غزہ کے شدید زخمی بچوں کو علاج کے لیے پاکستان منتقل کیا جائے گا، ڈاکٹر یوسف
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا شدید زخمی بچوں کو عنقریب پاکستان میں علاج کے لیے منتقل کیا جائے گا تاکہ ان کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
اس مقصد کے لیے برطانوی ڈاکٹرز پر مشتمل تنظیم ’ڈاکٹرز آف رحمان‘ حکومت پاکستان اور چند دیگر فلاحی اداروں کی مدد سے اس کو ممکن بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
برمنگھم میں ایک تقریب کے دوران ’جنگ نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے روح رواں ڈاکٹر یوسف الدین شیخ نے بتایا کہ مزید 150 فلسطینی طلباء کو غزہ سے پاکستان بھیجنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں، جس سے پاکستان میں زیر تعلیم فلسطینی طلباء کی تعداد 325 ہوجائے گی۔
ڈاکٹر یوسف الدین شیخ کا کہنا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کی مدد سے تقریباً 100 شدید زخمی بچوں کو علاج کے لیے غزہ سے پاکستان منتقل کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر ان بچوں کو پاکستان منتقل کیا جائے گا جنہیں فوری زندگی بچانے والی یا اعضا کی بحالی کی سرجری کی ضرورت ہے کیونکہ غزہ میں ان کے علاج کے لیے کوئی سہولت باقی نہیں رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان بچوں کو غزہ سے رفح کراسنگ کے ذریعے مصر اور پھر پاکستان لے جائیں گے، ابتدائی طور پر اگلے چند ہفتوں میں 10 سے 15 بچوں کو پاکستان بھیجا جائے گا، اس مقصد کے لیے انتظامات آخری مراحل میں ہیں۔
یہ منصوبہ جسے ’جی ہوپ‘ (غزہ ہیلتھ آؤٹ ریچ پروگرام فار ایجوکیشن) کہا جاتا ہے، اس وقت سامنے آیا جب ڈاکٹر یوسف الدین شیخ نے پچھلے رمضان کے دوران غزہ میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔
انہوں نے جنگ نیوز کو بتایا کہ جب وہ پچھلے رمضان میں غزہ میں رضاکارانہ خدمات سر انجام دے رہے تھے ان دنوں تقریباً تمام یونیورسٹیوں پر روزانہ بمباری ہوتی تھی اور زیادہ تر میڈیکل طلباء بے گھر ہوچکے تھے، طبی خدمات فراہم کرنے والا تمام انفراسٹرکچر ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
کچھ مہینے قبل ’ڈاکٹرز آف رحمان‘ کے وفد نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کی مدد سے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار سے لندن میں ملاقات کی، جس کے بعد سیکڑوں فلسطینی طلباء کی زندگیوں کو بدلنے اور میڈیکل انفراسٹرکچر کی بحالی کی امید جگائی۔
ڈاکٹر یوسف نے مزید بتایا کہ ان کی تنظیم نے اب تک 45 طلباء کو جنوبی افریقہ، 30 کو ترکی اور 10 کو ناروے بھیجنے کے انتظامات کیے ہیں لیکن پاکستان نے سب سے زیادہ طلباء کو قبول کیا ہے۔
اس موقع پر برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے ’ڈاکٹرز آف رحمان‘ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی انسانیت دوست کوششیں بے مثال ہیں، خاص طور پر فلسطینی میڈیکل طلباء کو پاکستان میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنا امید کا پل بن گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے مزید کہا کہ تعلیم سب سے بڑی طاقت ہے، جو انسانوں کو مشکلات پر قابو پانے، زندگی بدلنے اور اپنی کمیونٹی کی خدمت کے قابل بناتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میں موجود طلباء سے دو ماہ قبل ملاقات بھی کی اور فلسطینی طلباء سے خطاب میں انہیں یقین دلایا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: فلسطینی طلباء پاکستان میں علاج کے لیے ڈاکٹر یوسف طلباء کو بچوں کو جائے گا
پڑھیں:
سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کے سینکڑوں ملازمین کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم
ملازمین نے اسپتال انتظامیہ کو انتباہ کیا ہے کہ اگر اگست میں تنخواہ نہیں ملی تو احتجاج کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کراچی کے 400 ملازمین 4 ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں، ملازمین نے اسپتال انتظامیہ کو انتباہ کیا ہے کہ اگر اگست میں تنخواہ نہیں ملی تو احتجاج کیا جائے گا۔ ملازمین کو تنخواہیں نہ ملنے کے حوالے سے اسپتال انتظامیہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ماہ ان ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کر دی جائے گی، کیونکہ اسپتال کو بجٹ ابھی پروسس میں ہے، توقع ہے کہ آئندہ ہفتے تک بجٹ اسپتال کو مل جائے گا، جس کہ بعد ملازمین کے بقایہ جات سمیت تنخواہوں کی کر دی جائیں گی۔ واضح رہے کہ اسپتال میں آئے دن احتجاج جاری رہتا ہے، 2013ء میں جاپان کی این جی او JICA کے اشتراک سے اسپتال میں نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی، جس کے بعد یہ اسپتال کراچی میں بچوں کے اسپتال کی منفرد حثیت رکھتا تھا، تاہم اس وقت چلڈرن کو محکمہ صحت کی جانب سے 10 کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا جاتا تھا اور اسپتال میں رات گئے تک علاج و معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی تھی۔
اکتوبر 2016ء میں محکمہ صحت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر اس اسپتال کو ایک این جی او کے تحت کر دیا، جس کے بعد اسپتال کا بجٹ میں اضافہ کر کے 44 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ محکمہ صحت کے مطابق سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال اکتوبر 2026ء تک این جی او کو 10 سال کے معاہدے پر دے رکھا ہے، اکتوبر 2026ء میں اس اسپتال کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے بعد اسپتال میں ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملازمین کی جانب سے 10 ہڑتالیں کی جا چکی ہیں اور کئی بار اسپتال بھی بند رہا ہے۔ اس اسپتال میں 2004ء سے 2025ء تک بچوں کی کوئی بڑی سرجری نہیں کی جا سکی، اسپتال میں بچوں کی صرف عام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، چلڈرن اسپتال میں 300 سے زائد کا عملہ این جی او کے ماتحت ہے، جبکہ ایم ایس سمیت 65 افراد کا عملہ محکمہ صحت کے ماتحت ہے۔ اسپتال آنے والی ایک خاتون رابعہ نے بتایا کہ پیچیدہ امراض میں مبتلا آنے والے بچوں کو NICH یا سول اسپتال بھیجا جاتا ہے اور اس اسپتال میں بچوں کے کسی بھی پیچیدہ امراض کی سرجری کی کوئی سہولت موجود نہیں۔