Express News:
2025-11-03@14:48:35 GMT

نئی سیاسی پارٹیوں کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

شاہد خاقان عباسی ایک سمجھدار سلجھے ہوئے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی ایک باعزت طریقے اورشرافت سے گزاری۔ملک کی سیاست میں انٹری انھوں نے 1998 میں مسلم لیگ نون کے ساتھ شروع کی اورجب سے اب تک چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

1997 سے لے کر 1999تک پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے ،وہ یکم اگست 2017سے 31 مئی 2018 تک اس ملک کے وزیراعظم بھی رہے۔ مشرف دور 2003 میں انھوں نے اپنی ایک پرائیویٹ ایئرلائن کی بنیاد رکھی، جسے ایئربلوکے نام سے جانا پہچانا جاتاہے۔جو عزت اورشہرت انھیں مسلم لیگ نون میں رہتے ہوئے ملی وہ شاید کسی اورجماعت سے نہیں مل سکتی تھی ۔وہ ایک شریف انفس سادہ مزاج انسان کے طور پربھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔

ساری زندگی مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری دکھائی لیکن فروری 2024 کے انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور پارٹی بھی چھوڑدی۔میاں نوازشریف آج بھی اُن کی بہت عزت کرتے ہیں اور کبھی بھی انھیں اس علیحدگی پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا،وہ خود بھی میاں نوازشریف سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں لیکن کیا کریں وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ۔

سیاست میں ہٹ دھرمی پرقائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، لچک اورنرمی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف اگر لچک نہ دکھاتے تو آج وہ پاکستان میں عزت وآرام سے نہیںرہ رہے ہوتے۔ اُن کا بھائی آج وزیراعظم نہ ہوتا اوراُن کی بیٹی پنجاب کی وزیراعلیٰ بھی نہ ہوتیں۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارادوں اوراُصولوں پر مرتے دم تک قائم رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے ایک نہیں تین تین مرتبہ یہ ادوار گزارے ہیں۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ اگر یہ سمجھوتہ نہ کرتے تو دیار غیر میں ایک گمنام زندگی گزارتے۔ وہ بے شک اپنے ضمیر کی آواز پراپنے مؤقف پرڈٹے رہے ۔ اصغر خان بھی ایسے ہی ایک شخص تھے جنھوں نے اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اورمرتے دم تک اُن پرسختی سے قائم رہے لیکن کیا ہماری قوم نے انھیں اس بات پر آج تک کوئی خراج تحسین بھی پیش کیاہے۔

ہماری قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کا پس پردہ کردارایک اٹل حقیقت ہے اورکوئی اس سے انکار بھی نہیںکرسکتا۔ وہ چاہے وطن عزیز کی آزادی کے ابتدائی سال ہوں یا آج 78 برس بعدکا دورہم کبھی بھی اُس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ سارے اسلامی ممالک کسی نہ کسی طرح اس شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں تو بھی شاید غلط نہ ہوگا،وہ اگر بظاہر براہ راست نہ جکڑے دکھائی نہ دیتے ہوں تو بھی بالواسطہ طور پرکسی نہ کسی سپر طاقت کے زیراثر ضرور ہیں۔

ہمارے یہاں جتنے سیاستدان برسراقتدار آئے اُن میںسے ہرایک کا تعلق ایک معروف نرسری سے ہی رہا ہے۔ پیپلزپارٹی گرچہ خود کو اس تعلق سے جداسمجھتی ہے لیکن اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سیاست میںقدم اسی دروازے سے رکھاتھا،وہ اگر ایسا نہ کرتے تو یقیناکوئی اوراُنکی جگہ لے لیتا۔

شاہد خاقان عباسی نے ساری سیاسی زندگی شرافت اورایمانداری سے گزاری اورمیاں نوازشریف کا بھرپور ساتھ بھی دیا، لیکن دیکھاجائے کہ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔جس نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھ کر وہ اپنے آپ کو سب سیاستدانوں سے مختلف اور علیحدہ شناخت رکھنے والا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کیایہ ممکن ہوپارہا ہے۔وہ رفتہ رفتہ گمنامی کے کنویں میں گرتے جارہے ہیں۔لگتا ہے انھوں نے نئی پارٹی بنانے میں شاید کچھ جلد بازی کردی۔

جنھوں نے انھیں اس کام پر اکسایا تھا وہ بھی اب لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ مصطفی نوازکھوکھر اور مفتاح اسمعیل جو کبھی اُن کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے تھے آج کنارہ کش ہوچکے ہیں۔رہ گئی تیسری سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف جس کے ساتھ بھی چلنا اُن تینوں حضرات کے لیے شاید ممکن نہیں تھا۔

وہ تینوں آج صرف الیکٹرانک میڈیا پر بیانات اورتبصرہ نگاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی پندرہ سالوں تک جمہوری سیاست کی دھول اچھی طرح چاٹی تھی اور2011 میں جب تک غیبی قوتوں کی جانب سے ہاتھ نہ پکڑا گیا وہ دو سیٹوں سے زائد کامیابی سمیٹ نہ سکے۔

حالانکہ اُن کے اندر عوام کو متاثر کرنے کی بہرحال خوبی ضرور موجود تھی ۔ عوام پاکستان پارٹی بناکرشاید خاقان عباسی نے ملک کی لاتعداد سیاسی پارٹیوں میں ایک نام کا ضرور اضافہ کیا ہے لیکن عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرپائے۔ویسے بھی ہمارے لوگ پہلے ہی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ میاں شہبازشریف اورمریم نواز جس طر ح ملک وقوم کے لیے تیز رفتاری سے کام کررہے ہیں، ایسے میں کسی اورکے لیے جگہ بنانا بہت مشکل ہے۔

ہاں ،اگر انھوں نے عوام کو ریلیف نہیں پہنچایا اورمقتدر حلقوں سے محاذآرائی شروع کردی تو پھر کسی اور کے لیے کوئی جگہ بنانا شاید ممکن ہوپائے،ورنہ جب تک ساری نئی سیاسی پارٹیاں صرف کاغذوں پر یاپھرصرف الیکشن کمیشن کے پاس ہی درج رہیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میاں نوازشریف سیاسی پارٹی سیاست میں انھوں نے رہے ہیں کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔

اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔

یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔

خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • تعلیم یافتہ نوجوان ملک و قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے: شہباز شریف
  • امریکہ نے مستقبل قریب میں وینزویلا پر حملے کی تردید کردی
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے