Express News:
2025-04-25@10:24:06 GMT

مسئلہ کشمیر کا حل

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

مسئلہ کشمیر نہ صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا ء کا مسئلہ ہے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے کیوں کہ ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ کہ پاکستان،افغانستان،چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔

اس کا رقبہ اٹھاسی ہزار نو سو مربع میل ہے۔ایک تہائی شمالی حصہ پاکستان کے اور دو تہائی حصہ بھارت کے زیر تسلط ہے۔

انیس سو سینتالیس اور اڑتالیس کے درمیان ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی ،مجاہدین نے آزادی کی جنگ شروع کردی، انیس سو انچاس میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرارداد کے ذریعے استصواب رائے کے لیے کہا۔

بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور ریفرنڈم کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔انیس سو پینسٹھ میں مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کی جنگ ہوئی سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی سازش کے نتیجے میں پاکستان و بھارت کی جنگ ہوئی جو کہ بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔

1972 میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتہ پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا۔انیس سو نواسی میں نام نہاد انتخابات کے بعد کشمیری حریت پسندوں کی سر گرمیاں شروع ہوئیں۔

انیس سو چھیانوے کے انتخابات کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔انیس سو ننانوے میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا لیکن کارگل کے واقعے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔سن دو ہزار میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔چوبیس جولائی سن دو ہزار کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔آٹھ اگست سن دو ہزار کو بھارتی رویے کے باعث اعلان واپس لے لیا۔

پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد بار مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوچکے ہیں جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئے۔بھارت نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے جب کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے اور مسئلہ کشمیر کو ہر مقام پر پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہ ہے لیکن بھارت ہر بار چالاکی و عیاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہا ہے تو دوسری طرف وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم بربریت کا بازار گرم کرتا رہا ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے۔کشمیر کے عوام غاصب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کیوں کر پیدا ہوا ہے؟اس سوال کے جواب سے پوری عالمی برادری اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے یعنی مسئلہ کشمیر اس کا بنیادی سبب ہے اور اس امر کا بھی انھیں اعتراف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی ذمے داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی کیوں کہ بھارت کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کے طور پر ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ 

تعجب خیز بات ہے یہ کہ بھارت ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے اور سو گنا دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہوا ہے اور کشمیریوں کو شہید کرنا،کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کرنا انھیں زیر حراست شہید کرنا،ان کی املاک کو نقصان پہنچانا،کشمیری نوجوانوں کو اغواء کرکے غائب کرنا ،جیسے حالات و واقعات میں مصروف بھارت کس منہ سے امن و آشتی کی بات کرتا ہے؟سچ یہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا دادا گیر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس امن پسندی کو کمزوری و بزدلی نہ تصور کیا جائے۔

کشمیر کے عوام بھارت کی دہشت گردی و بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے۔لہٰذا عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھا کر کشمیریوں کی اخلاقی مدد کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان و بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔

یہ حقیقت بھی ہم پر عیاں ہے کہ پاکستان کی بدخواہ کچھ عالمی قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے پر تلی نظر آتی ہیں تاکہ بھارت مزید طاقتور بنے اور اس طرح جنوبی ایشیا میں بھارت ان کے مفادات کی رکھوالی کرسکے اور انھیں مزید فروغ دے سکے۔

اس لیے پاکستان کو ہر حال میں اپنی ایٹمی قوت کی حفاظت کرنا ہے تاکہ پاکستان دشمن کے لیے تر نوالہ نہ بن سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی قوم ہر امتحان و آزمائش سے نبردآزما ہونے کے لیے کمر بستہ ہے۔بھارت برسوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان کے اندر بھی بھارتی پراکسی وار میں مصروف ہے اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے اور بھارت جیلوں میں قید کشمیری حریت پسندوں پر بھی تشدد کرکے ان کی جانیں لیں رہا ہے۔

اگر بھارت نے پاکستان پر کسی قسم کی ایٹمی جنگ یا روایتی جنگ مسلط کی تو پاکستان اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔پاکستانی قوم بیرونی قرضوں کے عوض اپنی آزادی،خود مختاری و سلامتی کو داؤ پر نہیں لگا سکتی اور یہ کہ نہ ہی کمزور پاکستان عالمی برادری کے لیے سود مند ہوگا۔مستحکم پاکستان ہی جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔

عالمی برادری، اقوام متحدہ پر زور دے کہ وہ اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرائے کہ کشمیری عوام کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے یا بھارت کے؟یہ بات ہمیشہ سے واضح ہے کہ قیام پاکستان کے دوران کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا اور دستخط کیے۔

لیکن بھارت نے اس دوران مقبوضہ جموں و کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر قابض ہوگئے اور آج تک بھارت قابض ہے اور اس قبضہ گیری کو برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے عوام کو اپنی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور آفرین ہے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو لاکھوں جانیں دے کر بھی اپنے فیصلے پر اٹل ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ تھے،ہیں اور رہیں گے، لیکن بھارت کو قبول نہیں کرتے۔اس لیے ہر کشمیری کی زبان پر ہے کہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان۔‘‘

کشمیریوں کا یہی نعرہ قابض بھارت کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے اور وہ پریشان ہے کہ کس طرح اس نعرے کو بھارت کے حق میں تبدیل کیا جائے جس کے لیے وہ ہر حربہ کشمیریوں پر آزماتا رہا ہے تاکہ کشمیری زیر ہوسکیں، لیکن کشمیریوں کی ایمان افروز قربانیاں لازوال ہیں۔ خطے میں وہ ایسی تاریخ رقم کررہے ہیں جو انمٹ ہے اور تاقیامت یاد رکھنے والی ہے۔

کوئی صبح و شام ایسی نہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر ی کے عوام پر بھاری نہ گزری ہو ، ہرپل، ہر لمحہ بھارتی قابض فوجی نت نئے مظالم کے طریقے کشمیری عوام پرآزماتے ہیں جس سے انسانیت لرز اٹھتی ہے لیکن انسانی حقوق کے دعویدار عالمی ادارے اور ممالک آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں۔کیا ان کے نزدیک مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام انسان نہیں ہیں؟جب کہ وہ جانوروں کے حقوق پر بھی آوازیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ تو ان کا دہرا معیار دنیا پر واضح ہے لہٰذا وہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار نہ ظاہر کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کشمیر کے عوام عالمی برادری مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان ا بھارت نے بھارت کی کہ بھارت بھارت کے ا رہا ہے کرنے کا اور اس ہوا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) بھارت کی جانب سے آبی وسائل سے متعلق سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے، سرحدی راستہ بند کرنے، ویزوں کو منسوخ کرنے اور دفاعی اتاشیوں کو ملک بدر کرنے جیسے فیصلوں کے بعد پاکستان میں آج (جمعرات) کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے، جس میں فوجی حکام بھی شامل ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں منگل کے روز شدت پسندوں نے سیاحوں پر حملہ کیا تھا، جس میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

بدھ کی شام کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں کابینہ کی سلامتی کمیٹی (سی سی ایس ) کی ایک میٹنگ ہوئی، جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا۔

(جاری ہے)

بھارت نے پاکستانی حکومت کے سرکاری سوشل میڈیا ایکس کے اکاؤنٹ کو بھی ملک میں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا سرکاری ایکس ہینڈل اب بھارت میں دستیاب نہیں ہے۔

بھارت نے اس حملے سے متعلق اب تک کوئی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں، تاہم اس کے اقدامات سے واضح ہے کہ وہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کر رہا ہے۔ ادھر اسلام آباد نے اس حملے میں کسی بھی کردار کی تردید کی اور کہا ہے کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مبصرین کے مطابق اس واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

کشمیر حملے کا جواب ’واضح اور سخت‘ دیں گے، بھارتی وزیر دفاع

اس دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان، جموں کے ادھم پور علاقے میں تصادم کی اطلاعات ہیں، جس میں اب تک ایک بھارتی فوجی کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

ادھر نئی دہلی کی طرف سے اعلان کردہ متعدد اقدامات کے خلاف ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کے لیے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں جمعرات کی صبح قومی سلامتی کا اجلاس شروع ہوا۔

بھارت: حملے کے بعد سیاحوں کا کشمیر سے تیزی سے انخلا

پاکستان نے اس بارے میں کیا کہا؟

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ میں کہا، "وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس 24 اپریل 2025 کو طلب کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت کے بیانات کا جواب دیا جائے گا۔"

بدھ کے روز دیر رات گئے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات چیت میں اسحاق ڈار نے بھارت کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے اسے "نادانی" اور "جلد بازی" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے حملے سے متعلق "کوئی ثبوت نہیں دیا ہے۔ یہ ایک غیر سنجیدہ نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اس واقعے کے فوراً بعد ہی ہیجان پیدا کرنا شروع کر دیا۔ "

اس سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک الگ بیان میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

پہلگام 'دہشت گردانہ' حملے پر عالمی ردعمل

بھارت نے پاکستان کے خلاف کن اقدامات کا اعلان کیا ہے؟

اطلاعات ہیں کہ جمعرات کی صبح بھارتی حکام نے دہلی میں اسلام آباد کے سفارت کار اور ناظم الامور اعلیٰ سعد احمد وڑائچ کو طلب کیا اور انہیں پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود دفاعی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے سے متعلق اپنا فرمان سونپا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کی شام کو سکیورٹی سے متعلق کابینہ کمیٹی کی میٹنگ کی صدارت کی، جو تقریبا دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میٹنگ میں دیگر اہم وزرا کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے شرکت کی۔

اس کے بعد وزارت خارجہ نے میڈیا کے نمائندوں کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں اعلان کردہ متعدد اقدامات کے بارے میں بتایا۔

سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے صحافیوں سے کہا کہ حملے کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے پانچ اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا: "نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی/فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کے پاس بھارت چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ ہے۔ بھارت اسلام آباد میں اپنے ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی/بحری/فضائی مشیروں کو واپس بلا لے گا۔

ہائی کمیشن میں ان پوسٹوں کے لیے موجود پانچ معاون ملازمین کو بھی واپس بلا لیا جائے گا۔"

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک

انہوں نے سرحدی راستہ بند کرنے کے بارے میں کہا کہ اٹاری میں انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ مصری نے کہا، "جو لوگ دستاویزی توثیق کے ساتھ سرحدی راستے سے آئے تھے، وہ یکم مئی 2025 سے پہلے تک اس راستے سے واپس جا سکتے ہیں۔

"

میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بھارت سندھ آبی معاہدے کو اس وقت تک کے لیے "فوری طور پر معطل کر رہا ہے، جب تک پاکستان قابل اعتبار اور حتمی طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔"

وکرم مصری نے فیصلے کے مطابق پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت اب بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا، "ماضی میں اس اسکیم تحت پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے تمام ویزوں کو منسوخ کیا جا رہا ہے اور ایسے ویزوں کے تحت بھارت میں موجود کسی بھی پاکستانی کو واپس لوٹنے کے لیے 48 گھنٹوں کا وقت دیا جا رہا ہے۔"

بھارت کا کہنا ہے سفارت کاروں میں مزید کمی کے اس فیصلے کے بعد یکم مئی 2025 سے ہائی کمیشنوں کی عملے کی مجموعی تعداد موجودہ 55 سے کم ہو کر 30 ہو جائے گی۔

بھارت کے سکریٹری خارجہ نے بتایا کہ میٹنگ میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور تمام فورسز کو سخت چوکسی برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، "فیصلہ کیا گیا کہ حملے کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ان کی معاونین کا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔"

کشمیر: بھارت اور پاکستان کے مابین اقوام متحدہ میں پھر تکرار

سکیورٹی پر سوالات

بھارت کی مودی حکومت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے متنازعہ علاقے میں حالات بہتر ہونے، دہشت گردی کا قلعہ قمع کرنے اور کشمیریوں کو زندگی بہتر کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے۔

تاہم بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں اور سول سوسائٹی حکومت کے ان دعووں پر مسلسل سوال اٹھاتی رہی ہیں۔

حزب اختلاف کے رہنما راہول گاندھی سمیت متعدد حلقے اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آخر سکیورٹی میں اتنی بڑی لاپرواہی کی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔

راہول گاندھی نے پہلگام میں ہونے والے حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ "پہلگام حملہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی واضح ناکامی ہے۔"

اس حملے کا اصل ذمہ دار کون ہے اس بارے میں بھی ابھی تک کسی بھی جانب سے کوئی حتمی تصدیق نہیں کی گئی ہے، البتہ بھارتی سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے پہلگام حملے کے بعض مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے جاری کیے ہیں اور ان کا پتہ بتانے والوں کو انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

بھارت میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت تقریبا سبھی مسلم تنظیموں نے بھی پہلگام حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم انہوں نے سکیورٹی میں ناکامی کے لیے حکومت نکتہ چینی کی ہے۔

ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب حکومت کشمیر میں حالات بہتر ہونے کا دعوی کر رہی تو 13 لاکھ فوج اور دیگر نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود اس طرح کا حملہ کیسے ممکن ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیر: بھارت اور پاکستان میں کشیدگی اور ایل او سی پر فائرنگ
  • بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم اور جنگ کی تاریخ
  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، وزیراعظم آزاد کشمیر
  • بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • بھارت نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا: صدر آزاد کشمیر
  • مقبوضہ کشمیر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن
  • کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی
  • پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں
  • مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جس سے دو کروڑ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے