Jasarat News:
2025-07-26@20:02:49 GMT

مجھے تو اب معلوم ہوا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

مجھے تو اب معلوم ہوا

ایک کہانی ہے‘ یہ سچی ہے یا نہیں‘ بہر حال ضرور آپ نے بھی سنی ہوگی‘ ایک بڑھیا تھی اس نے سرکار سے امداد حاصل کرنے کی خاطر ایک درخواست لکھوائی‘ درخواست لکھنے والا شخص اتفاق سے ادیب‘ شاعر‘ کسی صحافی اور لکھاری جیسا ہی تھا‘ اس نے بڑھیا کی درخواست میں اس کی غربت‘ بے چارگی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کمال کردیا‘ اور درخواست لکھ کر بڑھیا کو سنائی‘ لکھی ہوئی درخواست کا متن سن کر بڑھیا بولی‘ مجھے توآج پتا چلا کہ میں کتنی غریب اور مستحق خاتون ہوں‘ جناب ! ہمارے ہاں بھی بہت سے لکھاری‘ ادیب اور شاعرانہ طرز تحریر رکھنے و الے بہت سے لوگ موجود ہیں وہ جن کی تعریف میں لکھتے ہیں انہیں تو تب پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرے کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل اور ناگزیر انسان ہیں‘ اس انتہا پسندی کو ہمارے دین نے منع کر رکھا ہے‘ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہیں کہ میں نے قبیلے بنائے صرف پہچان کے لیے‘ اور صرف اہل تقویٰ ہی اللہ کی نظر میں با وزن لوگ ہیں‘ انہی کی اہمیت ہے‘ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ صرف اور صرف اللہ کے خوف کا نام ہے‘ ہمارے دین اور ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیں تعصب کے بارے میں بڑی واضح اور کھلی شفاف قیمتی رہنمائی دی کہ تعصب یہ ہے کہ کوئی ہر قیمت پر‘ چاہے وہ شخص ظالم ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی انسان اس کی صرف اس لیے حمایت کرے کہ اس کا تعلق اس کے قبیلے سے ہے‘ ہمیشہ لکھتے ہوئے‘ بولتے ہوئے یہ نکتہ ہی نظر میں رہنا چاہیے‘ جب گواہی دینے کا موقع آئے تو جو بُرا ہے چاہے وہ اپنے ہی قبیلے سے کیوں نہ تعلق رکھنے والا ہو‘ اسے بُرا ہی کہا جائے‘ اور جو اچھا ہے چاہے اس کا تعلق مخالف قبیلے سے ہی کیوں نہ ہو‘ اسے اچھا ہی کہا جائے‘ ہر پڑھا لکھا شخص یہ جانتا ہے کہ اس وقت ملک میں معاشرے کی تقسیم بہت گہری ہوتی چلی جارہی ہے‘ جب بھی معاشروں میں ایسی تقسیم ہو تب ادیبوں‘ اور تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ دار ی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ معاشرے کو درست نہج پر لے جائیں‘ منقسم معاشرے میں سدھار کے نام پر انتہا پسندی کی روشنائی سے لکھی ہوئی تحریر کبھی بھی معتدل بلکہ معتبر نہیں قرار دی جاسکتی، معتبر تحریر وہی ہوتی ہے جس کے حوالے بھی مستند ہوں اور حقائق کی میزان پر پورا اترتے ہوں‘ ابھی حال ہی میں‘ دو ماہ قبل‘ اسلام آباد میں ایک سیاسی جماعت نے ہلہ بولا‘ مطالبہ تھا کہ خان کو رہا کرو‘ قانون کے دائرے

میں رہ کر احتجاج کرنا‘ اپنی بات کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا‘ یہ حق تو ہر شہری کو ہمارا آئین بھی دیتا ہے اور ہمیں یہ سب کے لیے حق تسلیم بھی ہے‘ لیکن ہوا کیا؟ سچی بات ہے کہ ہم نے اسے اس وقت رپورٹ نہیں کیا‘ مبادہ خرابی بڑھ نہ جائے‘ اس وقت ہوا یہ تھا‘ اور بلیو ایریا کے سب لوگ اس احتجاجی فضا سے اچھی طرح واقف ہیں‘ نعرے کیا لگ رہے تھے‘ کہاں ہے پنجابی؟ سامنے آئے پنجابی‘ ایسے نعرے‘ کبھی نہیں سنے تھے‘ ہم یہ بات کبھی نہ لکھتے‘ کیونکہ یہ ملک یک جہتی مانگ رہا ہے‘ تعصب کو ہوا دینا مناسب ہی نہیں ہے بلکہ غیر قانونی عمل بھی ہے، اسے ہمارا دین بھی پسند نہیں کرتا اور ایسے نعروں کا وزن ہماری قومی یک جہتی بھی نہیں سہہ سکتی‘ اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم کوئی ایسی بات لکھیں کہ جس سے کسی کا دل دکھے‘ یا یہ تحریر قومی یک جہتی کے منافی ہو‘ دین کی تعلیم کے خلاف ہو‘ اللہ ہمیں ایسے وقت سے بچائے رکھے‘ آمین۔ سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ جس نے بھی اچھا بول سیکھ لیا‘ گویا اس نے دوسروں کا دل جیت لیا‘ ہمیں تعصب پھیلانے کے لیے نہیں‘ دل جیت لینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے‘ قومی یک جہتی کے لیے اپنی رائے کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے‘ ہاں البتہ ہمیں بطور قوم‘ ہمارے قومی اداروں کو‘ ہماری پارلیمنٹ کو‘ قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کو‘ خود کو آئین پاکستان کے سامنے سرنگوں کرنا چاہیے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملک میں ایسا نظام بنانا جانا چاہیے کہ عاقل اور بالغ ووٹرز کی جانب سے آئینی انتخابات میں ووٹ جس کے لیے بھی ڈالا گیا ہے یہ ووٹ اس کے حق میں ہی شمار کیا جائے اور اس کے حق میں ہی گنا جائے‘ جس نے بھی اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے یا کر رہے ہیں وہ کوئی شخص ہے یا گروہ اسے بھی اب اپنی ساری توانائی‘ طاقت‘ رعب دبدبہ‘ آئین پاکستان کے پاؤں پر رکھ دینا چاہیے‘ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو پھر جمہوریت نظر بھی آنی چاہیے‘ باالکل اسی طرح جس طرح کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے‘ اگر یک جہتی ہماری قوت ہے‘ تو پھر ہمیں قبیلوں کی گروہ بندیوں کا اسیر نہیں بنے رہنا چاہیے بلکہ یک جہتی بڑھانے کے لیے اس برے فعل والے عمل سے آزاد ہونا چاہیے‘ لیکن اگر ہم اپنے پسند کے رہنماء کے لیے ایسی ایسی تحریر لکھیں گے کہ جس سے وہ کہہ اٹھے کہ مجھے تو آج پتا چلا کہ میرے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں تو ایسی تحریر کا جس کے بھی حق میں لکھی جائے کبھی بھی فائدہ نہیں ہوگا‘ بلکہ نقصان ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یک جہتی نے بھی کے لیے

پڑھیں:

جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟

اداکارہ علیزہ شاہ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں کیونکہ وہ اُن تمام سینیئر فنکاروں کو بے نقاب کر رہی ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔

علیزہ نے شازیہ منظور، جگن کاظم اور یاسر نواز جیسے سینیئرز کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی انہوں نے منسا ملک کے ساتھ پیش آنے والے ایک جھگڑے کا بھی ذکر کیا، جس میں علیزہ نے ایک سین میں منسا کو دھکا دیا اور تھپڑ مارا۔

اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں علیزہ نے جگن کاظم پر گرتی ہوئی اداکاری کی نقل اُتارنے کا الزام بھی لگایا۔

جگن کاظم کی معذرت

اس تنقید کے بعد سینیئر اینکر اور میزبان جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی مانگی۔ انہوں نے اپنے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی۔

ویڈیو میں جگن کاظم نے کہا کہ ’میں براہِ راست علیزہ بیٹا سے مخاطب ہوں۔ میں تمہیں بیٹا اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمر کی ہو۔ اگر میری کسی بات سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔

View this post on Instagram

A post shared by Social Diary Magazine Official (@socialdiarymag)

 

جگن کاظم نے کہا کہ علیزہ، مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ وہ ویڈیو تمہیں ناگوار گزری۔ تم نے کہا کہ تم مجھے عزت دیا کرتی تھیں، یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔

جگن کاظم کا کہنا تھا کہ بحیثیت سینیئر مجھے تمہارے لیے ایک مثالی شخصیت ہونا چاہیے تھا، میں کبھی بھی کسی نوجوان پر برا اثر ڈالنا نہیں چاہتی۔ میں تم سے دل سے معافی مانگتی ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ویڈیو 4 سال پرانی تھی اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا معاملہ بن جائے گا، لیکن اب میں سمجھ گئی ہوں کہ یہ اہم تھا۔ تم مجھے میسج کر دیتیں تو میں فوراً معذرت کر لیتی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی کوئی غلطی کرتی ہوں، فوراً معافی مانگ لیتی ہوں، چاہے وہ میرے اہلِ خانہ ہوں یا دوست۔ مجھے واقعی نہیں معلوم تھا کہ تمہیں دکھ پہنچا ہے یا لوگ تمہیں ٹرول کر رہے ہیں۔

جگن کاظم نے کہا کہ میں سب کی طرف سے معذرت کرتی ہوں جو اس میں شامل تھے۔ اب جب مجھے یہ ویڈیو بنانے کا موقع ملا تو میں نے ضروری سمجھا کہ معذرت کروں۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ تم نے یہ معاملہ عوامی سطح پر اٹھایا ہے، اس لیے میں بھی عوامی طور پر معذرت کر رہی ہوں۔ جب میں انڈسٹری میں آئی تھی تو میرے ساتھ بھی بُرا سلوک ہوا تھا، اس لیے مجھے تمہاری کیفیت کا بخوبی اندازہ ہے۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور شوبز انڈسٹری میں ہمدردی، معافی اور رویے کی سنجیدگی سے متعلق ایک نئی بحث کا آغاز کر چکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے پاس تصادم کی کوئی وجہ نہیں ہے، چینی سفیر
  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • خطے کی سب سے زیادہ مہنگی بجلی اور گیس بیچ کر ترقی نہیں ہو سکتی: مفتاح اسماعیل
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے)حافظ نعیم (
  • ’مجھے فرق نہیں پڑتا‘، عمرہ وی لاگنگ پر تنقید کرنے والوں کو ربیکا خان کا جواب
  • مجھے تینوں بڑی جماعتوں نے آفر دی تھی، مگر میں نے جے یو آئی کا انتخاب کیا، فرخ خان کھوکھر
  • علم ہی نہیں تھا کہ شاہ رخ خان کے ساتھ پرفارم کرنا ہے، ہمایوں سعید نے یادگار واقعہ سنا دیا