چین کا بنگلہ دیش کی نصابی کتب میں نقشے پر اعتراض
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
بیجنگ/لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 فروری ۔2025 )چین نے بنگلہ دیش کے نصابی کتب میں ایک نقشے پر اعتراض اٹھایا ہے جس میں ایشیا کے نقشے میں اروناچل پردیش اور اکسائی چن کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے چینی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے چوتھی جماعت کی نصابی کتابوں اور محکمہ سروے کی ویب سائٹ پر ان دونوں علاقوں کو بھارت کی حدود میں شامل کر کے حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا ہے اور اسے حقیقت سے متصادم غلطی قرار دیا.
(جاری ہے)
چین کے خط میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اینڈ گلوبل سٹڈیز کے نصاب میں شامل ایشیا کے ایک نقشے میں چین اور بھارت کی سرحدوں کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے خاص طور پر اروناچل پردیش اور اکسائی چن کے حوالے سے انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو مغرب میں لداخ سے مشرق میں اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے.
چین کے پاس لداخ میں اکسائی چن نامی علاقے کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول ہے جو اس نے بھارت کے ساتھ 1962 کی جنگ کے دوران جیتا تھا چین بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کو اپنے صوبے تبت کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جولائی 2020 میں مزید کشیدہ ہو گئے تھے جب لداخ کی وادی گلوان میں ہونے والی ایک خونریز جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی اورچار چینی فوجی مارے گئے تھے یہ پہلا موقع تھا کہ 45 سال میں کسی سرحدی جھڑپ میں جانی نقصان ہوا تھا. بھارت نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ اس نے چین کے ساتھ متنازع ہمالیائی سرحد پر فوجی گشت کے حوالے سے ایک معاہدہ کر لیا ہے جو اس تنازع کو حل کرنے کی طرف ایک اہم پیش رفت قرار دی گئی تھی چین نے نویں اور دسویں جماعت کے لیے بنگلہ دیش اینڈ گلوبل سٹڈیز کی نصابی کتابوں میں ہانگ کانگ اور تائیوان کو علیحدہ ممالک کے طور پر بیان کیے جانے پر بھی اعتراض کیا ہے جہاں انہیں ڈھاکہ کے تجارتی شراکت دار کے طور پر پیش کیا گیا ہے بیجنگ کا مو¿قف ہے کہ تائیوان ایک خودمختار ریاست نہیں بلکہ چین کا ایک الگ صوبہ ہے اور اسے چین کے ساتھ ضم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کرتا. چین نے بنگلہ دیش پر زور دیا کہ وہ ”ون چائنا“ پالیسی پر قائم رہے اور ایک دوسرے کی خودمختاری‘ آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرے چین کے اس خط کے بعد دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے بنگلہ دیش کی وزارتِ تعلیم اور نیشنل کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (این سی ٹی بی) کا کہنا ہے کہ نئی نصابی کتابوں کی طباعت پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے فوری طور پر کوئی تبدیلی ممکن نہیں. اس صورت حال کے پیش نظر ڈھاکہ نے بیجنگ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں زیادہ دباﺅنہ ڈالے اور یقین دہانی کروائی کہ آئندہ اس مسئلے کو باہمی مشاورت سے حل کیا جائے گا بنگلہ دیشی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے جریدے ”دی ڈیلی سٹار“ کو بتایا کہ ہم اس وقت کوئی تبدیلی نہیں کر رہے اور صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھے ہوئے ہیں.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نصابی کتابوں بنگلہ دیش گیا ہے ہے اور پیش کی چین کے
پڑھیں:
بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا، شرجیل میمن
کراچی (سٹاف رپورٹر) سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو کھلی جارحیت اور جنوبی ایشیا میں امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدام اشتعال انگیز، غیر ذمہ دارانہ اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ عمل نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش ہے، بلکہ بھارت کی خطرناک سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ عالمی توجہ ہٹانے کے لیے فالس فلیگ آپریشنز کا سہارا لیا ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ صدر کلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران بھی ایک فالس فلیگ آپریشن میں بے گناہ سکھوں کا خون بہایا گیا تھا۔ سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ آج پہلگام میں ایک بار پھر وہی پرانی چال دہرائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف عالمی مہم کا ایک مثر اور متحرک حصہ رہا ہے۔ہم نے ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس کے سانحے سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قربانی تک، ہماری جدوجہد کی فہرست طویل اور عظیم ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی محض آبی تنازع نہیں، بلکہ یہ بھارت کی جنگی ذہنیت کا کھلا ثبوت ہے۔ پاکستان بھارتی اشتعال انگیزی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے عالمی طاقتوں، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ اس سنگین خلاف ورزی کا فوری نوٹس لیں۔