Express News:
2025-07-25@11:21:53 GMT

نئی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

شاہد خاقان عباسی ایک سمجھدار سلجھے ہوئے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی ایک باعزت طریقے اورشرافت سے گزاری۔ملک کی سیاست میں انٹری انھوں نے 1998 میں مسلم لیگ نون کے ساتھ شروع کی اورجب سے اب تک چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

1997 سے لے کر 1999تک پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے ،وہ یکم اگست 2017سے 31 مئی 2018 تک اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے۔ مشرف دور 2003 میں انھوں نے اپنی ایک پرائیویٹ ایئرلائن کی بنیاد رکھی، جسے ایئربلوکے نام سے جانا پہچانا جاتاہے۔جو عزت اورشہرت انھیں مسلم لیگ نون میں رہتے ہوئے ملی وہ شاید کسی اورجماعت سے نہیں مل سکتی تھی ۔وہ ایک شریف انفس سادہ مزاج انسان کے طور پربھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔

ساری زندگی مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری دکھائی لیکن فروری 2024 کے انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور پارٹی بھی چھوڑدی۔میاں نوازشریف آج بھی اُن کی بہت عزت کرتے ہیں اور کبھی بھی انھیں اس علیحدگی پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا،وہ خود بھی میاں نوازشریف سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں لیکن کیا کریں وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ۔

سیاست میں ہٹ دھرمی پرقائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، لچک اورنرمی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف اگر لچک نہ دکھاتے تو آج وہ پاکستان میں عزت وآرام سے نہیںرہ رہے ہوتے۔ اُن کا بھائی آج وزیراعظم نہ ہوتا اوراُن کی بیٹی پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی نہ ہوتیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارادوں اوراُصولوں پر مرتے دم تک قائم رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے ایک نہیں تین تین مرتبہ یہ ادوار گزارے ہیں۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ اگر یہ سمجھوتہ نہ کرتے تو دیار غیر میں ایک گمنام زندگی گزارتے۔ وہ بے شک اپنے ضمیر کی آواز پراپنے مؤقف پرڈٹے رہے ۔ اصغر خان بھی ایسے ہی ایک شخص تھے جنھوں نے اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اورمرتے دم تک اُن پرسختی سے قائم رہے لیکن کیا ہماری قوم نے انھیں اس بات پر آج تک کوئی خراج تحسین بھی پیش کیاہے۔

ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کا پس پردہ کردارایک اٹل حقیقت ہے اورکوئی اس سے انکار بھی نہیںکرسکتا۔ وہ چاہے وطن عزیز کی آزادی کے ابتدائی سال ہوں یا آج 78 برس بعدکا دورہم کبھی بھی اُس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سارے اسلامی ممالک کسی نہ کسی طرح اس شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں تو بھی شاید غلط نہ ہوگا،وہ اگر بظاہر براہ راست نہ جکڑے دکھائی نہ دیتے ہوں تو بھی بالواسطہ طور پرکسی نہ کسی سپر طاقت کے زیراثر ضرور ہیں۔

ہمارے یہاں جتنے سیاستدان برسراقتدار آئے اُن میںسے ہرایک کا تعلق ایک معروف نرسری سے ہی رہا ہے۔ پیپلزپارٹی گرچہ خود کو اس تعلق سے جداسمجھتی ہے لیکن اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سیاست میںقدم اسی دروازے سے رکھاتھا،وہ اگر ایسا نہ کرتے تو یقیناکوئی اوراُنکی جگہ لے لیتا۔

شاہد خاقان عباسی نے ساری سیاسی زندگی شرافت اورایمانداری سے گزاری اورمیاں نوازشریف کا بھرپور ساتھ بھی دیا، لیکن دیکھاجائے کہ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔جس نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ کر وہ اپنے آپ کو سب سیاستدانوں سے مختلف اور علیحدہ شناخت رکھنے والا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کیایہ ممکن ہوپارہا ہے۔وہ رفتہ رفتہ گمنامی کے کنویں میں گرتے جارہے ہیں۔لگتا ہے انھوں نے نئی پارٹی بنانے میں شاید کچھ جلد بازی کردی۔

جنھوں نے انھیں اس کام پر اکسایا تھا وہ بھی اب لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ مصطفی نوازکھوکھر اور مفتاح اسمعیل جو کبھی اُن کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے تھے آج کنارہ کش ہوچکے ہیں۔رہ گئی تیسری سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف جس کے ساتھ بھی چلنا اُن تینوں حضرات کے لیے شاید ممکن نہیں تھا۔

وہ تینوں آج صرف الیکٹرانک میڈیا پر بیانات اورتبصرہ نگاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی پندرہ سالوں تک جمہوری سیاست کی دھول اچھی طرح چاٹی تھی اور2011 میں جب تک غیبی قوتوں کی جانب سے ہاتھ نہ پکڑا گیا وہ دو سیٹوں سے زائد کامیابی سمیٹ نہ سکے۔

حالانکہ اُن کے اندر عوام کو متاثر کرنے کی بہرحال خوبی ضرور موجود تھی ۔ عوام پاکستان پارٹی بناکرشاید خاقان عباسی نے ملک کی لاتعداد سیاسی پارٹیوں میں ایک نام کا ضرور اضافہ کیا ہے لیکن عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرپائے۔ویسے بھی ہمارے لوگ پہلے ہی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ میاں شہبازشریف اورمریم نواز جس طر ح ملک وقوم کے لیے تیز رفتاری سے کام کررہے ہیں، ایسے میں کسی اورکے لیے جگہ بنانا بہت مشکل ہے۔

ہاں ،اگر انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں پہنچایا اورمقتدر حلقوں سے محاذآرائی شروع کردی تو پھر کسی اور کے لیے کوئی جگہ بنانا شاید ممکن ہوپائے،ورنہ جب تک ساری نئی سیاسی پارٹیاں صرف کاغذوں پر یاپھرصرف الیکشن کمیشن کے پاس ہی درج رہیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میاں نوازشریف سیاسی پارٹی سیاست میں انھوں نے رہے ہیں کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد

اپنے ایک بیان میں فرہاد شامی کا کہنا تھا کہ کُرد فوجی، جولانی کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے آئین بنے جس میں کُردوں کے حقوق دئیے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ سیرین ڈیموکریٹک فورس کے نام سے مشہور، کُرد ملیشیاء کے ترجمان "فرہاد شامی" نے جولانی فورسز کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کُرد ملیشیاء کے لیے اپنے ہتھیار ڈالنا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہتھیار جولانی رژیم کو نہیں دیں گے۔ کُرد فوجی، جولانی کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے آئین بنے جس میں کُردوں کے حقوق دئیے جائیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر کوئی ہمارے خلاف آئے گا تو ہم ضرور لڑیں گے۔ واضح رہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورس زیادہ تر شام کے صوبہ دیر الزور، الحسکہ اور حلب میں موجود ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب تک بشار الاسد شام پر برسرِ اقتدار تھے اس وقت کُرد ملیشیاء صرف امریکی خواہش کے مطابق شام سے علیحدگی اور تقسیم کی تحریک چلا رہے تھے، لیکن بشار الاسد کے زوال کے بعد کُرد، شام کی تقسیم کی بجائے حکومت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں، امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں کُرد وفد اور شامی باغیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ جو ناکام ہو گئے۔

کُرد ملیشیاء سے تعلق رکھنے والی شمال و مشرق شام کی خودمختار انتظامیہ نے گذشتہ اتوار کو ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ دمشق پر قابض جولانی رژیم کے ساتھ مذاکرات میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 10 مارچ 2025ء  کو شامی باغیوں کی حکومت کے سربراہ "ابو محمد الجولانی" اور سیرین ڈیموکریٹک فورس (قسد) کے کمانڈر "مظلوم عبدی" نے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ جس کا مقصد کُردوں کے زیرِ کنٹرول شمال مشرقی علاقوں کے فوجی و غیر فوجی اداروں کو مرکزی حکومت کے ڈھانچے میں ضم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں جامع جنگ بندی، سرحدی چوکیوں، ہوائی اڈوں اور تیل و گیس کے ذخائر پر دوبارہ حکومت کا کنٹرول، نیز کُردوں کے ثقافتی و سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا شامل تھا۔ لیکن حال ہی میں ابو محمد الجولانی نے کُردوں کو دھمکی دی اور اپنے فوجیوں کو منبج (حلب) کے قریب تشرین ڈیم کے علاقے میں بھیج دیا تاکہ انہیں کچل دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • مستقبل میں پروٹیکٹڈ صارفین کی کٹیگری ختم ‘ بے نظرانکم سپورٹ پروگرام پر تعین کیلا جائیگا ِ سکر ٹر یک پاور 
  • اپنا اسلحہ جولانی رژیم کے قبضے میں نہیں دیں گے، شامی کُرد
  • پائیدار ترقی محض خواب نہیں بلکہ بہتر مستقبل کا وعدہ ہے، گوتیرش
  • زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد