اجتماعی جدوجہد کا منفی ماڈل
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
حیدرآباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں فینسی نمبر پلیٹ، سیاہ شیشے اور قیمتی لائٹ والی گاڑیوں کے خلاف پورے شہر میں مہم شروع کی۔ پولیس کی ٹیم نے بھٹائی نگر کے علاقے میں گاڑیوںکی چیکنگ کے دوران ایک سبز نمبر والی سرکاری نمبر پلیٹ والی کار کو روکا ، اس گاڑی کے سیاہ شیشے تھے۔
گاڑی کا ڈرائیور پولیس افسر کے سوالات کا جواب نہ دے سکا جس کی بناء پر اس کار کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، یہ گاڑی حیدرآباد کے ایک سینئر وکیل کی تھی۔ وکیلوں کے ایک گروپ نے حیدرآباد کے ایس ایس پی ڈاکٹر فرخ علی لنجار سے ملاقات کی۔ وکیلوں کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر غلط درج کی گئی۔ اس بناء پر ایف آئی آر ختم کی جائے مگر ایس ایس پی ایف آئی آر ختم کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
وکلاء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ متعلقہ وکیل کی یہ گاڑی ایس ایس پی کے قافلے میں داخل ہوگئی تھی ۔ ایس ایس پی نے گاڑی کے ان کے قافلے میں داخلے پر ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے ایس ایچ او کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ جب ایس ایس پی اور ڈی آئی جی نے ایف آئی آر ختم کرنے کے مطالبے کو نہ مانا تو وکلاء نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیدیا۔ اس دھرنا کی بناء پر کراچی ، حیدرآباد سڑک پر ہر قسم کی ٹریفک معطل گئی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق نیشنل ہائی وے پر ہزاروں مختلف نوعیت کی گاڑیاں جمع ہوئیں۔
ان میں پنجاب اورخیبر پختون خوا جانے اورآنے والی بسیں، ٹرک اور ٹرالر شامل تھے۔ مسافروں کو جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے شدید سردی میں کئی دن گزارنے پڑے۔ ان میں کچھ مسافر اپنے پیاروں کی میتوں کی تدفین کے لیے اپنے اپنے آبائی شہروں کو جارہے تھے۔
ملیر بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی قیادت میں وکیلوں نے نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا اور اس شاہراہ کو بند کردیا ۔ پھر اس کے ساتھ سندھ کی تمام بار ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے اپنے حیدرآباد کے رفیقوں سے یکجہتی کے لیے ہڑتال شروع کردی۔ ٹھٹھہ، سجاول، بدین، لانڈھی، بھینس کالونی سے آنے والے ہزاروں سے زیادہ افراد شاہراہ فیصل تک نہ پہنچ سکے یوں شاہراہ فیصل پر ٹریفک معطل ہوگیا۔ حیدرآباد کے عہدیداروں نے ڈی آئی جی حیدرآباد اور کراچی میں وزارت داخلہ کے سینئر افسروں سے طویل مذاکرات کیے۔ وکلاء کا مطالبہ تھا کہ متعلقہ ایس ایس پی کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے۔
پولیس کے اعلیٰ افسر نے یہ پیشکش کی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے مگر وکلاء کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پہلے ایس ایس پی کا تبادلہ کیا جائے پھر وکلاء عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہونگے۔ حکومت نے سندھ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے مذاکرات کیے مگر سندھ کے شہری چار دن تک ایک کنفیوژن اور بے بسی کا شکار رہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کی کابینہ کے وزراء سینئر وزیر شرجیل میمن اور ناصر شاہ صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ چین کے دورہ پر گئے ہوئے تھے، یوں سندھ میں فیصلہ ساز اداروں کا کوئی فرد سندھ کے دار الحکومت کراچی میں موجود نہیں تھا مگر پھر خدا خدا کرکے سندھ حکومت کسی فیصلے پر پہنچ گئی۔ حیدرآباد کے ڈی آئی جی طارق رزاق دھاریجو نے ایس ایس پی کو چھٹیوں پر بھیج دیا۔ جب یہ تنازع شروع ہوا تھا تو حیدرآباد کے تمام ایس ایچ او اور دیگر افسران نے اس ایس ایس پی سے یکجہتی کے لیے رخصت کی درخواست جمع کرادی تھی اور یہ افسران ایس ایس پی دفتر پر جمع ہوگئے تھے مگر شاید اعلیٰ افسروں کی مداخلت پر ان افسروں نے اپنی رخصت کی درخواستوں پر زور نہیں دیا۔
وکلاء نے اپنی اس اجتماعی جدوجہد کی کامیابی کا خوب جشن منایا۔ سول سوسائٹی کے بعض متحرک کارکنوں نے اس کو پولیس کے ظلم کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی کامیابی قرار دیا مگر اس جھگڑے نے کئی نئے سوالات اٹھا دیے۔ وکیلوں کی اجتماعی جدوجہد سے یہ سوال اہم ہوگیا کہ اپنی برادری کے کسی فرد کے مبینہ طور پر انفرادی حق کے غضب ہونے پر اجتماعی جدوجہد کو راستہ بنانا مظلوموں کے حقوق کے لیے اجتماعی جدوجہد کے لیے مفید ہے یا تباہ کن ہے۔
وکلاء میں اجتماعی جدوجہد کا دور 2007سے شروع ہوتا ہے جب اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مستعفی ہونے کی ہدایت دی مگر افتخار چوہدری نے اس حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جس پر افتخار چوہدری کو معطل کرکے کچھ دنوں کے لیے نظربند کردیا گیا جس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لیے وکلاء نے ایک تاریخی اجتماعی جدوجہد شروع کی۔ اس وقت کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تمام تنظیموں نے وکلاء کی تحریک کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا وعدہ کیا مگر سابق صدر پرویز مشرف کے صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے اس وعدے کو پورا کرنے سے انکار کیا تو میاں نواز شریف اور بیرسٹر اعتزاز احسن کی قیادت میں ہزاروں افراد پر مشتمل جلوس گوجرانوالہ پہنچا تو میاں نواز شریف کو چیف جسٹس کی بحالی کی اطلاع دی گئی اور میاں صاحب نے واپس ماڈل ٹاؤن جانے کا فیصلہ کیا۔
بعد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے باقاعدہ طور پر جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد وکلاء ایک مضبوط گروہ کی شکل میں سامنے آئے۔ چند وکلاء کے ذاتی جھگڑے پر سیکڑوں وکلاء نے لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کر کے اسپتال کو سخت نقصان پہنچایا، خاص طور پر پنجاب سے یہ خبریں زیادہ آنے لگیں کہ چھوٹے شہروں میں وکلاء کے گروہ ججوں کو یرغمال بناتے ہیں اور ان سے مرضی کے فیصلے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک واقعے میں وکلاء کے ایک گروپ نے چیف جسٹس اسلام آباد کے چیمبر پر بھی حملہ کیا جس پر چند وکیلوں کو سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ سینئر وکلاء کا کہنا تھا کہ وکلاء میں ایک خاص قسم کا فاشزم ابھر کر سامنے آرہا ہے اور اجتماعی جدوجہد کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
حیدرآباد کے اس واقعے کے بارے میں فریقین نے جو الزام لگائے ہیں جوڈیشل کمیشن کی آزادانہ تحقیقات سے ہی ان میں سے کوئی ایک الزام صحیح یا غلط ثابت ہوسکتا تھا مگر وکلاء کا اپنے ساتھی کی جانب سے لگائے گئے الزام کے درست ثابت ہونے سے پہلے کئی دن تک احتجاج ،سندھ کی عدالتوں کی بندش اور ہزاروں افراد کی زندگیوں کو معطل کرنے اور کروڑوں روپے کے نقصان کا اس صورت میں کون ذمے دار ہوگا جب جوڈیشل کمیشن وکلاء کے الزام کی توثیق نہیں کرتا؟ چند ماہ قبل عمر کوٹ پولیس کے اہلکاروںکے ہاتھوں ایک ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی نے سخت احتجاج کیا، اگر وکلاء معصوم آدمی کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے تو ایک اعلیٰ قسم کی روایت قائم ہوتی۔
اجتماعی تحریکوں کا جائزہ لینے والے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اجتماعی جدوجہد مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کے لیے سب سے اہم اور موثر ہتھیار ہے۔ طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور سیاسی کارکنوں نے اجتماعی جدوجد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے ہیں۔ گلگت اور آزاد کشمیر میں سول سوسائٹی کی اجتماعی جدوجہد کی تاریخ یہی سبق دیتی ہے، اگر اجتماعی جدوجہد کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ ہتھیار کمزور ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس افتخار چوہدری حیدرآباد کے سول سوسائٹی ایس ایس پی ایف آئی آر وکلاء کے وکلاء نے وکلاء کا چیف جسٹس کا کہنا کے خلاف تھا کہ
پڑھیں:
پانی کی قلت جیسے مشترکہ مسائل کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ، چیئرمین سینٹ
اسلام آباد (این این آئی)چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ ماحولیاتی تبدیلی،قابل تجدید توانائی،پانی کی قلت جیسے مشترکہ مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے بین الاقوامی سفارتی و پارلیمانی کامیابی پر اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں شاندار استقبالیہ دیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹرز، اسپیکرز صوبائی اسمبلیاں اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم ایک عظیم سفارتی اور پارلیمانی سنگِ میل کی خوشی منانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔یہ کامیابی نہ صرف میرے لیے ذاتی طور پر باعثِ فخر ہے بلکہ یہ پوری قوم اور ہمارے پیارے وطن پاکستان کے لیے بھی باعثِ افتخار ہے۔خطاب میں انہوں نے کہا کہ میری متفقہ تعیناتی بطور بانی چیئرمین آئی ایس سی اس بات کا پرزور اعتراف ہے کہ پاکستان اقوامِ عالم کے درمیان مکالمے، تعاون اور باہمی احترام کے فروغ کے لیے پ?رعزم ہے۔ موجودہ عالمی سیاسی منظرنامے میں یہ شاندار کامیابی ہمارے ملک کے لیے بے شمار امکانات کے دروازے کھولے گی۔چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ کامیابی ہمارے کثیرالجہتی، بین الپارلیمانی اور سفارتی روابط کو وسعت دینے کی راہ ہموار کر ے گی تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری فروغ پائے اور اقتصادی روابط کو مضبوط بنا یا جائے۔ انہوں نے آئی ایس سی کو ایک منفرد پلیٹ فارم قرار دیا جو شراکت داری اور تعاون کے ذریعے عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی، قابلِ تجدید توانائی، اور پانی کی قلت یہ تمام چیلنجز اجتماعی کوششوں کے متقاضی ہیں۔سید یوسف رضا گیلانی نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایس سی کی قیادت سنبھالنے کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے جیوپولیٹیکل اور جیو اکنامک کردار کو عالمی منظرنامے پر اجاگر کرنے کے عزم کے تحت، ہم نے کوریا واٹر ریسورسز کارپوریشن کے ساتھ ایک اہم کلائمٹ اسمارٹ ٹیکنالوجی پارٹنرشپ کو بھی باضابطہ شکل دی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کو ماحولیاتی مزاحمت، اور پانی کے پائیدار وسائل کے انتظام کے شعبے میں مہارت کے حصول اور استعداد کار میں اضافے کے لیے بے پناہ مواقع فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ بطور سابق وزیرِاعظم اور اب چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے ہمیشہ متحرک سفارتکاری کی طاقت پر یقین رکھا ہے، بین الپارلیمانی روابط میرے وڑن کا ایک مرکزی ستون رہے ہیں۔ میں انہیں پاکستان کی سافٹ امیج کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہماری قیادت اور مقام کو مزید اجاگر کرنے کا ایک کلیدی ذریعہ سمجھتا ہوں۔ یہ ویڑن ہماری قوم کی اس عظیم سفارتی میراث سے جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح، قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو، اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو جیسے عظیم رہنماؤں نے رکھی،قائداعظم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھی جو عدل، مساوات اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پر مبنی تھے یہی اصول آج بھی ہماری سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔