا، دفاعی نوعیت کی تھی۔

پاکستان کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

بھارت: پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں پیرا ملٹری پولیس افسر گرفتار

بھارتی وفود کی جانب سے پاکستان پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی پالیسی اور بھارت کے اپنے دفاع کے حق کے حوالے سے گفتگو کی جا رہی ہے۔

بھارتی وفد کے ایک رکن نے تو پاکستان میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار اور جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بنائے جانے پر بھی تنقید کی ہے۔ ’امن کی امید قائم رکھنا چاہیے‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک عملی طور پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں، اور چین کے مخالف بلاک کو قائل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔

تاہم ان کے مطابق پاکستان کو اپنی کوششیں جاری رکھنا چاہییں۔

پاکستان کی ’دو ٹوک حمایت‘ پر شہباز شریف کی طرف سے ترکی کا شکریہ

ان کے خیال میں بلاول بھٹو زرداری جیسے نوجوان سیاستدان کی قیادت میں کسی سفارتی وفد کو بیرون ملک بھیجنا بہتر انتخاب نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنانے کے خواہش مند حلقوں کی طرف سے انہیں عالمی سطح پر متعارف کرانے کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

بھارتی دستوں نے سرحد پار کرنے والے پاکستانی کو گولی مار دی

پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن اپنے سیاسی موقف میں لچک پیدا کر کے قومی مفاد میں کوئی بڑا فیصلہ کر لیتے، اور حزب اختلاف کو بھی ان کوششوں کا حصہ بنا لیتے، مثلاً ان کے الفاظ میں اگر عمران خان کو اس وفد کا سربراہ بنا کر بیرون ملک بھیجا جاتا، تو اس کا عالمی سطح پر غیر معمولی اثر پڑتا۔

''اس سے حکومت کا امیج بھی بہتر ہوتا اور اندرون ملک اتحاد بھی فروغ پاتا۔‘‘

پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جس پر بھارت کا حق ہے، بھارتی وزیراعظم مودی

بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہ چکنے والے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ تمام تر مسائل اور پیچیدگیوں کے باوجود امن کی امید قائم رکھنا چاہیے۔ ان کے مطابق اب تک بہت نقصان ہو چکا ہے، اور چونکہ بھارت ایک بڑا ملک ہے، اس لیے اسے پہل کرنا چاہیے۔

عبدالباسط کے بقول اگر بھارت جموں کشمیر کے متنازعہ خطے کو اپنا 'اٹوٹ انگ‘ کہنے کے موقف سے پیچھے ہٹے، تو امن کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’ معاہدے ہو جاتے ہیں، لیکن ہتھیار نہیں پہنچتے‘، بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا شکوہ
  • بھارت پاکستان کشیدگی: نئی دہلی کو کولمبیا کے موقف سے مایوسی
  • بے اعتبار اور بے وقار بھارتی میڈیا
  • پاکستان کے ساتھ بات چیت صرف دہشت گردی اورآزادکشمیرپرہوگی،بھارتی وزیردفاع
  • بھارتی وزیراعظم کی اشتعال انگیزی
  • پاک بھارت کشیدگی عسکری کے بعد اب سفارتی میدان میں
  • بھارتی وزیراعظم کے بیانات افسوسناک مگر حیران کن نہیں: ترجمان دفتر خارجہ  
  • معرکہ حق، پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے،وزیر ریلوے حنیف عباسی کا دعوی
  • ایٹمی طاقت کا حصول قوت کے ذریعے امن قائم رکھنے کا دانشمندانہ فیصلہ تھا، صدر پاکستان
  • ایٹمی طاقت کا حصول امن قائم رکھنے کا دانشمندانہ فیصلہ تھا، صدر اور وزیراعظم کا یوم تکبیر پر پیغام