نئی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
شاہد خاقان عباسی ایک سمجھدار سلجھے ہوئے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی ایک باعزت طریقے اورشرافت سے گزاری۔ملک کی سیاست میں انٹری انھوں نے 1998 میں مسلم لیگ نون کے ساتھ شروع کی اورجب سے اب تک چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
1997 سے لے کر 1999تک پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے ،وہ یکم اگست 2017سے 31 مئی 2018 تک اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے۔ مشرف دور 2003 میں انھوں نے اپنی ایک پرائیویٹ ایئرلائن کی بنیاد رکھی، جسے ایئربلوکے نام سے جانا پہچانا جاتاہے۔جو عزت اورشہرت انھیں مسلم لیگ نون میں رہتے ہوئے ملی وہ شاید کسی اورجماعت سے نہیں مل سکتی تھی ۔وہ ایک شریف انفس سادہ مزاج انسان کے طور پربھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔
ساری زندگی مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری دکھائی لیکن فروری 2024 کے انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور پارٹی بھی چھوڑدی۔میاں نوازشریف آج بھی اُن کی بہت عزت کرتے ہیں اور کبھی بھی انھیں اس علیحدگی پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا،وہ خود بھی میاں نوازشریف سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں لیکن کیا کریں وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ۔
سیاست میں ہٹ دھرمی پرقائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، لچک اورنرمی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف اگر لچک نہ دکھاتے تو آج وہ پاکستان میں عزت وآرام سے نہیںرہ رہے ہوتے۔ اُن کا بھائی آج وزیراعظم نہ ہوتا اوراُن کی بیٹی پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی نہ ہوتیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارادوں اوراُصولوں پر مرتے دم تک قائم رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے ایک نہیں تین تین مرتبہ یہ ادوار گزارے ہیں۔
زندگی کے آخری ایام میں وہ اگر یہ سمجھوتہ نہ کرتے تو دیار غیر میں ایک گمنام زندگی گزارتے۔ وہ بے شک اپنے ضمیر کی آواز پراپنے مؤقف پرڈٹے رہے ۔ اصغر خان بھی ایسے ہی ایک شخص تھے جنھوں نے اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اورمرتے دم تک اُن پرسختی سے قائم رہے لیکن کیا ہماری قوم نے انھیں اس بات پر آج تک کوئی خراج تحسین بھی پیش کیاہے۔
ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کا پس پردہ کردارایک اٹل حقیقت ہے اورکوئی اس سے انکار بھی نہیںکرسکتا۔ وہ چاہے وطن عزیز کی آزادی کے ابتدائی سال ہوں یا آج 78 برس بعدکا دورہم کبھی بھی اُس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سارے اسلامی ممالک کسی نہ کسی طرح اس شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں تو بھی شاید غلط نہ ہوگا،وہ اگر بظاہر براہ راست نہ جکڑے دکھائی نہ دیتے ہوں تو بھی بالواسطہ طور پرکسی نہ کسی سپر طاقت کے زیراثر ضرور ہیں۔
ہمارے یہاں جتنے سیاستدان برسراقتدار آئے اُن میںسے ہرایک کا تعلق ایک معروف نرسری سے ہی رہا ہے۔ پیپلزپارٹی گرچہ خود کو اس تعلق سے جداسمجھتی ہے لیکن اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سیاست میںقدم اسی دروازے سے رکھاتھا،وہ اگر ایسا نہ کرتے تو یقیناکوئی اوراُنکی جگہ لے لیتا۔
شاہد خاقان عباسی نے ساری سیاسی زندگی شرافت اورایمانداری سے گزاری اورمیاں نوازشریف کا بھرپور ساتھ بھی دیا، لیکن دیکھاجائے کہ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔جس نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ کر وہ اپنے آپ کو سب سیاستدانوں سے مختلف اور علیحدہ شناخت رکھنے والا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کیایہ ممکن ہوپارہا ہے۔وہ رفتہ رفتہ گمنامی کے کنویں میں گرتے جارہے ہیں۔لگتا ہے انھوں نے نئی پارٹی بنانے میں شاید کچھ جلد بازی کردی۔
جنھوں نے انھیں اس کام پر اکسایا تھا وہ بھی اب لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ مصطفی نوازکھوکھر اور مفتاح اسمعیل جو کبھی اُن کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے تھے آج کنارہ کش ہوچکے ہیں۔رہ گئی تیسری سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف جس کے ساتھ بھی چلنا اُن تینوں حضرات کے لیے شاید ممکن نہیں تھا۔
وہ تینوں آج صرف الیکٹرانک میڈیا پر بیانات اورتبصرہ نگاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی پندرہ سالوں تک جمہوری سیاست کی دھول اچھی طرح چاٹی تھی اور2011 میں جب تک غیبی قوتوں کی جانب سے ہاتھ نہ پکڑا گیا وہ دو سیٹوں سے زائد کامیابی سمیٹ نہ سکے۔
حالانکہ اُن کے اندر عوام کو متاثر کرنے کی بہرحال خوبی ضرور موجود تھی ۔ عوام پاکستان پارٹی بناکرشاید خاقان عباسی نے ملک کی لاتعداد سیاسی پارٹیوں میں ایک نام کا ضرور اضافہ کیا ہے لیکن عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرپائے۔ویسے بھی ہمارے لوگ پہلے ہی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ میاں شہبازشریف اورمریم نواز جس طر ح ملک وقوم کے لیے تیز رفتاری سے کام کررہے ہیں، ایسے میں کسی اورکے لیے جگہ بنانا بہت مشکل ہے۔
ہاں ،اگر انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں پہنچایا اورمقتدر حلقوں سے محاذآرائی شروع کردی تو پھر کسی اور کے لیے کوئی جگہ بنانا شاید ممکن ہوپائے،ورنہ جب تک ساری نئی سیاسی پارٹیاں صرف کاغذوں پر یاپھرصرف الیکشن کمیشن کے پاس ہی درج رہیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میاں نوازشریف سیاسی پارٹی سیاست میں انھوں نے رہے ہیں کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم موجودہ اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں کراچی میں ملین مارچ کیا ، 27 اپریل کو لاہور میں بھی ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینیوں کے حق میں ایک آوازہوں گے، 11 مئی کو پشاور میں جبکہ 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچتی ہے اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے اور خود مسلم امہ کی بھی آواز بن رہی ہے، یہ شرف پاکستان کو حاصل ہے تو ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا اس وقت ملک اور خصوصاً خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، عوام نہ بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں نہ ان کے لیے کما سکتے ہیں، کاروباری برادری سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں، اس حوالے سے حکومتی کارکردگی زیرو ہے، حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ دھاندلی کی نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی اور وفاقی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، جے یو آئی ف کو امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے ہی پلیٹ فارم سے ہی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، الیکشن، غزہ اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے ان پر جمیعت علمائے اسلام (ف) اپنے پلیٹ فارم سے ہی میدان میں رہے گی، البتہٰ روزمرہ معاملات میں کچھ مشترک امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں سے اشتراک کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اسٹریٹیجی جماعت کی شوریٰ کمیٹی طے کرے گی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، اپوزیشن کا ابھی تک باضابطہ اتحاد موجود نہیں ہے تاہم ہم باہمی رابطوں کو برقرار رکھیں گے لیکن اپوزیشن کے باقاعدہ اتحاد پر ہماری مجلس عمومی آمادہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو خیبر پختونخوا میں پیش کیا جارہا ہے اور بلوچستان میں پیش ہوا ہے، ہماری مجلس عمومی نے اسے مسترد کیا ہے، بلوچستان میں ہمارے جن ممبران نے اس قانون کو ووٹ دیا ہے، ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان کے جواب سے جماعت مطمئن ہوئی تو ٹھیک ورنہ ان کی رکنیت ختم کی جائے گی، ہمیں اسمبلی میں اپنی تعداد کی پروا نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
maualana fazl ur rehman الیکشنز پریس کانفرنس پی ٹی آئی اتحاد غزہ مولانا فضل الرحمان