Express News:
2025-04-26@03:20:55 GMT

ایک خط کے مندرجات

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

بانی تحریک انصاف نے آرمی چیف کو خط لکھاہے۔ یہ کوئی پہلا خط نہیں ہے، اس سے پہلے وہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی ایک تفصیلی خط لکھ چکے ہیں۔ ویسے تو وہ جب سے جیل گئے ہیں خط و خطابت کا ایک کھیل جاری ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خط لکھا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی پہلا خط لکھا ہے۔ وہ خود کو سیاست میں بحال رکھنے کے لیے ٹوئٹس کے ساتھ خطوط کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ کیا ان کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ دیکھنے کی بات ہے۔

آئی ایم ایف کو خط کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ آئی ایم ایف نے ان کے خط کے باوجود پاکستان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا اور قرض کی قسط بھی جاری کیا۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔

اب کیا آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب آئے گا؟ مجھے نہیں لگتا۔ میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں۔ مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس کا کوئی جواب دیا جا سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ بانی تحریک انصاف کو بھی علم ہے کہ ان کے خط کا کوئی جواب نہیں آئے گا۔ انھوں نے بھی چند چیزیں ریکارڈ پر لانے کے لیے خط لکھا ہے۔ کیونکہ مجھے یہ جواب حاصل کرنے والا خط لگ ہی نہیں رہا۔

جہاں تک ہمیں علم ہے ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اس کے ذمے دار معافی نہیں مانگیں گے، بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔اس لیے رائے یہی ہے کہ محض خط لکھنے سے معاملات آگے نہیں بڑھیں گی بلکہ معافی کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں، مجھے اس میں معافی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا بلکہ مجھے تو کہیں سے بھی یہ مفاہمتی خط نہیں لگا۔ بلکہ اس خط سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے مجھے تو حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔

خط کا پہلا نقطہ عام انتخابات میں دھاندلی کا ہے۔ ویسے تواس خط کا کوئی جواب سامنے نہیں آئے گا کیونکہ ایسے خطوط کا جواب نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر ہم فرض کریں کہ جواب دیا جائے تو وہ کیا ہوگا؟ کیا اس خط کے جواب میں انتخابات میں دھاندلی کے موقف کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس تو یہی جواب ہوگا کہ یہ نہیں ہوگا کیونکہ عام انتخابات کا اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انتخابات نہیں کراتی ۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں اس خط سے اسٹیبلشمنٹ کو دھاندلی کا ذمے دار قراد دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دھاندلی ثابت کرنے کے لیے آئین میں پلیٹ فارم موجود ہیں۔ اس لیے پہلانقطہ حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ الزام تراشی ہے۔

دوسرا نقطہ 26ویں آئین ترمیم ہے۔ آئینی پوزیشن تو یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا پارلیمان کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ 26ویں آئینی ترمیم کیسے پاس کراسکتی ہے، یہ کام صرف پارلیمان کر سکتی ہے۔ کیا بانی تحریک انصاف اس خط سے فوج پر 26ویں آئینی ترمیم پاس کرانے اور اب ان کی خواہش پر اس کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ مجھے یہ کسی بھی طرح ممکن نظر نہیں آتا۔ خط کے اس نقطہ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نقطہ بھی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا ہی باعث ہے۔

خط میں تیسرا نقطہ پیکا قانون ہے۔ بانی تحریک انصاف اس کی ذمے داری بھی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ کیسے منطق ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ قانون بھی پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطہ بھی کوئی ٹھیک نہیں لگتا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے اصل نقطہ کو نظر انداز کر کے یہاں بھی بات چیت کے دروازے کھولنے کے بجائے بند ہی کیے گئے ہیں۔

چوتھا نقطہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کا ہے۔ اس میں بھی نو مئی کا ذکر گول کیا گیا ہے۔ نو مئی کے ملزمان فوج کا اصل نقطہ ہے۔ فوج تو اسے قوم کا مقدمہ کہتی ہے۔ نو مئی کے تمام ملزمان کو سزائیں دینے کا کئی بار مطالبہ کر چکی ہے۔ اسی طرح 26نومبر کے واقعہ کو بھی سیاسی دہشت گردی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کا موقف واضح ہے۔ اس میں وہ کیا کر سکتی ہے۔ آرمی چیف ان ملزمان کی گرفتاری کو کیسے غیر قانونی قرار دے سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نقطہ بھی کوئی قابل گفتگو نہیں ہے۔

پانچواں نقطہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس نقطہ میں یہ موقف لیا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور بیرونی سرمایہ کاری تب تک ممکن نہیں جب تک عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم نہیں ہوگی۔ یہ درست ہے کہ عوامی امنگوں کی حکومت کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ مجھے تو یہی تاثر ملا ہے کہ وہ ملک کی حکومت مانگ رہے ہیں۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک مجھے حکومت نہیں دی جائے گی تب تک نہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری آسکتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ ان کی یہ بات مانی جا سکتی ہے۔ اس نقطہ میں وہ حکومت حاصل کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے کا ہی اعلان کر رہے ہیں۔ سیاسی استحکام کو انھوں نے اپنی حکومت سے جوڑ دیا ہے۔

چھٹا نقطہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنت کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ انہون نے الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں قانون پر عملدرآمد روک رہی ہے۔ یہ نقطہ بھی کوئی مفاہمتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کو بھی الزام تراشی کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اس پر بھی کوئی بات چیت ممکن نہیں۔

اس لیے مجھے یہ خط کوئی بریک تھرو کا حامل نہیں لگ رہا۔ اس کا تو کوئی جواب نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اس کے مندرجات پر کوئی بات ہو سکتی ہے۔ نہ ہی خط درجہ حرارت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے درجہ حرارت بڑھے گا۔ یہی حقیقت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف کوئی جواب نہیں سیاسی استحکام ملک میں سیاسی کا کوئی جواب یہ نقطہ بھی کے مندرجات نظر نہیں ا خط کا کوئی خط لکھا ہے نہیں ا بھی کوئی انھوں نے رہے ہیں سکتی ہے سکتا ہے ا ئے گا دیا جا کو بھی اس لیے

پڑھیں:

مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل

بالی ووڈ کی معروف اداکارہ نصرت بھروچا نے مذہب اور لباس پر ہونے والی تنقید پر اپنا ردِعمل دے دیا۔

نصرت بھروچا نے اپنی نئی فلم’چھوری 2‘ کی تشہیر کے دوران مندروں میں جانے اور لباس پر ہونے والی تنقید کے بارے میں بات کی۔

اُنہوں نے بتایا کہ میرے لیے میرا ایمان حقیقی ہے باقی زندگی میں غیر حقیقی چیزیں بھی ہوتی ہیں اور یہی چیز میرے یقین کو مضبوط کرتی ہے۔

بھارتی اداکارہ نے بتایا کہ اس لیے میں اب بھی اپنے مذہب سے جڑی ہوئی ہوں، اب بھی مضبوط ہوں اور میں جانتی ہوں کہ مجھے کس راستے پر چلنا ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ جہاں بھی انسان کو سکون ملے چاہے وہ مندر ہو، گوردوارہ ہو یا گرجا گھر اسے وہاں جانا چاہیے اور میں سرِ عام یہ بات کہتی ہوں کہ میں نماز پڑھتی ہوں، وقت ملے تو 5 وقت کی نماز پڑھتی ہوں، دورانِ سفر بھی اپنی جائے نماز ساتھ رکھتی ہوں۔

نصرت بھروچا نے کہا کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں مجھے ایک جیسا سکون ملتا ہے کیونکہ میرا ہمیشہ سے یقین ہے کہ خدا ایک ہے مگر اس سے رابطہ کرنے کے لیے مختلف راستے ہیں اور میں ان تمام راستوں کو تلاش کرنا چاہتی ہوں۔

اُنہوں نے بتایا کہ صرف مختلف عبادت گاہوں میں جانے پر ہی نہیں بلکہ میرے لباس پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔

بھارتی اداکارہ نے بتایا کہ جب بھی میں سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر کرتی ہوں تو ناقدین کی جانب سے کچھ اس قسم کے سوال اُٹھائے جاتے ہیں کہ ’اس کے کپڑے دیکھو، یہ کس طرح کی مسلمان ہے؟‘

اُنہوں نے مزید کہا کہ ناقدین کی تنقید مجھے تبدیل نہیں کرسکتی اور نا ہی مجھے مندر جانے یا نماز پڑھنے سے روک سکتی ہے، میں تنقید کے باوجود بھی یہ دونوں کام کرتی رہوں گی کیونکہ یہ میرا ایمان ہے۔

نصرت بھروچا نے یہ بھی کہا کہ جب انسان کے اپنے خیالات، روح اور دماغ صاف ہوں تو دنیا میں کوئی بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • پاکستان نئی دہلی کے کسی بھی حملے کا جواب دے گا، خواجہ آصف
  • ’ڈاکٹر چکر لگوا رہے تھے، چیٹ جی پی ٹی نے مرض کی تشخیص کر کے زندگی بچا لی
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • بھارت سے کوئی ایکشن ہوا تو بھرپور جواب دیں گے، فیصل واوڈا
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل