Daily Ausaf:
2025-11-04@00:49:10 GMT

انسانی اسمگلروں کو سخت سزائیں دی جائیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

انسانی سمگلنگ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کا شکار عام طور پر وہ افراد بنتے ہیں جو بہتر روزگار، معیاری زندگی، یا محض ایک نئے آغاز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مسئلہ خاص طور پر نوجوانوں میں انتہائی بڑھ گیا ہے، جو غیر قانونی طریقوں سے یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لیے ایجنٹوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ دو بھائی ہیں، شہریار اور افتخار، جنہوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دیے اور بالآخر مراکش میں ہونے والے کشتی حادثے میں اپنی جان گنوا دی۔انسانی سمگلنگ ایک عالمی سطح پر موجود سنگین جرم ہے جو افراد کی زندگیوں کو درگور کر دیتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی کاروبار ہے جس میں ملوث افراد لوگوں کو دھوکہ دہی اور جبر کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرتے ہیں۔ اس کا آغاز 19ویں صدی میں ہوا جب غلاموں کی تجارت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی جڑیں پکڑیں۔ تاہم 20ویں صدی کے آخر میں اس میں تبدیلی آئی اور یہ جنسی استحصال، محنت کے استحصال اور دوسرے غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔
آج کل انسانی سمگلنگ کا مقصد صرف غلامی نہیں بلکہ انسانوں کا غیر قانونی کاروبار کرنا اور انہیں غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کے لیے مجبور کرنا ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہیں، لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں، جو انہیں انسانی سمگلروں کے جال میں پھنسنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہریار اور افتخار کی کہانی اسی حقیقت کی غماز ہے کہ کس طرح ایجنٹوں کی دھوکہ دہی نے ان کی زندگیوں کو بے معنی بنا دیا۔شہریار اور افتخار کا معاملہ بہت سارے ایسے افراد کی کہانی کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں بہتر روزگار کی تلاش میں غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 21 سالہ شہریار اور 22 سالہ افتخار نے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان دونوں بھائیوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دئیے، لیکن اس کا نتیجہ وہ نہ تھا جو انہوں نے سوچا تھا۔ ایجنٹوں نے ان سے رقم وصول کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو وعدے کئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے اور اس کے بعد انہیں غیر قانونی طریقے سے اسپین لے جانے کی کوشش کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ان ایجنٹوں کی دھوکہ دہی اور ان کے غیر قانونی طریقوں کا شکار ہونے والے افراد میں صرف شہریار اور افتخار نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے سے لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ایجنٹ جو لوگوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں داخلے کی امید دلاتے ہیں، وہ حقیقت میں ان لوگوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کا مقصد صرف پیسہ بٹورنا ہوتا ہے اور انہیں کسی کی زندگی یا سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔شہریار اور افتخار کے والد کے مطابق ان کے بیٹے قانونی طریقوں سے ایجنٹوں کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کا سفر ایک بڑی مصیبت میں تبدیل ہو جائے گا۔ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دینے کے باوجود ان کے بیٹے نہ صرف غیر قانونی راستے اختیار کر رہے تھے، بلکہ ان کی زندگی خطرے میں تھی۔مراکش کے ساحل پر ہونے والا کشتی حادثہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ غیر قانونی سفر کے نتیجے میں کس طرح انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو سکتی ہیں۔ شہریار اور افتخار کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں نے تصاویر کے ذریعے انہیں اس سانحے کے بارے میں بتایا۔ یہ حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی طریقہ نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔انسانی سمگلنگ صرف ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک قومی اور بین الاقوامی سطح کا سنگین جرم ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مؤثر قوانین اور اقدامات کریں۔ پاکستان میں اس وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کرے اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کرے جو لوگوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو عوام میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس خطرے سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کے لئے سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ لوگ غیر قانونی راستوں کو ترک کر دیں۔
عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے خلاف کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ سنگین بنا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ممالک کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اوراس کے لیے مشترکہ اقدامات کی انتہائی ضرورت ہے۔ عالمی تنظیمیں جیسے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو مدد فراہم کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ انسانی ا سمگلنگ ایک قومی بحران بن چکا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنے قوانین کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے اور اس کی روک تھام کے لیے مخصوص پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔انسانی سمگلنگ کے مسئلے کا حل آسان نہیں، لیکن اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہریار اور افتخار جیسے نوجوانوں کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی سمگلنگ کا کاروبار کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں اور اس کے خلاف مضبوط قانون سازی کریں تاکہ اس قسم کے حادثات کو روکا جا سکے۔ ایجنٹوں کی دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو اس خطرے سے بچایا جا سکے۔شہر یار اور افتخار نے جو 80 لاکھ روپے ایجنٹوں کو دیئے ان پیسوں سے پاکستان میں بہترین کاروبار ہو سکتا تھااور یورپ سے زیادہ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔معلوم نہیں ان لوگوں کی مت ماری جاتی ہے یا پھر تقدیر ان کے دماغوں کو سن کر دیتی ہے بہر حال جہاں ہم انسانی اسمگلروں کے لئے سخت سے سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتے ہیں وہاں ہم اللہ تبارک تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ ہر کسی کی اولاد کو بری تقدیروں سے محفوظ فرمائے۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شہریار اور افتخار انسانی سمگلنگ کے بین الاقوامی عالمی سطح پر کرنے کے لیے ایجنٹوں کی دھوکہ دہی لاکھ روپے اس مسئلے ضرورت ہے کی زندگی لوگوں کو کرتے ہیں کے خلاف جانے کے اور اس اور ان اس بات

پڑھیں:

اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا

برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے انداز میں کام کرنے والا ایک سادہ سا عمل مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور توانائی کے استعمال کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے

یہ تحقیق یونیورسٹی آف سرے کے سائنسدانوں نے کی ہے جس میں انہوں نے انسانی دماغ کے حیاتیاتی اعصابی نظام سے براہ راست متاثر ہو کر ایک نیا طریقہ کار تیار کیا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی: ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘

سائنسی جریدے نیورو کمپیوٹنگ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ایک ماڈل بنایا ہے جسے ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘ (ٹی ایس ایم) کہا جاتا ہے۔

یہ نظام انسانی دماغ کی طرح ہر نیورون کو دوسرے نیورون سے منسلک کرنے کی بجائے ہر ’نیورون‘ کو صرف قریبی یا متعلقہ نیورونز سے جوڑتا ہے جیسا کہ روایتی ڈیپ لرننگ ماڈلز کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کینوا نے جدید اے آئی فیچرز سے لیس اپنا ڈیزائن ماڈل متعارف کرادیا

اس طرح  ٹی ایس ایم توانائی کے ضیاع کو کم کرتا ہے اور کارکردگی کو بہتر بناتا ہے جبکہ درستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔

کم توانائی، زیادہ کارکردگی

تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف سرّی کے کمپیوٹیشنل بایولوجی کے ماہر ڈاکٹر رومن باؤر نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذہین نظاموں کو کہیں زیادہ مؤثر طریقے سے بنایا جا سکتا ہے اور کم توانائی خرچ کرتے ہوئے بھی اعلیٰ کارکردگی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے بڑے  اے آئی ماڈلز کی تربیت میں ایک ملین کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی صرف ہو سکتی ہے جو موجودہ رفتار کے لحاظ سے پائیدار نہیں

دماغ سے متاثر انہانسڈ ٹی ایس ایم ایک قدم آگے

تحقیقی ٹیم نے اس تصور کو مزید ترقی دیتے ہوئے انہانسڈ ٹی ایس ایم متعارف کرایا جس میں ایک حیاتیاتی تراش خراش کا عمل شامل کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: چینی ساختہ آرٹیفیشل انٹلیجنس ڈیپ سِیک کی ایپ پر جرمنی میں پابندی کا خدشہ

یہ وہی عمل ہے جو انسانی دماغ میں سیکھنے کے دوران ہوتا ہے جب غیر ضروری اعصابی روابط آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔

نتائج کے مطابق ای ٹی ایس ایم ماڈل نے 99 فیصد تک غیر ضروری کنکشن ختم کر دیے یعنی تقریباً تمام اضافی روابط ہٹا دیے گئے  پھر بھی اس کی درستگی روایتی نیورل نیٹ ورکس کے برابر رہی۔

حیران کن نتائج

نئے ماڈل کے فوائد میں تربیت کا تیز تر عمل، کم میموری کا استعمال اور توانائی کی کھپت میں 99 فیصد تک کمی شامل ہیں۔

یہ نظام نہ صرف زیادہ مؤثر ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے کیونکہ یہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم توانائی استعمال کرتا ہے۔

مستقبل کی سمت: دماغ جیسے کمپیوٹرز

تحقیقی ٹیم اب یہ جانچنے میں مصروف ہے کہ اس طریقے کو نیو مورفک کمپیوٹنگ میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی ایسے کمپیوٹرز جو انسانی دماغ کی ساخت اور کام کرنے کے طریقے کی نقل کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ماڈل کامیابی سے بڑے پیمانے پر اپنایا گیا تو یہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں توانائی کے بحران اور پائیداری کے حوالے سے ایک انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ

انسانی دماغ سے متاثر نئی اے آئی ٹیکنالوجی نہ صرف کارکردگی بڑھا سکتی ہے بلکہ توانائی کے استعمال میں بھی نمایاں کمی لا سکتی ہے۔

یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل قدرتی ذہانت کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انہانسڈ ٹی ایس ایم اے آئی ٹی ایس ایم قدرتی دماغ اور اے آئی

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر اسرائیلی حملے فوری بند کیے جائیں، حماس کنٹرول فلسطینی کمیٹی کے سپرد کرنے کو تیار ہے، ترک وزیرِ خارجہ
  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار آج ایک روزہ دورے پر ترکیہ جائیں گے
  • پنجاب میں قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کو سخت سزائیں کیلیے قوانین تیار
  • نمبر پلیٹس کا ڈیزائن  تبدیل کرنے  کی تجویز
  • امریکی صدر نائیجیریا کو دھمکی:  اگر عیسائیوں کا قتل نہ رُکا تو بندوقوں کے ساتھ جائیں گے
  • عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟
  • تلاش
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • پاک-افغان مذاکرات، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ترکیے جائیں گے