Jasarat News:
2025-06-10@03:12:02 GMT

فوج اور قوم کے خاص تعلق کا افسانہ اور حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

فوج اور قوم کے خاص تعلق کا افسانہ اور حقیقت

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے فوج اور قوم کے تعلق کے حوالے سے دو بڑے دعوے کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاسی قائدین سے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ قوم اور فوج کے درمیان ایک ’’خاص‘‘ رشتہ ہے۔ اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرونِ ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چلایا جارہا ہے۔ (روزنامہ جسارت۔ 15 جنوری 2025ء)

فوج اور قوم کے درمیان کسی ’’خاص رشتے‘‘ کی موجودگی کا بیان ایک افسانہ ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ رشتہ کہیں موجود نہیں۔ جنرل عاصم منیر خیر سے سید بھی ہیں اور حافظِ قرآن بھی… وہ بتائیں کہ قرآن میں کہیں اس خاص رشتے کا ذکر ہے؟ ہم نے آج تک جتنی احادیث پڑھی ہیں ان میں کہیں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدِ مبارک ہمارے سامنے ہے، اس دور میں کوئی باضابطہ فوج یا Standing Army ہی نہیں تھی، چنانچہ اس دور میں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا کوئی وجود ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں نے باضابطہ فوج یا ’’اسٹینڈنگ آرمی‘‘ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تخلیق کی، اور اس فوج نے دو بڑے کارنامے انجام دیے۔ اس فوج نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا، مگر اس کے باوجود اس فوج نے سول افراد یا قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اب جرنیلوں کو ریاست چلانے کا اختیار دیا جائے۔ حضرت خالدؓ بن ولید اسلامی فوج کے سالار اور زندہ ’’لیجنڈ‘‘ تھے، عام فوجیوں اور عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو جتنی فتوحات میسر آئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی وجہ سے آئی ہیں۔ حضرت عمرؓ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بیک جنبش قلم حضرت خالدؓ بن ولید کو معزول کردیا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بہت سمجھایا کہ اس فیصلے سے فوج میں بددلی پھیلے گی، مگر حضرت عمرؓ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی شجاعت اور ذہانت سے نہیں بلکہ اسلام کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے خالدؓ بن ولید کو اُن کے عہدے پر بحال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرانے والی فوج کو کوئی ’’تقدس‘‘ حاصل نہیں تھا تو کسی اور فوج کو کیا ’’تقدس‘‘ حاصل ہوسکتا ہے، اور وہ قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے پر کیسے اصرار کرسکتی ہے؟

فاتحین کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجیوں نے راجا داہر کے ایک لاکھ کے لشکر کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، مگر اس کے باوجود سندھ پر فوج کی حکومت نہیں چلی۔ محمد بن قاسم کی حکومت چلی، اور محمد بن قاسم ایک ریاست کی علامت تھے۔ بابر نے 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان فتح کیا مگر اُس کے کسی جرنیل نے یہ نہیں کہا کہ اب اس کی فوج کو ہندوستان پر حکمرانی کا حق حاصل ہوگیا ہے۔

جدید تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ امریکا کی فوج نے امریکا کو دوسری عالمی جنگ جیت کر دی، مگر امریکا کی فوج نے اس فتح کے بعد قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اسے اب امریکا پر حکمرانی کا اختیار دیا جائے، نہ ہی کسی امریکی جنرل نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی۔ جنرل میک آرتھر امریکی فوج کا ’’لیجنڈری‘‘ جنرل تھا، اُسے امریکا کے ’’سول حکام‘‘ نے دوسری جنگ ِ عظیم میں بعض محاذوں پر پیش قدمی نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ جنرل میک آرتھر نے صحافیوں کے روبرو اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ امریکی فوجوں کی پیش قدمی جاری رہتی تو اچھا رہتا۔ یہ تبصرہ امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا تو امریکا کے سول حکام نے جنرل میک آرتھر کو فوراً محاذ سے واپس آنے کا حکم دے دیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فوج نے پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا اور 90 ہزار پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈلوا دیے، لیکن اس غیر معمولی فتح کے باوجود بھارتی فوج نے نہ قوم اور فوج کے درمیان کسی خاص رشتے کی موجودگی پر اصرار کیا، نہ اپنی عظیم الشان فتح کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا، نہ اقتدار میں حصہ مانگا۔ اس کے برعکس پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا کریڈٹ بھارت کی سول قیادت یعنی اندرا گاندھی نے لیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے حصے میں جو فوج آئی وہ برٹش آرمی کا تسلسل تھی اور دونوں ہی ملکوں کو انگریزوں کے تربیت یافتہ فوجی میسر آئے۔ لیکن بھارتی فوج دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی فوج بن گئی اور اس نے ’’سول بالادستی‘‘ کو قبول کرکے سول اتھارٹی کی ماتحتی کو دل سے قبول کرلیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک بھارت کے کسی جرنیل نے نہ اقتدار پر قبضہ کیا اور نہ مارشل لا لگایا۔ اس کے برعکس پاکستان کے حصے میں جو جرنیل آئے وہ اقتدار کے بھوکے تھے اور انہوں نے آج تک پاک فوج کو حقیقی معنوں میں ’’قومی فوج‘‘ نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمیدگل نے ہمیں ایک انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ پاک فوج تک برٹش آرمی کا تسلسل ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی جرنیل برطانوی سامراج کی طرح آقا اور غلام کی نفسیات کے دائرے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظر میں ’’آقا‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’غلام‘‘۔ وہ ’’حاکم‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’محکوم‘‘۔ وہ ’’فاتح‘‘ ہیں اور قوم اُن کی ’’مفتوح‘‘۔ ساری دنیا کے جرنیل دشمن کو فتح کرتے ہیں مگر پاکستانی جرنیل ہر آٹھ دس سال بعد مارشل لا لگاکر اپنی ہی قوم کو فتح کرلیتے ہیں۔ وہ مارشل نہ لگائیں تو بھی حکم ملک پر جرنیلوں ہی کا چلتا ہے۔ وہ نہ آئین کو خاطر میں لاتے ہیں، نہ عدالتوں کی چلنے دیتے ہیں، نہ پارلیمنٹ کو سربلند ہونے دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں نہ قومی سیاسی جماعتوں کی کوئی وقعت ہے، نہ انہیں ’’آزاد ذرائع ابلاغ‘‘ درکار ہیں۔ انہیں ایسے سیاست دان درکار ہیں جو ان کے ’’ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کریں۔ انہیں ایسے صحافیوں سے محبت ہے جو ان کی شان میں قصیدے لکھ سکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوم اور فوج کے تعلق کو کسی اور نے نہیں خود جرنیلوں نے مجروح کیا ہے۔

تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی فوج موجود تھی نہ کسی ’’پاکستانی جرنیل‘‘ کا وجود تھا۔ پاکستان ’’سول اتھارٹی‘‘ نے بنایا تھا اور وہی سول اتھارٹی پاکستان پر حکومت کی حق دار تھی۔ پاکستانی جرنیلوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا تو قوم اور فوج کے تعلق میں کبھی کوئی خلیج پیدا نہ ہوتی، مگر جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کرکے پاکستان کی پوری نظریاتی اور سیاسی تاریخ پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے ملک و قوم پر سیکولر ازم مسلط کرنے کی گھنائونی سازش کی۔ قومیں آئین سے چلتی ہیں مگر جنرل ایوب نے 1956ء کے آئین کو ختم کردیا۔ آزاد صحافت ملک و قوم کے اساسی مفادات کی محافظ ہوتی ہے مگر جنرل ایوب نے آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل یحییٰ نے 1971ء میں ملک ہی توڑ دیا اور ملک بھی اس طرح ٹوٹا کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ذلت کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اسلامی تاریخ میں اتنا بڑا ’’سرینڈر‘‘ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت 6 جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی تجویز دی تھی، مگر اس تجویز پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔ چنانچہ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا مسلط کرکے ایک بار پھر قوم اور فوج کے رشتے میں دراڑ ڈال دی۔ جنرل ضیا الحق نے ملک کو ایٹمی پروگرام دینے والے اور ملک کو 1973ء کا متفقہ اسلامی آئین فراہم کرنے والے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو اقتدار سے باہر کرکے ایک بار پھر قوم کو فتح کرنے کا مظاہرہ کیا۔ اس سے قوم اور فوج کے تعلق میں ایک اور دراڑ پڑی۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل عاصم منیر کی تین فضیلتیں ہیں۔ وہ ’’سیّد‘‘ ہیں، ’’حافظ‘‘ ہیں اور اقبال کے ’’عاشق‘‘ ہیں۔ چنانچہ ان کے کردار کو ماضی کے جرنیلوں کے کردار سے مختلف ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں عمران خان کی پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی، مگر ماضی کی طرح جرنیلوں نے عمران خان کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور پی ٹی آئی کو اکثر مقامات پر ہرا کر ن لیگ کو فتح یاب کردیا گیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پہلے نمبر پر تھی اور حافظ نعیم شہر کے میئر بننے والے تھے، مگر ایجنسیوں نے شہر پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھی مگر ایجنسیوں نے گندا کھیل کھیل کر اُسے کراچی میں پہلے نمبر کی جماعت بنادیا۔ عمران خان کے خلاف 190 ملین پائونڈ کا فیصلہ ’’سیاسی‘‘ ہے ’’عدالتی‘‘ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سیاست دان اور صحافی نہیں ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق میں دراڑ ڈالی ہے، بلکہ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق کو تباہ کیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: قوم اور فوج کے تعلق مگر جنرل ایوب نے پاکستانی جرنیل کسی خاص رشتے مارشل لا ہیں اور پاک فوج اور قوم بن ولید ئی ہیں فوج کو فوج نے کی فوج کو فتح قوم کے کے کسی کہا کہ

پڑھیں:

قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے

اسلام ٹائمز: قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کیلئے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کیلئے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ تحریر: محمد حسن جمالی

علم بادشاہ ہے، جس قوم کے پاس علم ہو، وہی دوسروں پر حکمرانی کرسکتی ہے۔رہبر معظم کے مطابق علم تمدن کی بنیاد ہے۔ تحقیق، سیاسی، عسکری، تہذیب و ثقافت اور اقتصادی میدان میں قوموں کو استقلال اور اقتدار فراہم کرتی ہے۔ علم کے حصول کا اہم ذریعہ قلم ہے۔ قلم انسان کی وہ طاقت ہے، جس سے افکار تشکیل پاتے ہیں، تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ انقلابات جنم لیتے ہیں اور تاریخ کے دھارے بدل جاتے ہیں۔ یہ صرف روشنائی سے بھرا چند گرام وزنی آلہ نہیں بلکہ انسان کے ضمیر، احساس، تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ صفحۂ قرطاس پر نمودار کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔ جو قومیں اپنے قلم کو سچائی، عدل اور شعور کی خدمت میں لگاتی ہیں، وہ کبھی فکری غلامی کا شکار نہیں ہوتیں، جبکہ وہ قومیں جو قلم کو نظرانداز کر دیتی ہیں یا اسے صرف مفاد، جھوٹ اور سنسنی پھیلانے کا ذریعہ بنا دیتی ہیں، وہ اپنی نسلوں کو تاریکی کے سپرد کر دیتی ہیں۔

آج کے اس پیچیدہ اور متلاطم دور میں ایک طرف سچ دبایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو خوبصورت بیانیہ دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہ جانا سب سے بڑی خیانت ہے۔ خاموشی، ظلم کی تائید ہے، لاعلمی کے تسلسل کو جاری رکھنے کی اجازت ہے اور جھوٹے نظریات کو رواج دینے کا راستہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم نے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے کا عمل ترک کر دیا تو ہم صرف ایک بے حس ہجوم بن کر رہ جائیں گے، جسے کسی بھی سمت ہانکا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہر وہ فرد جس کے اندر احساس کی رمق باقی ہے اور جو معاشرے کی بدحالی پر تڑپتا ہے، وہ خاموش تماشائی بنا رہنے کے بجائے قلم اٹھائے اور شعور کی شمع روشن کرے۔ قلم کا اصل مقصد صرف آنکھیں بند کرکے کاغذ کے صفحات بھرنا نہیں، بلکہ انسانوں کے اندر وہ سوال پیدا کرنا ہے، جو انہیں سچ تک لے جائے۔

جب ہم کسی مظلوم کی داستان لکھتے ہیں، کسی ناانصافی کی نشاندہی کرتے ہیں اور کسی گمراہی کو بے نقاب کرتے ہیں تو ہم درحقیقت سچائی کی جانب ایک راستہ کھولتے ہیں اور یہی وہ پہلی اینٹ ہے، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے درکار ہوتی ہے۔ یاد رکھیں! اگر آپ کا ایک جملہ کسی نوجوان کے دل میں بیداری پیدا کر دے، اگر آپ کا ایک مضمون کسی فرد کو سوچنے پر مجبور کر دے تو یہ فقط تحریر نہیں بلکہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ آج ہمیں سوشل میڈیا کی سطحی تحریروں، جھوٹے تجزیوں اور فکری بدنظمی کے طوفان کا سامنا ہے۔ یہاں ہر کوئی لکھ رہا ہے، مگر کم ہی لوگ ایسے ہیں، جو ذمہ داری سے لکھتے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو مسائل پر سوچیں، انہیں پرکھیں، ان پر تحقیق کریں اور پھر لکھیں۔ ایسا لکھیں، جو وقتی واہ واہ کے لیے نہیں، بلکہ قوم کی دیرپا بیداری کے لیے ہو۔

ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو قوم کے ذہنوں سے تعصب، جہالت اور غفلت کی گرد جھاڑ سکیں، جو سچ کے راستے پر سوالات کے چراغ روشن کریں، جو ظالم کو ظالم لکھنے کی جرأت رکھیں اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرسکیں۔ قلم کا مطلب ہے ذمہ داری اور شعور۔ ایک باشعور قلم کار وہ ہوتا ہے، جو اپنے ہر لفظ کو تولتا ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک جملہ کسی کے دل کا رُخ بدل سکتا ہے، کسی کی سوچ کی بنیاد ہلا سکتا ہے اور کسی کو عمل پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیئے کہ ہم بھی اس کارواں کا حصہ بنیں، ہم بھی لکھیں، ہم بھی سوچیں اور ہم بھی شعور بانٹیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ سوچنے اور لکھنے کے عمل کو زندہ رکھنا خود انسانیت کی بقا ہے۔ اگر آج ہم نے شعور کی شمع اپنے قلم سے نہ جلائی تو کل اندھیروں کا گلہ کرنا بے معنی ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بنانا ہوگا۔ ایک ایسا ہتھیار جو خون نہیں سوچ نکالے؛ جو چیخ نہیں دلیل دے؛ جو نفرت نہیں فہم بانٹے۔

قلم فقط ماضی کا نوحہ لکھنے کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل کے خواب سنوارنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے جھوٹے پروپیگنڈے سے محفوظ رہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم علم و فہم کے آسمان پر پرواز کرے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ سچائی کا چراغ پھر سے روشن ہو تو ہمیں آج ہی قلم اٹھانا ہوگا، البتہ عزم، اخلاص اور شعور کے ساتھ۔ ضروری ہے کہ ہمارے دانشمندان قلم کی طاقت کے ذریعے وقت کے سب سے بڑے فتنے یعنی ان خائن اور مفاد پرست سیاست دانوں کو بے نقاب کریں، جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور اقتدار کی ہوس کے بدلے وطن عزيز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔ وہ سیاست دان جنہیں قوم نے امانت دار سمجھ کر ووٹ دیا، جنہیں رہنماء جان کر سروں پر بٹھایا، جن کے وعدوں پر بھروسہ کیا، جن کی باتوں میں امید کے دیئے تلاش کیے گئے، مگر بدلے میں انہوں نے عوام کے اعتماد کو بیچ کر اپنے محل تعمیر کیے، غریب کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کے بینک بیلنس بڑھائے اور پاکستان کی قسمت کو اپنی سیاست کی شطرنج پر قربان کر دیا۔

یہ وہی سیاست دان ہیں، جو ہر الیکشن میں نئے نعرے، نئی جھوٹی قسمیں اور نئے خواب لے کر عوام کے سامنے آتے ہیں اور جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان کا ہر عمل اس ملک کی روح پر زخم بن کر لگتا ہے۔ ان کی زبان پر اسلام، جمہوریت، خدمت، اصول اور انصاف جیسے الفاظ ہوتے ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ صرف لوٹ مار، اقربا پروری، کرپشن، جھوٹ، بددیانتی، نااہلی اور بیرونی آقاؤں کی تابعداری کے سوا کچھ نہیں دکھاتے۔ وہ قومی اداروں کو کمزور کرتے ہیں، عدلیہ کو دباؤ میں رکھتے ہیں، میڈیا کو خریدتے ہیں اور ہر اس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ان کی اصلیت بے نقاب کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان چہروں کو بار بار موقع دیا گیا، کیونکہ انہوں نے جھوٹ کو اس مہارت سے سچ کا لبادہ پہنایا کہ سادہ دل عوام پھر ان کے دام فریب میں آگئے۔

اگر آج ان کے جھوٹ کو قلم کی روشنی سے چیر کر بے نقاب نہ کیا گیا، اگر ان کی سازشوں، منافقتوں اور بدنیتیوں کو الفاظ کی تلوار سے کاٹا نہ گیا تو آنے والی نسلیں بھی انہی خالی نعروں اور جعلی تاریخوں کو رہنمائی سمجھتی رہیں گی۔ ان کے بچوں کی قسمت بھی انہی جعلی رہنماؤں کے ہاتھوں لکھی جائے گی اور قوم ایک بار پھر اسی اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، جس سے نکلنے کے لیے آج کا شعور پکار رہا ہے۔ یہ سیاست دان صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں۔ ان کی سب سے بڑی خیانت فکری کرپشن ہے۔ انہوں نے قوم کو تقسیم کیا، فرقہ واریت کو ہوا دی، علاقائیت کو بڑھایا، قومیت کے نام پر نفرتیں بوئیں اور تعلیمی نظام کو ایسا بگاڑا کہ سوچنے والے ذہن پیدا ہی نہ ہوں۔ انہوں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں الجھن، مایوسی اور غصہ بھرا، تاکہ کوئی شعور کی بات نہ کرسکے، کوئی سوال نہ اٹھا سکے اور کوئی ان کے مفادات کو چیلنج نہ کرسکے۔

وہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف جذباتی رہے، تاکہ وہ جھوٹ بول کر ووٹ لے سکیں اور پھر اقتدار میں آکر ملک کو اپنے خاندانی کاروبار کی طرح چلا سکیں۔ لہٰذا یہ اب صرف ایک اخلاقی فرض نہیں رہا بلکہ ایک قومی فریضہ بن چکا ہے کہ اہلِ قلم ان فتنہ گر سیاست دانوں کی چمکتی ہوئی مگر اندر سے سڑتی ہوئی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ ان کے وہ چہرے دکھائیں، جو میڈیا پر خوشنما پردوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے وہ بیانیے توڑیں، جو قوم کے شعور کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، کیونکہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قلم صرف حسن کی تعریف کے لیے نہیں، بدصورتی کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے اور اس وقت سب سے بدصورت شے، سب سے مکروہ سازش اور سب سے خطرناک دھوکہ یہی مکار سیاست دان ہیں، جو جمہوریت کے پردے میں آمریت کے زہر سے قوم کو برباد کر رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم میں برپا ہونے والا حقیقی انقلاب صرف احتجاج یا اقتدار کی تبدیلی سے نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے قلم کی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران اسی ابدی حقیقت کا ایک درخشاں اور زندہ ثبوت ہے۔ یہ فقط ایک سیاسی تحریک یا اقتدار کی منتقلی نہیں تھی، بلکہ ایک فکری بیداری، تہذیبی احیاء اور نظریاتی تجدید کا نام تھا۔ اس انقلاب کے پس پردہ جو اصل طاقت کارفرما تھی، وہ عوامی جذبات یا وقتی جوش و خروش نہیں، بلکہ وہ تحریریں اور افکار تھے، جو ذہنوں کو جھنجھوڑتے، دلوں کو جگاتے اور ضمیر کو بیدار کرتے تھے۔ ان تحریروں میں سب سے روشن اور مؤثر نام ہے شہید مرتضیٰ مطہری کا۔ شہید مطہری صرف ایک مذہبی عالم نہیں تھے بلکہ وہ فکر کے معمار، عقل و شعور کے مبلغ اور جدید اسلامی فکر کے عظیم معلم تھے۔ ان کے قلم نے نہ صرف مغرب کے فکری حملوں کا مدلل جواب دیا ہے، بلکہ مشرق کی خوابیدہ امت کے لیے بیداری بھی فراہم کی ہے۔

انہوں نے نوجوان نسل کو یہ سمجھایا کہ دین صرف رسوم و رواج یا ماضی کے قصے سنانے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے، جو انسان کو مقصد، بصیرت اور مزاحمت کی جرأت عطا کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انقلاب سے پہلے فکری زمین تیار کرنا لازم ہے اور یہ زمین قلم کے ذریعے ہی زرخیز ہوتی ہے۔ جب انسان سوچتا ہے، سوال کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے اور سچ کی تلاش میں نکلتا ہے، تبھی تبدیلی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہید مطہری نے اسلامی تعلیمات کو صرف مساجد اور مدرسوں کی چار دیواری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ فلسفہ، معاشرت، تاریخ اور انسانی افکار کے وسیع میدانوں میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ ان کا ہر جملہ ایک فکری مشعل اور ہر کتاب ایک نظریاتی قلعہ تھی۔ اسلامی انقلاب پوری امت مسلمہ کے لیے ایک نمونہ ہے۔ یہ اس زندہ حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر قلم بیدار ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں، اگر فکر آزاد ہو جائے تو ایوانِ ظلم لرز سکتے ہیں اور اگر فکری انقلاب برپا ہو جائے تو تاریخ کے رخ موڑے جا سکتے ہیں۔

آج جب ہم اپنی ملت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلی کے نعرے تو موجود ہیں، مگر ان کے پیچھے وہ گہرائی، وہ فکری بنیاد اور وہ اخلاقی جرأت ناپید ہے، جو قلم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں شہید مطہری جیسے اہلِ قلم کی ضرورت ہے، جو صرف لکھنے کے لیے نہ لکھیں، بلکہ زندگیاں بدلنے کے لیے لکھیں؛ جو نوجوان نسل میں وہ سوالات پیدا کریں، جو انہیں اندھی تقلید سے نکال کر تحقیق، تفکر اور تعمیری مزاحمت کی طرف لے جائیں۔ ہمیں ایسے قلم کار درکار ہیں، جو جھوٹ کا نقاب چاک کریں، جو سچ کو دلیل کے ساتھ پیش کریں، جو صرف تنقید نہیں بلکہ تعمیر کی بات کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلم کو وہ طاقتور ہتھیار بنائیں، جو بے ضمیری کی دیواروں کو توڑ دے اور شعور کی روشنی کو ہر دل تک پہنچا دے۔ آیئے قلم اٹھایئے اور شعور پھیلایئے۔

متعلقہ مضامین

  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
  • کراچی سے واپس جانیوالے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • کراچی سے واپس جانے والے قربانی کے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • بجلی کے 2 میٹر لگانے پر پابندی کی خبروں کی حقیقت سامنے آگئی
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • گلگت بلتستان، اساتذہ کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی گئی
  • پاک فوج کسی بھی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی