data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد :وفاقی حکومت نے بیوروکریسی کی ساخت میں بڑی تبدیلیوں پر غور شروع کر دیا ہے تاکہ ریاستی اداروں پر بڑھتے ہوئے مالی اور انسانی وسائل کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیاہ ے کہ اس مقصد کے لیے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف وفاقی اداروں کی تعداد گھٹانے بلکہ سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی لانے کا بھی منصوبہ زیر غور ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت کئی ایسے وفاقی اداروں کو ختم کرنے یا ایک دوسرے میں ضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی افادیت اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد کم ہو چکی ہے کیونکہ متعدد اختیارات اور ذمہ داریاں اب صوبوں کو منتقل ہو چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے مجوزہ اقدامات کے تحت سرکاری ملازمین کے لیے اثاثے ظاہر کرنا بھی لازمی قرار دیا جا سکتا ہے، تاکہ شفافیت کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سرپلس ملازمین کو محض بے روزگار نہیں کرے گی بلکہ ان کی ملازمت سے علیحدگی کے لیے پرکشش مالیاتی پیکیجز، یعنی گولڈن ہینڈ شیک کی پیشکش کی جائے گی۔

سیکرٹری کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم کردہ رائٹ سائزنگ کمیٹی ان تمام اداروں کی نشاندہی کر رہی ہے جو غیر ضروری یا متروک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ عمل مکمل طور پر کسی سیاسی مقصد یا عوامی ردعمل سے بالاتر ہو کر ریاستی مشینری کی اصلاح کے لیے کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے سرکاری دفاتر میں کئی اسامیوں کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ ماضی میں ایک افسر کے ساتھ 6 ماتحت کام کرتے تھے، لیکن اب جدید نظام اور ڈیجیٹل ورک فلو کے تحت یہ تعداد دو تک محدود کی جا سکتی ہے۔

مزید برآں حکومت کا منصوبہ ہے کہ گریڈ ایک سے 5 تک کی ملازمتیں آؤٹ سورس کر دی جائیں، جس سے مستقل ملازمین کے بھاری بھرکم پینشن بل میں خاطر خواہ کمی متوقع ہے۔ یہ اقدام حکومت کے طویل المدتی مالیاتی استحکام کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ آنے والے سالوں میں خزانے پر بوجھ کم کیا جا سکے۔

سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ یہ کوئی ملازمین کو گھر بھیجنے کا منصوبہ نہیں، بلکہ ریاستی نظام کو مزید مؤثر، جدید اور مالی طور پر پائیدار بنانے کی ایک کوشش ہے۔ سرکاری شعبے کو اب روایتی سوچ کے بجائے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، آٹومیشن اور اسمارٹ مینجمنٹ کے اصولوں پر استوار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حکومتی اقدام اگر درست طریقے سے نافذ ہوا تو یہ پاکستان کے سرکاری ڈھانچے میں دہائیوں بعد ایک بڑی اصلاح کے طور پر سامنے آئے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

چھٹیوں کا بوجھ: ضرورت سے زیادہ سرکاری تعطیلات اور معیشت

پاکستان ایک بھرپور ثقافتی ورثہ اور متنوع مذہبی روایات کا حامل ملک ہے، سال بھر میں خاصی تعداد میں عام تعطیلات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

اگرچہ یہ تعطیلات ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں، لیکن ان کی بڑی تعداد معیشت پر بوجھ بن گئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی ضرورت سے زیادہ سرکاری تعطیلات اس کی معاشی ترقی اور پیداواری صلاحیت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

معاشی اثرات

پاکستان میں اکثر عام تعطیلات کے نتیجے میں پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ نقصان ہوتا ہے۔ ایک سال میں تقریباً 20-25 عام تعطیلات کے ساتھ، کاروبار، صنعتیں اور خدمات متاثر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اقتصادی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔

بدلے میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار اور کاروبار اکثر پاکستان کے غیر متوقع کام کے شیڈول کو ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں۔

صنعتیں جیسے مینوفیکچرنگ، آئی ٹی، اور سیاحت خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ وہ مستقل اور موثر آپریشنز پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔

 ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ:

ترقی یافتہ ممالک جیسے ریاست ہائے متحدہ، برطانیہ اور جاپان میں عام طور پر 10 سے 15 دن تک ہر سال عام تعطیلات نمایاں طور پر کم ہوتی ہیں۔

ان ممالک نے پیداواری صلاحیت اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے لیے لچک دار کام کے اوقات اور دور دراز کے کام کے اختیارات نافذ کیے ہیں۔

مثال کے طور پر جاپان، جو اپنے سخت کام کے کلچر کے لیے جانا جاتا ہے، نے کام کی زندگی کے توازن کو بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے لچک دار کام کے اوقات اور ٹیلی کام کے اختیارات متعارف کرائے ہیں۔

اسی طرح جنوبی کوریا نے اقتصادی مسابقت کو بڑھانے کے لیے کام کے متعدد لچک دار انتظامات کو نافذ کیا ہے۔

زیادہ چھٹیوں کی وجوہات

پاکستان میں تعطیلات کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت مسلمہ ہے۔  بہت سی تعطیلات مذہبی اور ثقافتی تقریبات سے جڑی ہوتی ہیں، جو قوم کی شناخت میں گہرا جڑی ہوتی ہیں۔

تاہم حکومت اور سیاسی عوامل کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی عدم استحکام اور مختلف مفاد پرست گروہوں کو خوش کرنے کی خواہش نے عوامی تعطیلات کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مزید برآں، سماجی دباؤ اور مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسوخ نے بھی ملک کے چھٹیوں کے کیلنڈر کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے۔

 ممکنہ حل:

ضرورت سے زیادہ سرکاری تعطیلات کے معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے، پاکستان کئی ممکنہ حل پر غور کر سکتا ہے۔  تعطیلات کو ان کی تعداد یا حیران کن تاریخوں کو کم کرکے معقول بنانے سے کاروباروں اور صنعتوں میں رکاوٹوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لچک دار کام کے اوقات یا ریموٹ کام کے اختیارات کو لاگو کرنے سے پیداواری صلاحیت اور کام کی زندگی کے توازن میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

نجی شعبے کے زیرقیادت حل کی حوصلہ افزائی کرنا، جیسے کہ کمپنی کی مخصوص تعطیلات، کاروبار کے لیے مزید لچک فراہم کر سکتی ہیں۔

پیداواری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے حکومتی اقدامات، جیسے کہ بنیادی ڈھانچے اور انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری، عوامی تعطیلات کے منفی اثرات کو دور کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہے

کچھ مزید اعداد و شمار:

قارین اکرام ! پاکستان میں تقریباً 20-25 عام تعطیلات ہیں، ( اگر چارون صوبائی حکومتوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر مین دی جانے والی چھٹیوں کو ملایا جائے تو یہ شاید 45 تک جا پہنچتی ہیں) یہ پاگل پن ہے۔

جبکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ تعداد 10-15 ہے- ایک مطالعہ کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان عوامی تعطیلات کی وجہ سے اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 2-3 فیصد کھو دیتا ہے۔

جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک نے پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے لچک دار کام کے اوقات اور دور دراز کے کام کے اختیارات نافذ کیے ہیں۔

اپنے عام تعطیلات کے نظام میں اصلاحات کرکے، پاکستان اقتصادی ترقی، پیداواری صلاحیت اور مسابقت کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان کی ضرورت سے زیادہ عام تعطیلات واقعی اس کی معیشت پر ایک بوجھ ہیں۔  پیداواری صلاحیت میں کمی، کاروبار میں خلل، اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت پر اثرات اہم خدشات ہیں۔

تعطیلات کو معقول بنا کر، کام کے لچک دار انتظامات کو نافذ کرنے، اور نجی شعبے کی قیادت میں حل کو فروغ دے کر، پاکستان اپنی اقتصادی ترقی اور پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔

پالیسی سازوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ ملک کے تعطیلات کے کیلنڈر کا از سر نو جائزہ لیں اور ایسی اصلاحات کو نافذ کریں جو ثقافتی اور سماجی ضروریات کو معاشی حقائق کے ساتھ متوازن رکھیں۔

ایسا کرنے سے پاکستان اپنی پوری صلاحیت کو کھول سکتا ہے اور پائیدار اقتصادی ترقی اور ترقی حاصل کر سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے سول سرونٹس ترمیمی بل 2024ء کی منظوری دیدی
  • ملازمین کا بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت کی سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کی تجویز 
  • چھٹیوں کا بوجھ: ضرورت سے زیادہ سرکاری تعطیلات اور معیشت
  • صدرِ مملکت نے "ورچوئل اثاثہ جات ایکٹ 2025" کی منظوری دیدی
  • وفاقی حکومت کا چینی کی درآمد ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا. آڈیٹر جنرل
  • امریکا میں لاکھوں افراد کی نوکریاں خطرے میں، ٹرمپ انتظامیہ کو چھانٹی کی اجازت مل گئی
  • یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش کا فیصلہ
  • حکومت کا پرانے پنکھوں کو کم بجلی والے پنکھوں سے تبدیل کرنے کا فیصلہ