حکومت کا یوم کشمیر کی چھٹی کے موقع پر پاسپورٹ دفاتر کھلے رکھنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد: یوم کشمیر کی چھٹی کے موقع پر پاسپورٹ دفاتر شہریوں کی خدمات کے لیے کھلے رہیں گے۔ ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹس نے شہریوں کو24 گھنٹے پاسپورٹ سروسز فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت شہری کل عام تعطیل کے روز بھی پاسپورٹ بنوا سکیں گے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں پاسپورٹ دفاتر کی خدمات دستیاب ہوں گی، عوامی مرکز آفس کراچی میں بھی شہری پاسپورٹ بنوانے کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔
ڈی جی پاسپورٹ مصطفی جمال قاضی نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام شہریوں کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا ہے، عام تعطیل کے باوجود محکمہ پاسپورٹس عوامی سہولت کے لیے دن رات کوشاں ہے تاکہ شہری تینوں بڑے شہروں میں پاسپورٹ بنوانے کی سہولت حاصل کر سکیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
زائرین کی آواز۔۔۔۔کراچی سے ریمدان تک عوامی کاررواں
اسلام ٹائمز: بس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر کراچی سے ریمدان تک یہ احتجاجی سفر ایک تاریخی اقدام ہے، جو زائرین، قافلہ سالاروں، دینی اداروں اور عام عوام کے حقوق کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر یہ کاروان کامیاب ہوتا ہے (اور ان شاء اللہ ہوگا)، تو یہ ریاست کو یہ پیغام دے گا کہ دینی شعائر اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ تحریر: اسد عباس نقوی
(سیکرٹری سیاسیات ایم ڈبلیو ایم پاکستان)
پاکستان میں زائرینِ اہلبیتؑ کئی سالوں سے حکومتی عدم توجہی، انتظامی رکاوٹوں اور سفری دشواریوں کا شکار ہیں، خاص طور پر ان کیلئے جو ایران، عراق اور شام کے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے زمینی راستے اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہوائی سفر کا خرچہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور زمینی راستہ ہی ہزاروں متوسط اور نادار پاکستانیوں کی اُمید ہے۔ اسی تناظر میں چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کراچی سے ریمدان بارڈر تک بذریعہ سڑک عوامی کارروان لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ صرف ایک سفر نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے، ایک احتجاج ہے اور ایک بیداری کا پیغام ہے، جس کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
1۔ زائرین کے آئینی و مذہبی حقوق کا دفاع
مجلس وحدت مسلمین اور علامہ راجہ ناصر عباس کا یہ قدم زائرین کیلئے آئینی، مذہبی اور انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد ہے۔ ایک شہری کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادات کی ادائیگی کیلئے سفر کا حق حاصل ہے۔ زمینی راستے کی بندش اس حق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جسے یہ کاروان چیلنج کر رہا ہے۔
2۔ حکومت پر دباؤ اور قافلہ سالاروں کے نقصان کا ازالہ
یہ احتجاجی کاروان حکومت پر سنجیدہ عوامی دباؤ ڈالے گا کہ وہ زائرین اور قافلہ سالاروں کے مالی نقصانات کا ازالہ کرے، جنہوں نے لاکھوں روپے لگا کر قافلے تیار کیے، مگر سرحدی بندش کے باعث سخت مالی و جذباتی نقصان اٹھایا۔ یہ صرف زائرین کی نہیں بلکہ کاروباری اور دینی خدمتگار طبقے کی بھی جدوجہد ہے۔
3۔ تاریخی اثرات۔۔۔۔ حکومتیں سوچنے پر مجبور
یہ کارروان محض وقتی احتجاج نہیں، بلکہ ایسا تاریخی اقدام ہے، جس کے اثرات دہائیوں تک باقی رہیں گے۔ اگر یہ سفر مکمل ہوتا ہے تو آئندہ کوئی بھی حکومت زمینی راستے کو بند کرنے کی جرات نہیں کرسکے گی، کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ ملت جعفریہ خاموش نہیں بیٹھے گی۔
4۔ وحدت، اخوت اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام
یہ سفر صرف شیعہ زائرین کے حق کی بات نہیں کرتا، بلکہ پورے ملک میں مذہبی آزادی، وحدتِ امت اور ہم آہنگی کا پیغام دے گا۔ یہ کاررواں ہر مظلوم، محروم اور نظرانداز شدہ طبقے کی ترجمانی کرے گا۔
5۔ قومی معیشت اور سرحدی ترقی
زمینی راستے کی بحالی سے نہ صرف زائرین کو فائدہ ہوگا بلکہ بلوچستان کی سرحدی پٹی کو تجارتی سرگرمیوں اور علاقائی ترقی کا نیا موقع ملے گا۔ ایران و عراق سے تجارت بڑھے گی اور مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔
6۔ عوامی شرکت۔۔۔ خودداری کا مظاہرہ
یہ کاروان محض ایک تنظیم یا رہنماء کا نہیں بلکہ پوری ملت کا کاروان ہے۔ اس لیے عوام سے اپیل ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس قافلہ میں شامل ہوں۔ ہر شخص اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان، پانی، ضروریاتِ سفر کا بندوبست کرکے نکلے، کیونکہ یہ سفر فقط منزل کا نہیں بلکہ مقصد کا سفر ہے۔
بس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر کراچی سے ریمدان تک یہ احتجاجی سفر ایک تاریخی اقدام ہے، جو زائرین، قافلہ سالاروں، دینی اداروں اور عام عوام کے حقوق کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر یہ کاروان کامیاب ہوتا ہے (اور ان شاء اللہ ہوگا)، تو یہ ریاست کو یہ پیغام دے گا کہ دینی شعائر اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب متحد ہوں، قافلے کا حصہ بنیں اور ظالمانہ پالیسیوں کیخلاف عملی احتجاج کا حصہ بن کر اپنے حقوق کی حفاظت کریں۔