حکمراں سندھ کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ رہے ہیں،عوامی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) حکمرانوں نے سندھ کے وسائل کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا ہے۔ ایک طرف بحریہ ٹاؤن کو رشوت کے عوض ہزاروں ایکڑ زمین دی گئی، تو دوسری طرف کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے سندھ کی 13 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مختلف کمپنیوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دریائے سندھ سے 6 نئے کینال نکال کر سندھ کا پانی کمپنیوں کو فروخت کرنے کی سازش کی گئی ہے، تاکہ سندھ کے عوام سے ان کی زمین اور پانی چھینا جا سکے۔ حکمرانوں کا یہ عمل ملک کی سالمیت اور عوامی مفادات کے خلاف ہے۔ ان خیالات کا اظہار عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، مرکزی نائب صدر حورالنسا پلیجو اور مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ راحیل بھٹو نے اپنے مشترکہ بیان میں کیا ہے۔ عوامی تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ موجودہ سندھ کے حکمرانوں نے عوام سے روٹی، کپڑا، اور مکان دینے کے وعدے کیے، لیکن اس کے برعکس سندھ کے عوام سے روٹی، کپڑا، اور مکان چھین لیے گئے ہیں۔ محنت کش افراد اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے بھی قاصر ہیں۔ مہنگائی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، غریبوں کے لیے کپڑے خریدنا اور گھر بنانا ایک خواب بن چکا ہے۔ سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن، ذوالفقار آباد، اور کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی گئی ہے، لیکن آج تک کسی مقامی ہاری یا مزدور کو حکومت سندھ نے ایک ایکڑ زمین بھی نہیں دی۔ عوامی تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ جو حکمران عوامی مفادات میں فیصلے نہیں کرتے اور اپنے گروہی و ذاتی مفادات کو عوام اور ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، انہیں حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جو حکمران دریائے سندھ اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینوں کا سودا کریں گے، انہیں سندھ کے عوام کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عوامی تحریک ایکڑ زمین سندھ کے
پڑھیں:
سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-7
لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔