بانی تحریک انصاف نے آرمی چیف کو خط لکھاہے۔ یہ کوئی پہلا خط نہیں ہے، اس سے پہلے وہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی ایک تفصیلی خط لکھ چکے ہیں۔ ویسے تو وہ جب سے جیل گئے ہیں خط و خطابت کا ایک کھیل جاری ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خط لکھا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی پہلا خط لکھا ہے۔ وہ خود کو سیاست میں بحال رکھنے کے لیے ٹوئٹس کے ساتھ خطوط کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ کیا ان کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ دیکھنے کی بات ہے۔
آئی ایم ایف کو خط کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ آئی ایم ایف نے ان کے خط کے باوجود پاکستان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا اور قرض کی قسط بھی جاری کیا۔ اسی طرح عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔
اب کیا آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا کوئی جواب آئے گا؟ مجھے نہیں لگتا۔ میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں۔ مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس کا کوئی جواب دیا جا سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ بانی تحریک انصاف کو بھی علم ہے کہ ان کے خط کا کوئی جواب نہیں آئے گا۔ انھوں نے بھی چند چیزیں ریکارڈ پر لانے کے لیے خط لکھا ہے۔ کیونکہ مجھے یہ جواب حاصل کرنے والا خط لگ ہی نہیں رہا۔
جہاں تک ہمیں علم ہے ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اس کے ذمے دار معافی نہیں مانگیں گے، بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔اس لیے رائے یہی ہے کہ محض خط لکھنے سے معاملات آگے نہیں بڑھیں گی بلکہ معافی کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک میں نے خط کے مندرجات دیکھے ہیں، مجھے اس میں معافی کا کوئی پہلو نظر نہیں آیا بلکہ مجھے تو کہیں سے بھی یہ مفاہمتی خط نہیں لگا۔ بلکہ اس خط سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس سے مجھے تو حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔
خط کا پہلا نقطہ عام انتخابات میں دھاندلی کا ہے۔ ویسے تواس خط کا کوئی جواب سامنے نہیں آئے گا کیونکہ ایسے خطوط کا جواب نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر ہم فرض کریں کہ جواب دیا جائے تو وہ کیا ہوگا؟ کیا اس خط کے جواب میں انتخابات میں دھاندلی کے موقف کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ اس تو یہی جواب ہوگا کہ یہ نہیں ہوگا کیونکہ عام انتخابات کا اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ انتخابات نہیں کراتی ۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں اس خط سے اسٹیبلشمنٹ کو دھاندلی کا ذمے دار قراد دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دھاندلی ثابت کرنے کے لیے آئین میں پلیٹ فارم موجود ہیں۔ اس لیے پہلانقطہ حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ الزام تراشی ہے۔
دوسرا نقطہ 26ویں آئین ترمیم ہے۔ آئینی پوزیشن تو یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا پارلیمان کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ 26ویں آئینی ترمیم کیسے پاس کراسکتی ہے، یہ کام صرف پارلیمان کر سکتی ہے۔ کیا بانی تحریک انصاف اس خط سے فوج پر 26ویں آئینی ترمیم پاس کرانے اور اب ان کی خواہش پر اس کو ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ مجھے یہ کسی بھی طرح ممکن نظر نہیں آتا۔ خط کے اس نقطہ کا بھی کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نقطہ بھی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے خراب کرنے کا ہی باعث ہے۔
خط میں تیسرا نقطہ پیکا قانون ہے۔ بانی تحریک انصاف اس کی ذمے داری بھی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں۔ یہ کیسے منطق ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ یہ قانون بھی پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطہ بھی کوئی ٹھیک نہیں لگتا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے اصل نقطہ کو نظر انداز کر کے یہاں بھی بات چیت کے دروازے کھولنے کے بجائے بند ہی کیے گئے ہیں۔
چوتھا نقطہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کا ہے۔ اس میں بھی نو مئی کا ذکر گول کیا گیا ہے۔ نو مئی کے ملزمان فوج کا اصل نقطہ ہے۔ فوج تو اسے قوم کا مقدمہ کہتی ہے۔ نو مئی کے تمام ملزمان کو سزائیں دینے کا کئی بار مطالبہ کر چکی ہے۔ اسی طرح 26نومبر کے واقعہ کو بھی سیاسی دہشت گردی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کا موقف واضح ہے۔ اس میں وہ کیا کر سکتی ہے۔ آرمی چیف ان ملزمان کی گرفتاری کو کیسے غیر قانونی قرار دے سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نقطہ بھی کوئی قابل گفتگو نہیں ہے۔
پانچواں نقطہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ اس نقطہ میں یہ موقف لیا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور بیرونی سرمایہ کاری تب تک ممکن نہیں جب تک عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم نہیں ہوگی۔ یہ درست ہے کہ عوامی امنگوں کی حکومت کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ مجھے تو یہی تاثر ملا ہے کہ وہ ملک کی حکومت مانگ رہے ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک مجھے حکومت نہیں دی جائے گی تب تک نہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔ اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری آسکتی ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ ان کی یہ بات مانی جا سکتی ہے۔ اس نقطہ میں وہ حکومت حاصل کیے بغیر ملک میں سیاسی استحکام نہ ہونے کا ہی اعلان کر رہے ہیں۔ سیاسی استحکام کو انھوں نے اپنی حکومت سے جوڑ دیا ہے۔
چھٹا نقطہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنت کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ انہون نے الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک میں قانون پر عملدرآمد روک رہی ہے۔ یہ نقطہ بھی کوئی مفاہمتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس کو بھی الزام تراشی کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اس پر بھی کوئی بات چیت ممکن نہیں۔
اس لیے مجھے یہ خط کوئی بریک تھرو کا حامل نہیں لگ رہا۔ اس کا تو کوئی جواب نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اس کے مندرجات پر کوئی بات ہو سکتی ہے۔ نہ ہی خط درجہ حرارت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے درجہ حرارت بڑھے گا۔ یہی حقیقت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف کوئی جواب نہیں سیاسی استحکام ملک میں سیاسی کا کوئی جواب یہ نقطہ بھی کے مندرجات نظر نہیں ا خط کا کوئی خط لکھا ہے نہیں ا بھی کوئی انھوں نے رہے ہیں سکتی ہے سکتا ہے ا ئے گا دیا جا کو بھی اس لیے
پڑھیں:
آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟
راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔(جاری ہے)
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔ اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔