وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے ایجوکیشن فیلوشپ پروگرام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
واضح رہے کہ دسمبر 2024ء میں وزیراعلی جی بی نے ایجوکیشن فیلو شپ پروگرام بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے بد انتظامی کے مرتکب آفیسران کے خلاف جی بی سول سرونٹ ای اینڈ ڈی رولز کے تحت سخت تادیبی کارروائی کی ہدایت کی تھی، ایجوکیشن فیلوشپ پروگرام بند کرنے سے 1200 نئے تعینات اساتذہ بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے پی ڈی سی این کے ذریعے فیلو شپ پروگرام جاری رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے محکمہ سکول ایجوکیشن گلگت بلتستان کے سیکرٹری کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم گلگت بلتستان میں ایجوکیشن فیلوز کو بحال کرنے کی ہدایت کی گئی، سیکرٹری تعلیم گلگت بلتستان کی طرف سے موضوع کے معاملے پر پریزنٹیشن/بریفنگ کے بعد وزیر اعلیٰ، جی بی نے کنسورشیم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق پروگرام ایجوکیشن فیلوز پروگرام کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر 2024ء میں وزیراعلی جی بی نے ایجوکیشن فیلو شپ پروگرام بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے بد انتظامی کے مرتکب آفیسران کے خلاف جی بی سول سرونٹ ای اینڈ ڈی رولز کے تحت سخت تادیبی کارروائی کی ہدایت کی تھی، ایجوکیشن فیلوشپ پروگرام بند کرنے سے 1200 نئے تعینات اساتذہ بیروزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔
وزیر اعلی سیکرٹریٹ گلگت بلتستان سے چیف سیکرٹری جی بی کو محکمہ تعلیم گلگت بلتستان میں ایجوکیشن فیلوز کی بھرتی کے حوالے سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ جی بی میں تعلیم کی ترقی کے لئے ایجوکیشن فیلو پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد پورے گلگت بلتستان میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنا تھا، خاص طور پر ان دور دراز علاقوں کو ترجیح دینا تھا جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ وزیر اعلی نے ہدایت کی تھی کہ بد انتظامی کے مرتکب افسران کے خلاف جی بی سول سرونٹ (ایفشینسی اینڈ ڈسپلن) رولز 2011ء کے تحت سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے ایجوکیشن فیلوز کے نام پر 1200 اساتذہ کو ٹیسٹ انٹرویوز کے ذریعے سے ایک سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پروگرام بند کرنے گلگت بلتستان وزیر اعلی ہدایت کی کی ہدایت
پڑھیں:
بوا عباس کے مزار سے عماچہ ہاؤس تک، جہاں تاریخ نے بچوں کا ہاتھ تھاما
اسلام ٹائمز: جب مغرب کی اذان کی صدا بلند ہوئی، ہم سکردو واپس پہنچ چکے تھے۔ دل میں سکون، ذہن میں یادیں اور لبوں پر شکر کا کلمہ۔ یہ پورا دن ایک مطالعاتی سفر کے ساتھ ساتھ روح و عقل کی تجدید کا باعث بھی تھا۔ یتیم بچوں کے چہروں پر خوشی، علماء و محققین کی صحبت سے حاصل ہونے والا علم اور بلتستان کی سرزمین میں سانس لیتی علمی و روحانی وراثت، سب نے مل کر اس سفر کو ایک مقدس تجربہ بنا دیا۔ شگر کی فضاؤں میں تاریخ، عرفان اور انسانیت کی خوشبو گھلی ہوئی تھی اور واپسی پر دل یہی کہہ رہا تھا کہ ایسے اسفار بار بار نصیب ہوں، تاکہ ہم اپنی مٹی کے ان روشن چراغوں سے روشنی لیتے رہیں۔ تحریر: آغا زمانی
اتوار، 12 اکتوبر 2025ء صبح کے قریباً نو بجے کا وقت تھا۔ فضا میں خزاں کی ہلکی سی خنکی تھی اور سورج کی کرنیں دریچوں سے چھن کر کمرے میں نرمی سے اتر رہی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جناب جی ایم پاروی صاحب کی پرمحبت آواز گونجی: ''آغا صاحب۔۔ آج ہم چند یتیم بچوں کو مطالعاتی دورے پر شگر لے جا رہے ہیں۔ وہاں بلتستان کے معروف شاعر و عالم بوا عباس رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ حسین سحر علیہ الرحمہ کی قبور کی زیارت کرنی ہے۔ اگر آپ ہمارے ساتھ چلیں تو سفر اور بھی بابرکت ہو جائے گا۔'' یہ جملہ سن کر دل میں ایک نرم سی روشنی اتر آئی۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ ایک طرف بزرگ کی محبت تھی اور دوسری طرف یتیموں کے ساتھ شفقت کا مقدس موقع۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔" (بحار الانوار) ایسے قول دل کو نرمی بخشتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ شاید آج کا دن صرف ایک سفر نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ثابت ہو۔ تھوڑی ہی دیر میں جی ایم پاروی صاحب دو گاڑیوں کے ہمراہ میری رہائش گاہ کے نزدیک پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ سلیم ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیرِاہتمام چلنے والے فائیو اسٹار بورڈنگ اسکول سکردو کے ننھے منّے طلبہ بھی موجود تھے۔ کچھ کے ہاتھوں میں مٹھائی کے ڈبے تھے، کچھ کے چہروں پر تجسس کی چمک۔ ان کے درمیان مسکراہٹوں کا شور ایسا لگ رہا تھا، جیسے بہار نے قافلہ باندھ لیا ہو۔ ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ دن کے پونے بارہ بج چکے تھے۔ دعا کے ساتھ روانگی ہوئی۔ گاڑی نے سکردو کی سڑکوں کو چیرتے ہوئے حسین آباد اور تھورگو کی وادیوں کی سمت سفر شروع کیا۔ یہ راستہ گویا بلتستان کی مصوری کا نمونہ ہے۔ ایک طرف خاموش دریا، کہیں چنار کے درختوں نے سرخ لباس پہنا ہوا، کہیں کھیتوں کے بیچ بچوں کی قہقہوں کی بازگشت۔ ہوا میں سیبوں اور بھیگی مٹی کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔
جب ہم تھورگو سے آگے بڑھے اور دریا پار کرکے شگر ضلعے کی حدود میں داخل ہوئے تو منظر یکدم بدل گیا۔ سامنے ریتلا میدان پھیلا ہوا تھا اور دور دور تک دیوقامت پہاڑ اپنی ہیبت اور وقار کے ساتھ ایستادہ تھے۔ یہ وہ مقام تھا، جہاں سرفہ رنگا کا صحرا اپنی وسعت کے ساتھ زمین کو سنہری آہنگ دیتا ہے اور اس کے بعد جیسے ہی پہاڑوں کے درمیان سے بل کھاتی سڑک نمودار ہوئی، سفر میں ایک انوکھا لطف پیدا ہوگیا۔ پتھروں کی بو، ہوا کی سیٹی اور گاڑی کے پہیوں کی سرگوشی۔۔ ہر شے ایک نظم کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں منظر پھر بدل گیا۔ پتھریلی زمین ختم ہوئی اور شگر کی سبز وادی نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ سامنے دریائے شگر اپنے وسیع بازوؤں میں پہاڑوں کا عکس سمیٹے بہہ رہا تھا۔ فطرت نے گویا رنگوں کی ایک محفل سجا رکھی تھی۔ نیلا آسمان، سنہری ریت اور شفاف پانی۔۔ یوں، تقریباً پینتالیس منٹ کے سفر کے بعد ہم چھورکا شگر پہنچے۔ جہاں ہمارا قافلہ سکون کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا۔
چھورکا شگر کے سرسبز دامن میں داخل ہوتے ہی منظر بدلنے لگا۔ مگر جیسے ہی ہم مرکزی شاہراہ سے دائیں مڑے اور بوا عباسؔ و شیخ حسین سحرؔ کے مزارات کی سمت بڑھنے لگے، راستے کی حقیقت عیاں ہوگئی۔ سڑک نہ صرف کچی تھی بلکہ انتہائی تنگ بھی۔ دونوں جانب مکانات، چھوٹے باغات اور دیواروں کے سائے میں مشکل سے ایک گاڑی گزرتی۔ دھول اڑتی تو لگتا جیسے صدیوں کا غبار زمانے کی داستانیں سنا رہا ہو۔ میں سوچنے لگا، جن راستوں سے کبھی علم، شعر اور عرفان کے قافلے گزرے ہوں، وہ آج اتنے بے یار و مددگار کیوں ہیں۔؟ یقیناً، علاقہ مکینوں اور حکومت دونوں پر لازم ہے کہ وہ اس راستے کو آرام دہ اور قابلِ رسائی بنائیں، تاکہ جو عقیدت مند، زائر یا طالب علم ان بزرگانِ بلتستان کی قبور تک آنا چاہیں، وہ آسانی سے یہاں پہنچ سکیں۔ یہ صرف سڑک نہیں بلکہ ایک روحانی راستہ ہے، جو اگلی نسلوں کو اپنی علمی جڑوں سے جوڑتا ہے۔
ہم سب سے پہلے بچوں کو شیخ حسین سحرؔ کے مزار کی طرف لے گئے۔ فضا میں ایک خاموش وقار تھا۔ پہاڑوں کے دامن میں بنا وہ چھوٹا سا مقبرہ، جس کے در و دیوار سادگی میں بھی وقار رکھتے تھے، گویا اہلِ دل کے لیے خاموش درسگاہ تھی۔ ہم سب نے مل کر فاتحہ پڑھی۔ ننھے طلبہ کے چہروں پر تجسس اور احترام کے ملے جلے آثار تھے۔ پھر برادر منظور (جو بلتی رسم الخط ''اگے'' کے احیاء اور فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں) نے بچوں کو شیخ سحرؔ کے علمی و ادبی کارناموں سے روشناس کرایا۔ ان کے ساتھ بلتستان معروف شاعر جناب طالب مجروح اور کے آئی سی ٹی سکردو کے روحِ رواں و سماجی شخصیت جی ایم پاروی صاحب نے بھی شیخ سحرؔ کی یادوں، مزاج اور خدمات کے حوالے سے نہایت پراثر گفتگو کی۔
شیخ غلام حسین سحرؔ علیہ الرحمہ (1949ء–2022ء) بلتستان کے ان ممتاز علماء و شعراء میں سے تھے، جنہوں نے علم و عرفان کو شعر کے قالب میں ڈھال کر ایک ایسی فکری میراث چھوڑی، جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی، مگر ان کے علمی سفر کا افق بلتستان سے کہیں آگے تک پھیلا۔ عراق، شام، لبنان اور ترکی کے سفر نے ان کے ذوقِ مطالعہ اور روحانی تجربے کو وسعت دی۔ وہاں ان کی ملاقات آیت اللہ موسیٰ صدر رحمۃ اللہ علیہ، آیت اللہ حسن شیرازی(رح) اور شہید سید مصطفیٰ چمران جیسے انقلابی علماء و شخصیات سے ہوئی، جن کی رفاقت نے ان کی شخصیت میں علم، عمل اور اخلاص کا حسین امتزاج پیدا کیا۔ ان کی زندگی کا خلاصہ سادگی، فقر، قناعت اور معرفت تھی۔ وہ نہ صرف بلند پایہ عالم و شاعر تھے بلکہ ایک صاحبِ عرفان انسان بھی۔ ان کی محفلوں میں فکری سنجیدگی، اخلاقی تربیت اور روحانی خوشبو بیک وقت محسوس ہوتی تھی۔
بلتی، اردو، فارسی اور عربی۔ چاروں زبانوں میں ان کا کلام عشقِ اہلِ بیت علیہم السلام، اصلاحِ معاشرہ اور انسانی اقدار کا آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری میں درد بھی ہے، دعوت بھی، عرفان بھی ہے، انقلاب بھی۔ شگر کی اس خاموش وادی میں کھڑے ہم سب محسوس کر رہے تھے کہ یہ قبر صرف مٹی کے ذرات کا مسکن نہیں، بلکہ روحِ علم و عرفان کی ایک جاوداں یادگار ہے۔ شیخ حسین سحرؔ کے مزار سے نکلے تو ذرا برابر میں ہی ایک اور مقدس وادی خاموشی سے اپنا راز سنبھالے بیٹھی تھی، یہ وہی جگہ تھی، جہاں سید محمد عباس موسوی رحمۃ اللہ علیہ، اہلِ بلتستان کے دلوں میں بوا عباسؔ کے نام سے معروف آسودۂ خاک ہیں۔ ہم سب نے ادب و احترام کے ساتھ ان کے مزار پر حاضری دی۔ یتیم بچوں کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں تجسس اور عقیدت کے رنگ اترے ہوئے تھے۔ کسی نے مزار کے قریب ادب سے کھڑے ہو کر خاموش دعا مانگی، کسی نے بلتی لہجے میں درود پڑھا۔ فضا میں ایک روحانی سکون تھا، جیسے صدیوں کا علم، زہد اور اخلاص اس خاموش قبر سے ابھی تک سانس لے رہا ہو۔
فاتحہ کے بعد جی ایم پاروی صاحب اور جناب طالب مجروح نے بچوں کو بوا عباسؔ(رح) کی علمی و دینی خدمات سے روشناس کرایا اور میں سوچنے لگا کہ بلتستان کی یہ مٹی کتنی زرخیز ہے، جو ہر صدی میں ایک بوا عباسؔ یا شیخ سحرؔ کو جنم دیتی ہے۔ بوا عباسؔ (1843ء وفات نامعلوم)، جن کا پورا نام آغا سید محمد عباس موسوی تھا، بلتستان کے ان مایہ ناز علماء و مصلحین میں سے تھے، جنہوں نے شریعت، علم اور اصلاحِ معاشرہ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ ان کا سلسلۂ نسب براہِ راست میر شمس الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے۔ وہی بزرگ جنہوں نے برصغیر کی شمالی وادیوں میں تشیع کی بنیاد رکھی۔ بوا عباسؔ نے نجفِ اشرف میں بیس برس تک اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی۔ وطن واپس آئے تو بلتستان، لداخ، کرگل، ہنزہ اور نگر تک کے تبلیغی سفر کیے۔ انہوں نے متعدد مساجد و مدارس قائم کیے اور بلتستان میں علمِ دین کے چراغ روشن کیے، جو آج بھی روشنی بانٹ رہے ہیں۔
ڈوگرا دور میں جب غیر اسلامی وراثتی قوانین عوام پر مسلط کیے گئے، تو بوا عباسؔ نے اس کے خلاف عدالتی جدوجہد کی۔ ان کی محنت اور شجاعت کے نتیجے میں شریعت کی بالادستی قائم ہوئی۔ انہوں نے چھوترون میں محکمۂ شرعی کی بنیاد رکھی، جہاں اسلامی عدل کا عملی نظام قائم ہوا۔ یہ وہ نظام ہے، جو آج بھی کسی حد تک قائم و دائم ہے۔ ان کی زندگی علم، تقویٰ، شجاعت اور دینی بصیرت کا مرقع تھی۔ بوا عباسؔ کا نام بلتستان کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے اور ان کی جدوجہد آج کے اہلِ علم کے لیے مشعلِ راہ۔ فاتحہ و زیارت کے بعد ہم نے مسجد میں نمازِ ظہرین ادا کی۔ نماز کے بعد دوپہر کے کھانے کا اہتمام ڈاکٹر بشیر صاحب کی جانب سے تھا۔ سادہ مگر لذیذ کھانا۔ مقامی روایات کی خوشبو لیے، سب نے شکریے اور دعاؤں کے ساتھ تناول کیا۔ کھانے کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ تھا۔۔ غازی حیدر خان عماچہ کلچرل میوزیم۔
وہاں پہنچے تو ڈاکٹر محمد حسن خان عماچہ صاحب بنفسِ نفیس ہمارا استقبال کر رہے تھے۔ چہرے پر نورانیت و مسکراہٹ، لہجے میں شفقت و اپنایت۔ بچوں کو دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے اور فوراً انہیں اپنے میوزیم کا تفصیلی دورہ کروایا۔ میوزیم کا اندرونی منظر گویا بلتستان کی تاریخ کا مجسم عکس تھا۔ قدیم پتھر اور لکڑی کے برتن، ہاتھ سے کندہ نقش، تانبے کے کٹورے، زنگ آلود مگر تاریخ رقم کرتی تلواریں اور کونے میں رکھی وہ بندوق جو ڈاکٹر صاحب کے بقول برصغیر کی سب سے بڑی بندوق تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ہزار سال پرانے برتن اور قدیم دستاویزات بھی موجود ہیں۔ ہر شے ماضی کی ایک گمشدہ داستان سنا رہی تھی۔ ڈاکٹر حسن خان عماچہ نے بچوں کے لیے شگر فورٹ وزٹ کا خصوصی انتظام کر رکھا تھا۔ ہم نے بچوں کو ان کی انچارج اور برادر وجاہت کے ساتھ روانہ کیا، تاکہ وہ شگر فورٹ کے تاریخی حسن کو قریب سے دیکھ سکیں۔
ادھر ہم، ڈاکٹر حسن خان عماچہ، جی ایم پاروی اور طالب مجروح، عماچہ خاندان کی تاریخ اور خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے محظوظ ہوتے رہے۔ ان کی باتوں میں تاریخ کی مہک اور علم کی گہرائی تھی۔ میری نظر ان کے اندازِ گفتگو پر ٹھہر گئی۔ وقار، علم اور اپنے آباؤ اجداد کے ورثے پر بے پناہ فخر۔ میں نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کہ ڈاکٹر محمد حسن خان عماچہ صاحب اور عماچہ خاندان کی علمی، ثقافتی اور سماجی خدمات پر ایک مفصل مضمون ضرور لکھوں گا۔ ان شاءاللہ، وہ مضمون مکمل ہوتے ہی قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ فی الحال، یہی روداد رقم کی گئی۔ شگر کی اس یادگار دوپہر میں جب ہم عماچہ ہاؤس میں ڈاکٹر محمد حسن خان عماچہ صاحب کے مہمان تھے، تو محسوس ہو رہا تھا کہ ہم ایک ایسی شخصیت کے سامنے بیٹھے ہیں، جن کی زندگی خدمت، علم اور تہذیبی وراثت کا حسین امتزاج ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ بلتستان کے اولین ماہر معالج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب، محقق اور تاریخ کے امین بھی ہیں۔ ان کی گفتگو میں ایک ایسا وقار ہے، جو برسوں کی خدمت، مطالعہ اور تجربے سے آتا ہے۔ عماچہ فاؤنڈیشن شگر (رجسٹرڈ) کے زیرِاہتمام وہ وقتاً فوقتاً عماچہ ہاؤس، محلہ آگیپہ، ضلع شگر میں ادبی محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ محافل نہ صرف اہلِ قلم کے لیے فکری نشستیں ثابت ہوتی ہیں بلکہ نوجوانوں کو اپنی سرزمین کی علمی اور ثقافتی جڑوں سے جوڑنے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایم بی بی ایس اور ڈی پی ایچ پنجاب سے کیا اور بعد ازاں انگلینڈ سے ایم پی ایچ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ محکمۂ صحت گلگت بلتستان سے ایک طویل عرصے تک وابستہ رہے۔ شگر اور خپلو میں بطور ہیلتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فرائض انجام دیئے، بعد ازاں سیکریٹری ہیلتھ گلگت بلتستان کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کا شمار ان افسروں میں ہوتا ہے، جو اصول پسندی، دیانت اور میرٹ کے استعارہ تھے۔
وہ بیجا سفارش کے سخت ترین مخالف اور نظامِ خدمت میں شفافیت کے علمبردار رہے۔ ان کے رفقا اور ماتحت آج بھی انہیں ایک ایسے افسر کے طور پر یاد کرتے ہیں، جس نے سرکاری عہدے کو عبادت کا درجہ دیا۔ ڈاکٹر حسن خان ''عماچہ خاندان'' کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے پردادا مراد علی خان مراد عماچہ شگر میں اس عظیم خاندان کی ذیلی شاخ کے بانی تھے، جبکہ غازی حیدر خان عماچہ، ان کے دادا کے دادا تھے۔ وہی نام جس سے غازی حیدر خان عماچہ کلچرل میوزیم منسوب ہے۔ مراد علی خان مراد عماچہ کا کلام صدیوں سے بکھرا ہوا تھا۔ اس ادبی ورثے کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کا احساس ڈاکٹر حسن خان کے دل میں برسوں سے تھا۔ آخرکار 2013ء میں انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا اور "مراد علی خان عماچہ کی متفرق شاعری" کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ بلتستان کے ادبی ورثے کی بازیافت تھی۔ اسی سال انہوں نے اپنے آبا کی علمی و روحانی میراث کو آگے بڑھاتے ہوئے متعدد اہم تصانیف شائع کیں، جن میں شامل ہیں:
"غازی حیدر خان، مراد علی خان و حیدر خان کے مراثی کا مجموعہ۔"
"کلیاتِ تحسین" ایک عارف بزرگ تحسین علیہ الرحمہ کے افکار و کلام پر مشتمل کتاب۔ "بلتستان میں خون کی کمی کی بیماری اور اس کی روک تھام" کے عنوان سے بہت ہی مفید کتابچہ۔۔ یہ تمام تصانیف اس بات کا ثبوت ہیں کہ ڈاکٹر حسن خان عماچہ نے قلم کو صرف تحقیق کے لیے نہیں، بلکہ خدمتِ انسانیت کے لیے بھی استعمال کیا۔ ان کی گفتگو میں ماضی کی گہرائی اور حال کی بصیرت یکجا تھی۔ ہم ان کے خیالات سے فیضیاب ہو رہے تھے کہ اسی دوران بچے شگر فورٹ کے دورے سے واپس آگئے۔ ان کے چہروں پر مسرت اور حیرت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اپنے تجربات کو ایک دوسرے سے شیئر کر رہے تھے، جیسے کسی خواب سے لوٹے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے خوش دلی سے اپنی چند کتابوں کے تحائف ہمارے حوالے کیے۔ ان کا انداز سادہ مگر دل سے نکلا ہوا تھا۔ ایک استاد، ایک محقق اور ایک محسن کا انداز۔
شام کی ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے ڈھلنے کو تھا۔ ہم نے عماچہ ہاؤس سے رخصت لی۔ شام کے پانچ بجے ہم نے شگر سے سکردو کے لیے واپسی کا سفر شروع کیا۔ راستے میں دریا کے پانی پر پڑتی سنہری شعاعیں کسی دعا کی مانند تھیں اور جب مغرب کی اذان کی صدا بلند ہوئی، ہم سکردو واپس پہنچ چکے تھے۔ دل میں سکون، ذہن میں یادیں اور لبوں پر شکر کا کلمہ۔ یہ پورا دن ایک مطالعاتی سفر کے ساتھ ساتھ روح و عقل کی تجدید کا باعث بھی تھا۔ یتیم بچوں کے چہروں پر خوشی، علماء و محققین کی صحبت سے حاصل ہونے والا علم اور بلتستان کی سرزمین میں سانس لیتی علمی و روحانی وراثت، سب نے مل کر اس سفر کو ایک مقدس تجربہ بنا دیا۔ شگر کی فضاؤں میں تاریخ، عرفان اور انسانیت کی خوشبو گھلی ہوئی تھی اور واپسی پر دل یہی کہہ رہا تھا کہ ایسے اسفار بار بار نصیب ہوں، تاکہ ہم اپنی مٹی کے ان روشن چراغوں سے روشنی لیتے رہیں۔