UrduPoint:
2025-04-26@01:25:26 GMT

امریکہ: واشنگٹن میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں ٹکر

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

امریکہ: واشنگٹن میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں ٹکر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے کے قریب امریکن ایئرلائنز کے طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں تصادم کے سبب پیش آنے والے واقعے کے بعد دریائے پوٹومیک سے 19 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

امریکہ کے وفاقی ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کا کہنا ہے کہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک امریکی ایئر لائن کی پرواز فضا میں ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد دریا میں گر گئی۔

دریائے پوٹومیک میں ڈوبنے والے اس طیارے کے ملبے میں مزید لاشوں کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔

معروف امریکی خلاباز ولیم اینڈرس طیارے کے حادثے میں ہلاک

حکام کے مطابق ٹکرانے کے بعد طیارہ واشنگن سے گزرنے والے معروف دریائے پوٹیمک میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس طیارے میں 60 مسافر اور عملے کے چار ارکان سوار تھے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں بھی تین امریکی فوجی سوار تھے۔

ایف اے اے نے سی بی ایس نیوز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ٹکر ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پررن وے 33 کے قریب مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجے کے آس پاس ہوئی۔

پوٹن نے مسافر طیارے کے حادثے پر آذربائیجانی صدر سے معافی مانگ لی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہیں اس "خوفناک حادثے" کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے۔ انہوں نے ہنگامی حالات سے نمٹنے والے افراد کے "ناقابل یقین کام" کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔

ہیلی کاپٹر کے مسافر بھی لاپتہ

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی فوج کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ ٹکرانے والا ہیلی کاپٹر بلیک ہاک ماڈل کا تھا، جس میں تین امریکی فوجی سوار تھے۔

نیوز ایجنسی اے پی کی اطلاع کے مطابق ہیلی کاپٹر ایک تربیتی پرواز پر تھا، تبھی مسافر طیارے سے ٹکرا گیا۔

ہیلی کاپٹر میں سوار تینوں فوجیوں کی حالت فی الحال نامعلوم ہے۔

امریکی فوجی طیارہ جاپان کے قریب سمندر میں گر کر تباہ

امریکن ائیرلائنز نے حادثے کے بارے میں کیا کہا؟

امریکن ایئر لائنز (اے اے) نے اس واقعے سے متعلق ایک بیان کہا کہ امریکن ایگل فلائٹ 5342 کنساس کے وچیتا سے واشنگٹن ڈی سی جا رہی تھی اور واشنگٹن کے رونالڈ ریگن نیشنل ہوائی اڈے پر حادثے کا شکار ہو گئی۔

ایئر لائن کے مطابق ریگن ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں 60 مسافر اور عملے کے چار ارکان سوار تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ "ہماری تشویش طیارے میں سوار مسافروں اور عملے کے لیے ہے۔"

بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن

اس واقعے کے فوری بعد واشنگٹن کے قریب ہوائی اڈے سے تمام ٹیک آف اور لینڈنگ کو روک دیا گیا ہے، کیونکہ ہنگامی خدمات کی تمام تر توجہ حادثے کی جگہ پر مرکوز ہے۔

کئی ہیلی کاپٹر، جن میں یو ایس پارک پولیس، ڈی سی میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ اور امریکی فوج شامل ہے، دریائے پوٹومیک میں واقع جائے وقوعہ پر پرواز کر رہے ہیں۔

ڈی سی فائر اینڈ ایمرجنسی میڈیکل سروسز (ای ایم ایس) نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی پوسٹ میں بتایا کہ فائر بوٹس بھی پوٹومیک کے کنارے موجود ہیں۔

جنوبی کوریا: مسافر طیارے کے حادثے میں 179 افراد ہلاک، سات روزہ قومی سوگ کا اعلان

ڈی سی پولیس ڈیپارٹمنٹ اور ڈی سی فائر ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ایک مشترکہ بیان میں لکھا گیا: "اس وقت ہلاکتوں کے بارے میں کوئی تصدیق شدہ معلومات نہیں ہے۔

"

امریکن ایئر لائنز کے سی ای او رابرٹ آئسوم نے ایک ویڈیو میں تصادم کے بارے میں اپنے "گہرے دکھ" کا اظہار کیا۔ اس ویڈیو پیغام کو ایئر لائن کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے۔

آذربائیجان کا مسافر طیارہ کریش ہونے سے 42 ہلاکتوں کا خدشہ

ان کا کہنا ہے کہ ایئر لائن مقامی، ریاستی اور وفاقی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی تحقیقات کے ساتھ "مکمل تعاون" کر رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا "ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہم کر رہے ہیں۔"

ص ز / ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہیلی کاپٹر میں مسافر طیارے کے بارے میں ایئر لائن کے مطابق طیارے کے سوار تھے کے قریب

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • واشنگٹن، یمن کیخلاف حملوں اور فوجی کارروائیاں بند کرنے پر غور کر رہا ہے، الجزیرہ
  • تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
  • تھائی لینڈ میں فوجی طیارہ گر کر تباہ؛ تمام افسران ہلاک
  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • فلپائن آبنائے تائیوان میں امن کو  سبوتاژ کرنے سے باز رہے، چینی میڈیا
  • یمن کیجانب سے ہمارے قیمتی اثاثوں پر حملے جاری ہیں، واشنگٹن کی دہائی
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • واشنگٹن: وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں