اب تک 75 پاکستانی روانڈا منتقل ہو چکے ہیں، ترجمان پاکستانی ہائی کمیشن
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کانگو میں تنازعات کے حالیہ اضافے کے بعد گوما شہر میں 150 کے قریب پاکستانی پھنسے ہوئے تھے، روانڈا نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دے دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگو میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے حوالے سے دفتر خارجہ نے اپنا پہلا ردعمل دے دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق کانگو میں تنازعات کے حالیہ اضافے کے بعد گوما شہر میں 150 کے قریب پاکستانی پھنسے ہوئے تھے، روانڈا نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دے دی ہے۔ ترجمان پاکستانی ہائی کمیشن کے مطابق اب تک 75 کے قریب پاکستانی روانڈا منتقل ہو چکے ہیں، کیگالی نے متاثرہ پاکستانیوں کے لیے رہائش اور کھانے کا انتظام کیا ہے۔ ہائی کمیشن پاکستانی کمیونٹی سے بھی رابطہ کر رہا ہے، آنے والے دنوں میں مزید پاکستانیوں کے روانڈا جانے کا امکان ہے، متاثرہ پاکستانی ہائی کمیشن سے واٹس ایپ نمبر +92 333 5328517 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہائی کمیشن پھنسے ہوئے
پڑھیں:
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر) اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیموں کے مستقبل کے حوالے سے وزارت تجارت ککو مشکل کا سامناہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی تشویش کے مطابق ان اسکیموں کا فائدہ پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیاں تجارتی طور پر درآمد کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔وزارتِ تجارت کے ذرائع کے مطابق موجودہ اسکیمیں، جن میں گفٹ اسکیم، پرسنل بیگیج اسکیم اور ٹرانسفر آف رہائیش اسکیم شامل ہیں، بعض اوقات پانچ سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر ٹریف پالیسی بورڈ (ٹی پی بی) اور بین الوزارتی فورمز میں بحث ہو چکی ہے، مگر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ فنانس ڈویڑن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رائے کا انتظار ہے۔ذرائع کے مطابق وزارتِ صنعت و پیداوار کا موقف ہے کہ چونکہ عام طور پر پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہے، اس لیے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ اسکیمیں وضع کی گئی ہیں تاکہ وہ مخصوص حالات میں استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان لا سکیں۔ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں ان اسکیموں کے تحت بڑی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں درآمد ہوئیں۔ وزارتِ کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ہٹانے کے بعد، صرف ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر اسکیمیں غیر شفاف طریقے سے استعمال کی جا رہی ہیں اور تجارتی درآمد کا متبادل بن گئی ہیں۔وزارتِ نے زور دیا کہ صارفین کے مفاد، عوامی تحفظ اور ماحولیاتی نقصان سے بچاؤ کے لیے درآمد شدہ گاڑیاں کم از کم حفاظتی، معیار اور ایگزاسٹ کے معیار پر پوری اتریں۔ اسی مقصد کے لیے موٹر وہیکلز انڈسٹری ڈویلپمنٹ ایکٹ 2025 کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جو مقامی اور درآمد شدہ گاڑیوں کے ضوابط کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔پاکستان نے 2021 میں 1958 کے یو این ای سی ای معاہدے پر دستخط کیے، اور ای ڈی پی کو ڈبلیو پی 29 سیکریٹریٹ کے طور پر مقرر کیا گیا، جس کے تحت 17 بنیادی حفاظتی ضوابط اپنائے گئے ہیں۔وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق یہ ضوابط تمام درآمد شدہ گاڑیوں پر بھی لاگو ہوں گے، تاہم اس وقت پاکستان میں گاڑیوں کے معیار کے لیے مناسب جانچ کی سہولت موجود نہیں۔ اس لیے تمام درآمد شدہ گاڑیوں کے لیے پری شپمنٹ انسپیکشن سرٹیفیکیشن ضروری ہوگا، جو جاپان آٹوموٹو ایپریزل انسٹی ٹیوٹ، جاپان ایکسپورٹ وہیکل انسپیکشن سینٹر، کورین ٹیسٹنگ لیبارٹری یا چائنا آٹوموٹو انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسی اداروں سے حاصل کیا جائے گا۔ یہ سرٹیفیکیٹ گاڑی کی حفاظت، معیار، ایگزاسٹ، اوڈومیٹر، اندرونی و بیرونی حالت، انجن اور ہوا کے بیگ جیسی تفصیلات کی تصدیق کرے گا۔ علاوہ ازیں صرف وہ کمپنیاں جنہیں موٹر وہیکلز کی تجارتی درآمد کا بنیادی کاروبار ہو، تجارتی بنیاد پر گاڑیاں درآمد کر سکیں گی۔