Islam Times:
2025-04-25@11:53:06 GMT

خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ

سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ تحریر: روح اللہ صالحی

یہ حقیقت ہے کہ خواجہ علی کاظم جیسے کم عمر فرد کی ناگہانی وفات پر لاکھوں افراد کا اجتماع ہوا، کسی معمولی یا وقتی جذباتی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی، نفسیاتی اور مذہبی رجحان کا عکاس ہے۔ یہ اجتماع ایک مخصوص نظریاتی قوت کے تابع ہے، وہ قوت جو انسانوں کے قلوب و اذہان پر حکمرانی کرتی ہے اور انہیں عمل پر ابھارتی ہے، یہ قوت عشق اہل بیت علیہم السلام ہے۔ علم نفسیات کے اصولوں کے مطابق، جب کوئی نظریہ یا جذبہ کسی سماج میں اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جائے تو وہ اس سماج کے افراد کے طرزِ فکر و عمل کو تشکیل دیتا ہے۔ عشق اہل بیتؑ، صدیوں سے بلتستانی سماج کے اجتماعی شعور میں رچا بسا ہے، اور یہی وہ بنیادی عنصر ہے جو افراد کو اپنے ذاتی مفادات سے ماورا کر کے کسی اجتماعی مقصد کے لیے متحرک کرتا ہے۔ 
  خواجہ علی کاظم کی اجتماعی پہچان ایک ایسا انسان جس کی زندگی اہل بیت کے عشق اور ان کی تعلیمات کی ترویج میں گزری، کے طور پر ہے، اور ان کی شہرت کسی مادی مقصد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر لوگوں نے ذاتی مصروفیات، کاروبار اور روزمرہ کی ضروریات کو ترک کر کے ایک مثالی اجتماع میں شرکت کی۔ سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ لیکن چونکہ خواجہ علی کاظم کی پہچان اہل بیت سے وابستگی تھی، اس لیے یہ اجتماع محض کسی فرد کے لیے نہیں، بلکہ ایک نظریاتی وابستگی کا مظہر تھا۔   یہاں پر ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سیکولر یا لامذہب عناصر اس اجتماع میں بالکل نظر نہیں آئے، بلکہ کچھ نے اس پر تنقید اور توہین کی راہ اپنائی۔ یہ رویہ ان کے نظریاتی تعصب کا مظہر ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ جو مذہبی شعور رکھتا ہے، پوری شدت کے ساتھ اس اجتماع میں موجود تھا۔ یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلتستان میں مذہب ابھی بھی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور اجتماعی قوت ہے۔ یہاں تک کہ نوجوان نسل، جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے دور ہوتی جا رہی ہے، وہ بھی اس اجتماع میں پیش پیش تھی۔ یہ اجتماع ثابت کرتا ہے کہ بلتستان اب بھی ایک مذہبی معاشرہ ہے، اور یہاں کی عوام کے لیے مذہب محض ایک ذاتی یا انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قدر ہے جو انہیں متحد کرتی ہے۔ جب کوئی مذہبی شخصیت دنیا سے رخصت ہوتی ہے، تو وہ اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ جاتی ہے جسے صرف عشق اہل بیت سے وابستہ لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ علی کاظم کی وفات نے لاکھوں انسانوں کے قلوب کو جھنجھوڑا اور انہیں یکجا کر دیا۔
  لہذا یہ لاکھوں افراد کا اجتماع محض کسی ذاتی عقیدت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہری فکری اور سماجی حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی فرد اپنی زندگی کو اہل بیت کی محبت میں بسر کرتا ہے، تو اس کی موت بھی ایک ایسا انقلاب برپا کر سکتی ہے جو لاکھوں دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ یہ اجتماع ایک لمحاتی ہلچل نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوت کا عملی مظاہرہ تھا، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلتستان میں مذہب محض ایک انفرادی عقیدہ نہیں بلکہ اجتماعی وحدت اور تحریک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شہرت انسان کے سامنے کئی انحرافی راستے کھول سکتے ہیں۔ لیکن مذہب سے ملنے والی شہرت کو فسق و فجور کی ترویج کیلئے استعمال نہ کرنا الہی امتحان میں کامیابی کی علامت ہے۔ مخصوصا کچھ افراد جنہیں مذہبی امور نے شہرت تک پہنچایا، ذکر علی ع و ذکر اہل بیتؑ نے انہیں شہرت دی، لیکن وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کرسکے۔ وہ شہرت جو اسے ذکر علی ع نے دی ہے اسے فسق و فجور کی ترویج اور گانا وغیرہ گانے کیلئے استعمال کرے، بنی امیہ کی روش ہے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بلتستان میں مذہب خواجہ علی کاظم نہیں بلکہ ایک یہ اجتماع سے زیادہ اہل بیت کرتی ہے کرتا ہے سماج کے اور ان

پڑھیں:

دھی رانی پروگرام، 1 معذور اور 6 مسیحی سمیت 100 جوڑوں کی اجتماعی شادی

— فائل فوٹو

لاہور میں دھی رانی پروگرام کے تحت 100 سے زائد جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریب منعقد ہوئی۔

اجتماعی شادیوں کی تقریب میں 1 معذور اور 6 مسیحی جوڑے بھی شامل ہیں، ہر جوڑے کو 2 لاکھ 22 ہزار روپے مالیت کے تحائف اور مالی امداد دی گئی۔

اس موقع پر وزیرِ سوشل ویلفیئر پنجاب سہیل شوکت بٹ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھی رانی پروگرام جیسا پروگرام پنجاب کی تاریخ میں نہیں ملتا، صوبہ پنجاب کی ویلفیئر کے لیے مختلف منصوبے لائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 28 اپریل تک 3 ہزار شادیوں کا ٹارگٹ حاصل کر لیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • دھی رانی پروگرام، 1 معذور اور 6 مسیحی سمیت 100 جوڑوں کی اجتماعی شادی
  • مودی کوئی بھی جنگ مسلط کر سکتا ہے، اداروں اور ذمہ داروں کو تیار رہنا ہو گا، کاظم میثم
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • بیجنگ میں خصوصی پروگرام “شی جن پھنگ کی اقتصادی سوچ  کا مطالعہ ” کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد 
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • پاراچنار کی طویل مشکلات کے ردعمل میں سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی کا اہم اعلان
  • بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان