فوج اور قوم کے خاص تعلق کا افسانہ اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے فوج اور قوم کے تعلق کے حوالے سے دو بڑے دعوے کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاسی قائدین سے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ قوم اور فوج کے درمیان ایک ’’خاص‘‘ رشتہ ہے۔ اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرونِ ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چلایا جارہا ہے۔ (روزنامہ جسارت۔ 15 جنوری 2025ء)
فوج اور قوم کے درمیان کسی ’’خاص رشتے‘‘ کی موجودگی کا بیان ایک افسانہ ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ رشتہ کہیں موجود نہیں۔ جنرل عاصم منیر خیر سے سید بھی ہیں اور حافظِ قرآن بھی… وہ بتائیں کہ قرآن میں کہیں اس خاص رشتے کا ذکر ہے؟ ہم نے آج تک جتنی احادیث پڑھی ہیں ان میں کہیں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدِ مبارک ہمارے سامنے ہے، اس دور میں کوئی باضابطہ فوج یا Standing Army ہی نہیں تھی، چنانچہ اس دور میں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا کوئی وجود ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں نے باضابطہ فوج یا ’’اسٹینڈنگ آرمی‘‘ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تخلیق کی، اور اس فوج نے دو بڑے کارنامے انجام دیے۔ اس فوج نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا، مگر اس کے باوجود اس فوج نے سول افراد یا قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اب جرنیلوں کو ریاست چلانے کا اختیار دیا جائے۔ حضرت خالدؓ بن ولید اسلامی فوج کے سالار اور زندہ ’’لیجنڈ‘‘ تھے، عام فوجیوں اور عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو جتنی فتوحات میسر آئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی وجہ سے آئی ہیں۔ حضرت عمرؓ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بیک جنبش قلم حضرت خالدؓ بن ولید کو معزول کردیا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بہت سمجھایا کہ اس فیصلے سے فوج میں بددلی پھیلے گی، مگر حضرت عمرؓ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی شجاعت اور ذہانت سے نہیں بلکہ اسلام کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے خالدؓ بن ولید کو اُن کے عہدے پر بحال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرانے والی فوج کو کوئی ’’تقدس‘‘ حاصل نہیں تھا تو کسی اور فوج کو کیا ’’تقدس‘‘ حاصل ہوسکتا ہے، اور وہ قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے پر کیسے اصرار کرسکتی ہے؟
فاتحین کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجیوں نے راجا داہر کے ایک لاکھ کے لشکر کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، مگر اس کے باوجود سندھ پر فوج کی حکومت نہیں چلی۔ محمد بن قاسم کی حکومت چلی، اور محمد بن قاسم ایک ریاست کی علامت تھے۔ بابر نے 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان فتح کیا مگر اُس کے کسی جرنیل نے یہ نہیں کہا کہ اب اس کی فوج کو ہندوستان پر حکمرانی کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
جدید تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ امریکا کی فوج نے امریکا کو دوسری عالمی جنگ جیت کر دی، مگر امریکا کی فوج نے اس فتح کے بعد قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اسے اب امریکا پر حکمرانی کا اختیار دیا جائے، نہ ہی کسی امریکی جنرل نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی۔ جنرل میک آرتھر امریکی فوج کا ’’لیجنڈری‘‘ جنرل تھا، اُسے امریکا کے ’’سول حکام‘‘ نے دوسری جنگ ِ عظیم میں بعض محاذوں پر پیش قدمی نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ جنرل میک آرتھر نے صحافیوں کے روبرو اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ امریکی فوجوں کی پیش قدمی جاری رہتی تو اچھا رہتا۔ یہ تبصرہ امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا تو امریکا کے سول حکام نے جنرل میک آرتھر کو فوراً محاذ سے واپس آنے کا حکم دے دیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فوج نے پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا اور 90 ہزار پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈلوا دیے، لیکن اس غیر معمولی فتح کے باوجود بھارتی فوج نے نہ قوم اور فوج کے درمیان کسی خاص رشتے کی موجودگی پر اصرار کیا، نہ اپنی عظیم الشان فتح کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا، نہ اقتدار میں حصہ مانگا۔ اس کے برعکس پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا کریڈٹ بھارت کی سول قیادت یعنی اندرا گاندھی نے لیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے حصے میں جو فوج آئی وہ برٹش آرمی کا تسلسل تھی اور دونوں ہی ملکوں کو انگریزوں کے تربیت یافتہ فوجی میسر آئے۔ لیکن بھارتی فوج دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی فوج بن گئی اور اس نے ’’سول بالادستی‘‘ کو قبول کرکے سول اتھارٹی کی ماتحتی کو دل سے قبول کرلیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک بھارت کے کسی جرنیل نے نہ اقتدار پر قبضہ کیا اور نہ مارشل لا لگایا۔ اس کے برعکس پاکستان کے حصے میں جو جرنیل آئے وہ اقتدار کے بھوکے تھے اور انہوں نے آج تک پاک فوج کو حقیقی معنوں میں ’’قومی فوج‘‘ نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمیدگل نے ہمیں ایک انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ پاک فوج تک برٹش آرمی کا تسلسل ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی جرنیل برطانوی سامراج کی طرح آقا اور غلام کی نفسیات کے دائرے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظر میں ’’آقا‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’غلام‘‘۔ وہ ’’حاکم‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’محکوم‘‘۔ وہ ’’فاتح‘‘ ہیں اور قوم اُن کی ’’مفتوح‘‘۔ ساری دنیا کے جرنیل دشمن کو فتح کرتے ہیں مگر پاکستانی جرنیل ہر آٹھ دس سال بعد مارشل لا لگاکر اپنی ہی قوم کو فتح کرلیتے ہیں۔ وہ مارشل نہ لگائیں تو بھی حکم ملک پر جرنیلوں ہی کا چلتا ہے۔ وہ نہ آئین کو خاطر میں لاتے ہیں، نہ عدالتوں کی چلنے دیتے ہیں، نہ پارلیمنٹ کو سربلند ہونے دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں نہ قومی سیاسی جماعتوں کی کوئی وقعت ہے، نہ انہیں ’’آزاد ذرائع ابلاغ‘‘ درکار ہیں۔ انہیں ایسے سیاست دان درکار ہیں جو ان کے ’’ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کریں۔ انہیں ایسے صحافیوں سے محبت ہے جو ان کی شان میں قصیدے لکھ سکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوم اور فوج کے تعلق کو کسی اور نے نہیں خود جرنیلوں نے مجروح کیا ہے۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی فوج موجود تھی نہ کسی ’’پاکستانی جرنیل‘‘ کا وجود تھا۔ پاکستان ’’سول اتھارٹی‘‘ نے بنایا تھا اور وہی سول اتھارٹی پاکستان پر حکومت کی حق دار تھی۔ پاکستانی جرنیلوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا تو قوم اور فوج کے تعلق میں کبھی کوئی خلیج پیدا نہ ہوتی، مگر جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کرکے پاکستان کی پوری نظریاتی اور سیاسی تاریخ پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے ملک و قوم پر سیکولر ازم مسلط کرنے کی گھنائونی سازش کی۔ قومیں آئین سے چلتی ہیں مگر جنرل ایوب نے 1956ء کے آئین کو ختم کردیا۔ آزاد صحافت ملک و قوم کے اساسی مفادات کی محافظ ہوتی ہے مگر جنرل ایوب نے آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل یحییٰ نے 1971ء میں ملک ہی توڑ دیا اور ملک بھی اس طرح ٹوٹا کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ذلت کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اسلامی تاریخ میں اتنا بڑا ’’سرینڈر‘‘ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت 6 جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی تجویز دی تھی، مگر اس تجویز پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔ چنانچہ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا مسلط کرکے ایک بار پھر قوم اور فوج کے رشتے میں دراڑ ڈال دی۔ جنرل ضیا الحق نے ملک کو ایٹمی پروگرام دینے والے اور ملک کو 1973ء کا متفقہ اسلامی آئین فراہم کرنے والے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو اقتدار سے باہر کرکے ایک بار پھر قوم کو فتح کرنے کا مظاہرہ کیا۔ اس سے قوم اور فوج کے تعلق میں ایک اور دراڑ پڑی۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل عاصم منیر کی تین فضیلتیں ہیں۔ وہ ’’سیّد‘‘ ہیں، ’’حافظ‘‘ ہیں اور اقبال کے ’’عاشق‘‘ ہیں۔ چنانچہ ان کے کردار کو ماضی کے جرنیلوں کے کردار سے مختلف ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں عمران خان کی پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی، مگر ماضی کی طرح جرنیلوں نے عمران خان کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور پی ٹی آئی کو اکثر مقامات پر ہرا کر ن لیگ کو فتح یاب کردیا گیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پہلے نمبر پر تھی اور حافظ نعیم شہر کے میئر بننے والے تھے، مگر ایجنسیوں نے شہر پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھی مگر ایجنسیوں نے گندا کھیل کھیل کر اُسے کراچی میں پہلے نمبر کی جماعت بنادیا۔ عمران خان کے خلاف 190 ملین پائونڈ کا فیصلہ ’’سیاسی‘‘ ہے ’’عدالتی‘‘ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سیاست دان اور صحافی نہیں ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق میں دراڑ ڈالی ہے، بلکہ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق کو تباہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قوم اور فوج کے تعلق مگر جنرل ایوب نے پاکستانی جرنیل کسی خاص رشتے مارشل لا ہیں اور پاک فوج اور قوم بن ولید ئی ہیں فوج کو فوج نے کی فوج کو فتح قوم کے کے کسی کہا کہ
پڑھیں:
3نومبر 2007پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، پی ایف یو جے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر (نمائندہ جسارت) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے 3 نومبر 2007 کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے جب آمر جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی، میڈیا پر پابندی لگا دی اور ٹی وی چینلز کی نشریات معطل کر دیں، جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں صدر پی ایف یو جے افضل بٹ ، سیکرٹری جنرل ارشد انصاری اور سیکرٹری فنانس لالہ اسد پٹھان نے کہا کہ 3 نومبر 2007 کو ملکی تاریخ کے سیاہ ترین باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب نہ صرف میڈیا کو بے رحمانہ کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی نظر بند کیا گیا اور بہت سے لوگوں کو عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے کا کہا گیا۔ “آئین کو دوسری بار جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت نے منسوخ کیا جس نے 1999 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، پارلیمنٹ اور آئین کے تقدس کو پامال کیا تھا، انہوں نیکہا کہ یہ صحافی تھے جنہوں نے معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ مل کر آئین کی اس صریح خلاف ورزی کو چیلنج کرنے کی ہمت کی۔ “ہمارے برادری کے اراکین نے ڈکٹیٹر کی مخالفت کرنے کے لیے سڑکوں پر ٹاک شوز کا اہتمام کیا اور اس پر واضح کیا کہ کوئی بھی زبردستی میڈیا والوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی اور آزادی صحافت کے تحفظ سے نہیں روک سکتا۔”پی ایف یو جے کی قیادت نے کہا کہ اس دن پاکستان بھر کے صحافیوں نے احتجاج کیا اور ایمرجنسی واپس لینے، عارضی آئینی حکم اور 1973 کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے تشویش کے ساتھ نوٹ کیا کہ جمہوریت کی بحالی کے باوجود کالے قوانین اب بھی نظام کا حصہ ہیں جبکہ صحافیوں کے حقوق بھی کھلم کھلا پامال ہو رہے ہیں۔ “میڈیا پرسنز کو گرفتاریوں، دھمکیوں اور جعلی اور من گھڑت مقدمات کے اندراج کا سامنا ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔