میرا مہینہ
رمل اقبال (شکارپور سندھ)
سال کا کیلنڈر بدلتے دیر ہی نہیں لگتی۔ کبھی ہندسے تو کبھی زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ وقت کی تیز رفتار میں ہم ایسے محو ہوئے کہ کبھی وقت ہی نہ ملا یہ سوچ سکیں کہ اس دوڑتے وقت میں کونسا دن، کونسا مہینہ ہمارا ہے۔ زندگی تسلسل سے چل کر رکنے والے ایک ایسے سلسلے کا نام ہے جو چلتا رہا تو آباد رہا، تھم گیا تو سب گیا۔ اس رنگین کائنات میں کبھی کسی کو سب رنگ نہ مل سکے۔ زندگی کی اس تصویر پر جب بھی غوروفکر ہوئی، کسی نہ کسی رنگ کی کمی ضرور باقی تھی۔
وہ جنوری کی تئیسویں شب گرم کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے سوچوں میں گم تھی کہ یک لخت اس کی نظر دیوار پر لگے کیلینڈر پر گئی۔ جیسے ہی اس کا دھیان جنوری 2025 کی 24 تاریخ پر گیا۔ اسے یاد آیا کہ کل اس کی سال گرہ ہے۔ اس دنیا میں اس کا ایک اور سال بڑھ جائے گا۔ ہر سال اس کی سال گرہ منائی جاتی تھی، مگر آج اس کی نگاہ پہلی بار اپنی جنم دن کی تاریخ پر پڑی تھی، جس کے بعد گزرے برسوں کے بہت سے نقوش اس کے ذہن میں امڈ آئے تھے۔ وہ چند لمحے وہیں رکی، پھر مگ وہیں میز پر رکھ کر سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔
وہ آج پہلی بار خود کے لیے ایک تحریر لکھنا چاہ رہی تھی، جس کا عنوان اس نے منتخب کیا ’’میرا مہینہ۔‘‘
اس نے تحریر کی ابتدا ان دکھوں سے کی جو اس پر گزرے تھے۔
وہ اپنی تحریر میں کبھی زندگی کو تو کبھی خود کو مخاطب کرتے ہوئے، کبھی گزرے ایام کو یاد کر کے لکھتی گئی۔۔۔’’کتنے سال بیت گئے اے حیات! کتنی باقی ہے نہیں معلوم۔ کتنے سپنے تھے جو ٹوٹ گئے، کتنی دعائیں تھی جو ادھوری رہیں، کیسے کیسے ہاتھ چھوٹ گئے۔ کتنے خیال قرطاس اور کتنے ہی رنگین خواب تھے جو تعبیر نہ پاسکے۔ قسمت کا لکھا کون بدل سکا ہے۔ کچھ کانٹوں نے میرے پھولوں بھرے گلستاں کو خارستان بنا ڈالا۔ کچھ سیاہ دھبوں نے، میرا سفید آنچل داغ دار کردیا۔ کچھ ظالم بھیڑیوں نے مجھ سے میری معصومیت چھین لی، کسی شکاری نے میرا گھونسلا اجاڑ دیا۔ میں دیکھتی رہی جیتی رہی۔ ان گزرے برسوں میں کتنے ہی روپ زندگی کے دیکھے۔ کیسا کیسا کھیل کبھی سپنوں نے میرے ساتھ کھیلا تو کبھی اپنوں نے۔
کم عمری میں ملے کچھ ایسے زخم ہیں، جن کا مرہم فلک سے اتارا جائے تو وہ بھر جائیں گے، ورنہ کبھی نہیں بھرسکیں گے۔ میں نے خود میں بہت سی لڑکیاں دیکھیں۔ کبھی وہ لڑکی جو ریل کی پٹڑی کے عشق میں مبتلا تھی شاید کسی نہ آنے والے مسافر کے لیے۔
تو کبھی انتظار سے تھک کر گھر کی ساری گھڑیاں اٹھا کر توڑ دینے والی لڑکی۔
کبھی وہ لڑکی جو خزاں کے بکھرے پتوں کو اپنی مٹھیوں میں پیار سے بھر کر، پاس درخت میں دفن کردیتی۔ تو کبھی وہ لڑکی جو اتنی سنگ دل ہوجاتی کہ ان ہی پتوں کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جاتی۔ میں نے اپنی ذات میں موجود مختلف روحوں کو محسوس کیا جو بہت خاص تھیں مگر تذبذب کا شکار۔‘‘
سادہ سادہ لفظوں میں وہ تحریر لکھتی جا رہی تھی کہ کچھ پل کے لیے اس نے قلم روک دیا اور صفحہ پلٹ دیا۔
اس صفحے پر اس نے گزری حیات کے چند نشاط کے لمحے لکھے، وہ لکھتی ہے،’’پچھلے صفحے پر زندگی کا وہ رخ تھا جو بھیانک ٹھہرا۔ یہ دوسرا رخ ہے جہاں مجھ پر قسمت مہرباں رہی، وہ میرے والدین کا سایہ ہے۔ میرے قریبی گنتی کے چند لوگ ہیں، جن کی محبت میرے جیون کا اثاثہ ہے۔ کچھ کام یابیاں ہیں اور بس۔ ان گزرے سالوں میں کبھی میں نے غور ہی نہ کیا کہ میرا مہینہ کون سا ہے؟ آج مجھے احساس ہوا ہے ’’جنوری‘‘ یہ نئے سال کے پہلے مہینے کے ساتھ ’میرا مہینہ‘ بھی ہے، جس میں میری روح کو اس دھرتی پر اتارا گیا۔ مجھے محبت سے گوندھ کر مجھ میں معصومیت اتاری گئی۔ اس مہینے کی ہر ٹھنڈی رات میں سحر ہے، ایک رمز ہے۔ جنوری میرا مہینہ ہے۔
یہ مہینہ ہمیشہ خاموشی سے گزرتا گیا، مگر آج اس نے مجھے اپنے جانب کھینچ کر اپنے ہونے کا احساس دلایا کہ یہ میرا مہینہ ہے۔ جنوری میرا مہینہ ہے۔ میں آج گزرے وقت کو محسوس کرسکی، میں آج اپنی ذات میں جھانک کر اپنے لیے کچھ لکھ سکی۔ مجھے آج اپنے ہونے کا احساس ہوا۔ مجھے اپنے جنوری کو ہر حال میں جینا ہے، چاہے زندگی کی رنگین تصویر میں مجھے سب رنگ ملیں نہ ملیں، مجھے مجھ سے ملنا ہے، ہر سال، ہر جنوری کیوں کہ جس رب نے مجھے اس خوب صورت مہینے میں اتارا، وہ رب میری زندگی کے آنے والے ہر لمحے کو خوب صورت بنادینے پر قادر ہے۔
آخری سطر میرے نام
اے جنوری مجھے تم مبارک
اور تمہیں میں مبارک
مجھے میری سالگرہ مبارک‘‘
تحریر ختم ہوتے ہی وہ ڈائری اٹھا کر بیڈ پر چلی گئی، کب نیند نے اسے اپنی گرم آغوش میں لیا پتا نہ چلا۔
۔۔۔
عروس البلادکراچی کا 30 واںعالمی مشاعرہ2025ء
ریحان محمود خان
E.
mail:[email protected]
ساکنان شہرقائد کا پہلا ’’عالمی مشاعرہ‘‘ 1989ء میں منعقد ہوا، جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ محمود احمد خان رات دن ایک کرکے مشاعرہ کام یاب بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں جس کی بدولت 4؍جنوری 2025ء کو بوقت 9:00 بجے شب بہ مقام ایکسپو سینٹر، گلشن اقبال، کراچی میں ساکنان شہرقائد کے تحت30 واں کام یاب عالمی مشاعرہ منعقد ہوا۔
ڈاکٹر پروفیسر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے عالمی مشاعرے کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی کے شہریوں کے جوش و خروش دیکھ کر پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس طرح شہر کی مشہورومعروف ادبی و سماجی شخصیات اور تاجر برادری آگے بڑھ کر کام کررہی ہے، چند دن کے نوٹس پر بڑی تعداد میں اجلاسوں میں شرکت کرنا، ہر طرح سے اپنے تعاون کا یقین دلانا ثابت کررہا ہے کہ یہ ایک کام یا ب مشاعرہ ہوگا، ایسا ہی ہوا۔
پھر رات کی جگمگاتی، رونقوں اور دل کشی نے دیکھا کہ جیسے وقت دبے پاؤں گزررہا تھا، پنڈال آہستہ آہستہ، خراماں خراماں فیملیوں سے بھرتا رہا اور ایک وقت ایسا آیا کہ تِل دَھرنے کی جگہ نہ رہی۔ جیسے ہی گھڑیوں نے رات کے 12:00 بجنے کا اعلان کیا، شہریوں کا جوش خروش دیدنی تھا، سب نے ایک ساتھ کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھوں میں پاکستان کی جھنڈیاں ہلا ہلاکر قومی ترانہ پڑھا۔ اس سے شہریوں کی وطن پاک پاکستان سے یک جہتی، محبت اور اخوت کا جو لازوال اور خوب صورت سماں پیدا ہوا، اُس سے پاکستان کا عالمی سطح پر مثبت امیج ابھرا۔ مشاعرہ رات 4:30 بجے تک جاری رہا۔
اس عالمی مشاعرے میں بیرون ملک سے شعراء حضرات میں وجے تیواری (بھارت)، عقیل دانش (لندن)، شاہدہ حسن (ٹورنٹو)، حمیرا رحمٰن (نیویارک)، تسنیم عابدی (امریکا)، سمن شاہ (پیرس)، اندرون ملک سے افتخارعاف، محبوب ظفر، عمران عامی، شکیل جاذب (اسلام آباد)، واجد امیر، زاہد فخری، عباس تابش، شعیب بن عزیز، حمیدہ شاہین (لاہور)، ناصر علی سید (پشاور)، محسن شکیل (کوئٹہ)، امر پیرزادو (لاڑکانہ)، ظہیر ظرف (لسبیلہ)، مبشر سعید (ملتان)، کراچی سے پروفیسر سحرانصاری (صدر مشاعرہ)، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، انورشعور، صابر ظفر، فراست رضوی، عقیل عباس جعفری،جاوید صباء، اختر سعیدی، ڈاکٹراقبال پیرزادہ، فاضل جمیلی، خالدمعین، ناصرہ زبیری، اقبال خاور، ڈاکٹر رخسانہ صباء، کاشف حسین غائر، نعیم سمیر، عبدالرحمٰن مومن اور نینا عادل شامل ہیں۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عنبرین حسین عنبر اور وجیہ ثانی نے انجام دیے۔
معروف بھارتی شاعر وجے تیواری جو خصوصی طور پر عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ اِس عالمی مشاعرے میں شرکت میرے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔ مشاعرے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت بتارہی ہے کہ کراچی کے شہری ادب نواز ہیں اور شاعری کو کتنا پسند کرتے ہیں۔ شاعری کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے آسانی ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں جس سے محبت بڑھتی ہے۔ کراچی میں مجھے جتنی اپنائیت ملی اُسے میں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکتا۔ میں انڈیا واپس جاکر آپ لوگوں کا پیغام محبت پہنچاؤںگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا اور پاکستان میں ادبی و ثقافتی لحاظ سے وفود کے تبادلے ہونے چاہییں۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام میں دُوری ختم ہونے میں مدد ملے گی اور خطے میں اَمن کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے اپنی شاعری شروع کرنے سے پہلے آتے ہی زوردار آواز میں سلام کیا، شائقین حیران ہوئے، انہوں نے دُوبارہ سلام کیا اور پنڈال میں موجود سب نے مل کر جواب دیا، جس نے شاعرانہ ماحول میں مزید دُوستانہ خوشبوئیں پھیلا دیں۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے پنڈال میں موجود شعر پڑھنے کے شوقین حضرات سے گاہے گاہے شاعری سنی گئی، کسی نے مزاحیہ کسی نے سنجیدہ اور کسی نے غم زدہ شاعری سنا کر اپنے دل کا حال سنایا، جس سے لوگ کافی محظوظ ہوئے اور تالی بجا کر حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
ساکنان شہرقائد عالمی مشاعرہ کے محمود احمد خان سرپرائز دینے میں کوئی مثال نہیں رکھتے۔ انہوں نے عالمی مشاعرے کے مداحوں کو وجے تیواری کو مدعو کرکے زبردست سرپرائز دیا۔ مشاعرہ شروع ہونے کے بعد تک کسی کو بھی نہیں معلوم تھا کہ بھارت سے بھی کوئی شاعر تشریف لارہے ہیں یا نہیں، اِس موقع پر محمود احمد خان نے کہا کہ بلاشبہہ ساکنان شہرقائد کا یہ 30واں کام یاب عالمی مشاعرہ 2025ء سب سے زیادہ مقبول اور آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا مشاعرہ تھا۔
یہ کام یابی حکومت سندھ، گورنر سندھ، الیکٹرانک میڈیا، ضلعی انتظامیہ اور سیکیوریٹی کے اداروں کے تعاون کے بغیر ناممکن تھی۔ میں اُن سب کا شکر گزار ہوں اور شائقین کا تہہ دل سے ممنون ہوں کے انہوں نے میری آواز پر لبیک کہا او رعالمی مشاعرے کو کام یاب بنایا۔
یہاں یہ بھی بتادیں کہ ساکنان شہرقائد کے اِدارے کی ایک شاخ ’’سخنورانِ نوجوانِ ادب‘‘ قائم کردی گئی ہے، جونیا ٹیلنٹ سامنے لارہی ہے اور سنیئر شاعر ججز اور اساتذہ اسٹیج پر بیٹھ کر نوجوان شعراء کی حوصلہ افزائی کرکے اُن کو شاعری کے رموز سے آشنا اور غلطیوں کی نشان دہی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اب یہ اُردو کا ایک متحرک ادارہ بن چکا ہے۔ مشاعرے میں خالدمقبول صدیقی، سینیٹر نسرین جلیل، امین الحق، وقار مہدی، واثق نعیم، سینیٹرنہال ہاشمی، ڈاکٹر فوزیہ حمید، حسن امام صدیقی، ڈاکٹر اوجِ کمال، سید تراب شاہ، مظہر ہانی، فاروق عرشی، وصی قریشی، اطہر جاوید صوفی، ریحان محمود خان، احمد حسن ، عبدالباسط، ندیم ظفر، جمال اظہر، منصور ساحر، صائمہ علوی، فیاض حیدر رضوی، سید عبدالباسط و دیگر علمی و ادبی شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ساکنان شہرقائد عالمی مشاعرے عالمی مشاعرہ میرا مہینہ انہوں نے میں شرکت کر اپنے تو کبھی کام یاب کے لیے مجھے ا
پڑھیں:
مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل
بالی ووڈ کی معروف اداکارہ نصرت بھروچا نے مذہب اور لباس پر ہونے والی تنقید پر اپنا ردِعمل دے دیا۔
نصرت بھروچا نے اپنی نئی فلم’چھوری 2‘ کی تشہیر کے دوران مندروں میں جانے اور لباس پر ہونے والی تنقید کے بارے میں بات کی۔
اُنہوں نے بتایا کہ میرے لیے میرا ایمان حقیقی ہے باقی زندگی میں غیر حقیقی چیزیں بھی ہوتی ہیں اور یہی چیز میرے یقین کو مضبوط کرتی ہے۔
بھارتی اداکارہ نے بتایا کہ اس لیے میں اب بھی اپنے مذہب سے جڑی ہوئی ہوں، اب بھی مضبوط ہوں اور میں جانتی ہوں کہ مجھے کس راستے پر چلنا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جہاں بھی انسان کو سکون ملے چاہے وہ مندر ہو، گوردوارہ ہو یا گرجا گھر اسے وہاں جانا چاہیے اور میں سرِ عام یہ بات کہتی ہوں کہ میں نماز پڑھتی ہوں، وقت ملے تو 5 وقت کی نماز پڑھتی ہوں، دورانِ سفر بھی اپنی جائے نماز ساتھ رکھتی ہوں۔
نصرت بھروچا نے کہا کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں مجھے ایک جیسا سکون ملتا ہے کیونکہ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ خدا ایک ہے مگر اس سے رابطہ کرنے کے لیے مختلف راستے ہیں اور میں ان تمام راستوں کو تلاش کرنا چاہتی ہوں۔
اُنہوں نے بتایا کہ صرف مختلف عبادت گاہوں میں جانے پر ہی نہیں بلکہ میرے لباس پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔
بھارتی اداکارہ نے بتایا کہ جب بھی میں سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر کرتی ہوں تو ناقدین کی جانب سے کچھ اس قسم کے سوال اُٹھائے جاتے ہیں کہ ’اس کے کپڑے دیکھو، یہ کس طرح کی مسلمان ہے؟‘
اُنہوں نے مزید کہا کہ ناقدین کی تنقید مجھے تبدیل نہیں کرسکتی اور نا ہی مجھے مندر جانے یا نماز پڑھنے سے روک سکتی ہے، میں تنقید کے باوجود بھی یہ دونوں کام کرتی رہوں گی کیونکہ یہ میرا ایمان ہے۔
نصرت بھروچا نے یہ بھی کہا کہ جب انسان کے اپنے خیالات، روح اور دماغ صاف ہوں تو دنیا میں کوئی بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
Post Views: 1