190ملین پاؤنڈ کیس میں کس کا کیا فائدہ؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 190ملین پاؤنڈ کیس میں آخر کار سزا ہوگئی، عمران خان کو 14سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ ان کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو 5لاکھ جرمانے کے ساتھ 7سال قید کی سزا سنائی گئی، اب القادر یونیورسٹی بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہے۔ اس کیس کو ماہرین ہمیشہ سے انتہائی مضبوط قرار دیتے تھے حتیٰ کہ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی عمران خان کے خلاف صرف اس ایک کیس کوانتہائی خطرناک قرار دیا تھا۔
تاہم، توشہ خانہ اور دیگر کیسز میں عمران خان زیادہ الجھے رہے اور اب اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو 2بار ملتوی کیا گیا اور پھر جمعہ 17جنوری کو سنا دیا گیا۔ احتساب عدالت کا یہ فیصلہ ظاہر ہے حتمی نہیں بلکہ اس فیصلے کا انتظار عمران خان اور بشریٰ بی بی سمیت پی ٹی آئی کی پوری قیادت کررہی تھی۔ جس کی بڑی وجہ اس کو اگلے مرحلے تک پہنچانا تھا۔ پاکستان کاعدالتی نظام تب تک بہترین ہے جب اس سے فیصلے آنے لگتے ہیں۔
لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے پاکستان کی عدالتوں میں فیصلے لٹکنا اچھنبے کی بات ہے اور اس کے سامنے سب بے بس ہوتے ہیں احتساب عدالت سے زیادہ پی ٹی آئی اب اعلیٰ عدلیہ میں اس کیس کو لے کر زیادہ مطمئن رہے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ اس فیصلے کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوسکتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس وقت سب کے ذہن میں یہی سوال اٹھ رہا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے سے کس کو فائدہ ہوا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو اس فیصلے سے سب کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا ہے سب سے بڑا فائدہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ہوا ہے۔
مسلم لیگ ن کا دعویٰ رہا ہے کہ عمران خان نے ملک ریاض کے جرمانے کی رقم کے بدلے فائدہ لیا اور القادر یونیورسٹی شروع ہی سے ان کے نشانہ پر رہی ان کا بیانیہ اس تمام مقدمے میں جیت گیا اور انہیں من چاہا فیصلہ مل گیا پی ٹی آئی نے ہمیشہ سے عمران خان کو کرپشن سے پاک قرار دیا اور توشہ خانہ کیس کے بعد القادر کیس میں عمران خان کی اس صاف اور شفاف شخصیت کے تاثر کو نقصان پہنچا ہے جو بلا شبہ سیاسی پوئنٹ اسکورنگ کے لیے مسلم لیگ کا بڑا ہتھیارہوگا جسے وہ آج نہیں تو مستقبل میں سیاسی مہمات میں ضرور استعمال کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے لیے اس فیصلے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس فیصلے کو اب اعلیٰ عدلیہ میں لے جایا جائیگا، اعلیٰ عدلیہ کے جج اڈیالہ میں سماعت نہیں کریں گے اور جب سماعت بڑی عدالت میں ہوگی تو اسے چھپانا مشکل ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی اپریل 2022سے مظلومیت کارڈ کھیل رہی ہے۔ عمران خان کو عہدے سے ہٹانے سے لیکرعام انتخابات تک پی ٹی آئی کے لیے سب سے اہم نکتہ مظلومیت کا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کیساتھ جو کچھ ہوا ماضی میں بھی ہوتا رہا۔ تاہم، پی ٹی آئی میں یہ گُر ضرور ہے کہ وہ اسے دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ سنانے میں جب 2بار التواء آیا تو عمران خان نے خود فیصلہ سنانے کا مطالبہ کیا اور اسے دنیا میں ایسے ہی پیش کیا گیا کہ عمران خان مظلوم ہیں پی ٹی آئی نے اس پورے کیس میں ہر ایک لفظ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر اپنایا جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے لیے یہ کیس بھی انتہائی اہم ہے 9مئی ملزمان کو سزا ہو، توشہ خان کیس کا فیصلہ ہو، عدت میں نکاح کیس یا پھر القادر ٹرسٹ کا فیصلہ، پی ٹی آئی کو نقصان سے زیادہ اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی ایک بار پھر معصول ٹھہری ہے اور یہی مدعا بنائے گی کہ مقتدرہ کے سامنے کھڑے ہونے کی قیمت وہ ادا کررہی ہے حکومت سے زیادہ اس کیس کو پی ٹی آئی اچھالے گی اور اس کیس کی بنیاد پر جو بیانیہ بنے گا اس کا مقابلہ کرنے کا چیلنج حکومت کو درپیش رہے گا۔
اس کیس کا فائدہ دراصل تیسرے فریق کو ہوگا گزشتہ کچھ عرصے سے یہ باتیں چل نکلی تھیں کہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ ایک مذاکرات حکومت اور پی ٹی آئی کررہی ہے جو میڈیا اور عوام کو دکھانے کےلیے ہیں جبکہ ایک ملاقات ان کیساتھ ہورہی ہے جن کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ جب یہ معاملات نکلے تو کئی سوال اٹھنے شروع ہوگئے، پی ٹی آئی کو کیا ملے گا اور جواب میں پی ٹی آئی کیا دے سکتی ہے؟ اصل مذاکرات کی بات جیسے جیسے میڈیا پر سامنے آنے لگی تو ڈیل کا تاثر زور پکڑنے لگا۔
ڈیل میں عمران خان کی رہائی، اڈیالہ سے خیبر پختونخوا یا پھر بنی گالہ نظر بندی کی خبریں نکلنے لگیں اصل دونوں فریقین خاموش رہے اور پھر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اس بات کی تصدیق کردی۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پیغام رسانی کا کام سرانجام دیا لیکن اس تمام عمل میں پی ٹی آئی کا 3سالہ بیانیہ کہاں گیا؟ پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا القادر ٹرسٹ کیس فیصلہ 2بار ملتوی ہونے پر بھی یہی تاثر مضبوط ہوگیا کہ معاملات طے پاگئے۔
اب پی ٹی آئی دوبارہ سے لاڈلی بن جائیگی اس تاثر نے پی ٹی آئی اور مقتدرہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اس کا اب ازالہ ہوگیا ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سخت سزا سنا کر مقتدرہ نے یہ تاثر دیدیا کہ بظاہر ڈھیل اور ڈیل دونوں نہیں ہیں۔ (پس پردہ معاملات کچھ اور ہیں) ان کا مؤقف جو 9مئی کے بعد تھا وہ آج بھی ہے عمران خان اور پی ٹی آئی کو سینہ ٹھوک کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج بھی غیر جمہوری قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے (ان کے بھی پس پردہ معاملات کچھ اور ہیں )۔
القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلہ میں تینوں فریقین کو فائدہ ہوا ہے عمران خان اور پی ٹی آئی کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ آج بھی مظلوم ہیں، مسلم لیگ ن اور حکومت کا فائدہ یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے بانی کو عدالت سے کرپٹ قرار دے دیا گیا جبکہ مقتدرہ کا فائدہ یہ ہوا کہ پس پردہ چلنے والے معاملات پر زیادہ نظر نہیں رہے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190ملین پاؤنڈ کیس القادر ٹرسٹ کیس القادر ٹرسٹ کیس عمران خان اور عمران خان کو پی ٹی آئی کو اس فیصلے کا فیصلہ مسلم لیگ کا فائدہ کیس میں ہوا ہے کے لیے خان کی رہا ہے کیس کا اس کیس کیس کو ہے اور
پڑھیں:
پاکستان میں عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاج
پاکستان میں عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاج پاکستان میں عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاجپاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے مقید رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان نیز پارٹی کے دیگر مقید کارکنان کی رہائی کے لیے پانچ اگست منگل کے روز سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کر رہی ہے۔
پانچ اگست کو ہونے والا احتجاج پارٹی کے سربراہ عمران خان کی کرپشن کیس میں قید کی دوسری برسی کے موقع پر ہو رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اس کے بہت سے کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
پارٹی کے رہنماؤں نے اس حوالے سے ہونے والی ریلیوں کو "محاذ آرائی کے بجائے انصاف کی لڑائی کے طور پر پیش" کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا ہے کہ وہ مستقبل کے انتخابات سے پی ٹی آئی کو سائیڈ لائن کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
(جاری ہے)
معروف میڈیا ادارے ڈان نے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کے حوالے سے لکھا ہے کہ پانچ اگست کے روز احتجاج کا آغاز ہے، تاہم اسے 'حتمی کال‘ نہ سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ "پی ٹی آئی کے صوبائی چیپٹرز کو ریلیوں، عوامی آگاہی کی تقریبات اور دیگر سرگرمیوں کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور جعلی حکومت کے خاتمے تک احتجاج جاری رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ عوام کا حق ہے کہ ان کے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں بیٹھیں۔پی ٹی آئی رہنما نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ "ہم نے احتجاج میں معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ہم ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔"
چھاپے اور گرفتاریوں کا دعوی
پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پنجاب اور کشمیر میں چھاپے مارے گئے ہیں اور حکام نے مختلف اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی پنجاب کے میڈیا سیل کے سربراہ شایان بشیر نے سینیٹر علی ظفر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ پولیس نے تقریباً 200 چھاپے مارے اور پارٹی کارکنوں کو اٹھا لیا اور پھر مبینہ طور پر حلف نامے جمع کرانے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ "پی ٹی آئی لاہور اور اڈیالہ جیل کے باہر (راولپنڈی میں) ایک بڑا مظاہرہ کرے گی۔
اس کے علاوہ صوبے بھر میں زبردست ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا جو بعد میں بھی پورے طریقے سے جاری رہیں گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ مختلف اضلاع سے پارٹی کے کارکن اور حامی لاہور پہنچ چکے ہیں۔کیا بات چیت ممکن ہے؟
پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر ظفر نے مذاکرات کے حوالے سے ایک مبہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ "گرچہ عمران خان نے 'مذاکرات کا دروازہ‘ بند کر دیا ہے تاہم سیاست میں "فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔
"یہ کہتے ہوئے کہ وہ بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، سینیٹر ظفر نے کہا کہ عمران خان نے ایک بار پارٹی کو دو شرائط کے ساتھ بات چیت کی اجازت دی تھی، جسے حکومت نے قبول نہیں کیا اور مذاکرات ختم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام اور قانون کی حکمرانی کے لیے 10 سال تک جیل میں رہنے کے لیے تیار ہیں اور "جعلی مقدمات" اور مقدمات کی سماعت میں تاخیر سمیت کسی بھی قسم کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
افراتفری کی سیاست
دوسری جانب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ لوگ پانچ اگست کی احتجاجی کال کو مسترد کر دیں گے۔
بخاری نے پیر کے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "افراتفری کی سیاست کو عوام مسترد کرنے کے ساتھ ہی اسے شکست دیں گے۔ پی ٹی آئی اب ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ یہ ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے پرعزم ایک فاشسٹ گروپ بن چکی ہے۔
"واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ عمران خان کے بیٹے بھی تحریک میں شامل ہونے کے لیے پاکستان آئیں گے۔
پنجاب کی وزیر نے کہا کہ پانچ اگست کو جب قوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گی، پی ٹی آئی کی احتجاجی کال "انتہائی افسوسناک" ہے۔
ادارت: جاوید اختر