Islam Times:
2025-09-18@20:57:34 GMT

خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

خواجہ علی کاظم کے تشییع جنازہ کا سماجیاتی مطالعہ

سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ تحریر: روح اللہ صالحی

یہ حقیقت ہے کہ خواجہ علی کاظم جیسے کم عمر فرد کی ناگہانی وفات پر لاکھوں افراد کا اجتماع ہوا، کسی معمولی یا وقتی جذباتی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی، نفسیاتی اور مذہبی رجحان کا عکاس ہے۔ یہ اجتماع ایک مخصوص نظریاتی قوت کے تابع ہے، وہ قوت جو انسانوں کے قلوب و اذہان پر حکمرانی کرتی ہے اور انہیں عمل پر ابھارتی ہے، یہ قوت عشق اہل بیت علیہم السلام ہے۔ علم نفسیات کے اصولوں کے مطابق، جب کوئی نظریہ یا جذبہ کسی سماج میں اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جائے تو وہ اس سماج کے افراد کے طرزِ فکر و عمل کو تشکیل دیتا ہے۔ عشق اہل بیتؑ، صدیوں سے بلتستانی سماج کے اجتماعی شعور میں رچا بسا ہے، اور یہی وہ بنیادی عنصر ہے جو افراد کو اپنے ذاتی مفادات سے ماورا کر کے کسی اجتماعی مقصد کے لیے متحرک کرتا ہے۔ 
  خواجہ علی کاظم کی اجتماعی پہچان ایک ایسا انسان جس کی زندگی اہل بیت کے عشق اور ان کی تعلیمات کی ترویج میں گزری، کے طور پر ہے، اور ان کی شہرت کسی مادی مقصد کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر لوگوں نے ذاتی مصروفیات، کاروبار اور روزمرہ کی ضروریات کو ترک کر کے ایک مثالی اجتماع میں شرکت کی۔ سوشیالوجی کے اصولوں کے مطابق، کسی معاشرے میں اگر کوئی ایک قدر سب سے زیادہ مؤثر ہو تو وہی اس سماج کے اجتماعی فیصلوں، اجتماعات اور رجحانات کو متعین کرتی ہے۔ بلتستان میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ایک سماجی قوت کے طور پر کسی بھی دوسری قدر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ ایک کاروباری شخصیت، سیاسی رہنما یا کوئی اور غیر مذہبی شخصیت ہوتی تو شاید اتنا بڑا اجتماع ممکن نہ ہوتا۔ لیکن چونکہ خواجہ علی کاظم کی پہچان اہل بیت سے وابستگی تھی، اس لیے یہ اجتماع محض کسی فرد کے لیے نہیں، بلکہ ایک نظریاتی وابستگی کا مظہر تھا۔   یہاں پر ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سیکولر یا لامذہب عناصر اس اجتماع میں بالکل نظر نہیں آئے، بلکہ کچھ نے اس پر تنقید اور توہین کی راہ اپنائی۔ یہ رویہ ان کے نظریاتی تعصب کا مظہر ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ جو مذہبی شعور رکھتا ہے، پوری شدت کے ساتھ اس اجتماع میں موجود تھا۔ یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلتستان میں مذہب ابھی بھی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور اجتماعی قوت ہے۔ یہاں تک کہ نوجوان نسل، جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے دور ہوتی جا رہی ہے، وہ بھی اس اجتماع میں پیش پیش تھی۔ یہ اجتماع ثابت کرتا ہے کہ بلتستان اب بھی ایک مذہبی معاشرہ ہے، اور یہاں کی عوام کے لیے مذہب محض ایک ذاتی یا انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قدر ہے جو انہیں متحد کرتی ہے۔ جب کوئی مذہبی شخصیت دنیا سے رخصت ہوتی ہے، تو وہ اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ جاتی ہے جسے صرف عشق اہل بیت سے وابستہ لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ علی کاظم کی وفات نے لاکھوں انسانوں کے قلوب کو جھنجھوڑا اور انہیں یکجا کر دیا۔
  لہذا یہ لاکھوں افراد کا اجتماع محض کسی ذاتی عقیدت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہری فکری اور سماجی حقیقت کا مظہر ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی فرد اپنی زندگی کو اہل بیت کی محبت میں بسر کرتا ہے، تو اس کی موت بھی ایک ایسا انقلاب برپا کر سکتی ہے جو لاکھوں دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ یہ اجتماع ایک لمحاتی ہلچل نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوت کا عملی مظاہرہ تھا، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بلتستان میں مذہب محض ایک انفرادی عقیدہ نہیں بلکہ اجتماعی وحدت اور تحریک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شہرت انسان کے سامنے کئی انحرافی راستے کھول سکتے ہیں۔ لیکن مذہب سے ملنے والی شہرت کو فسق و فجور کی ترویج کیلئے استعمال نہ کرنا الہی امتحان میں کامیابی کی علامت ہے۔ مخصوصا کچھ افراد جنہیں مذہبی امور نے شہرت تک پہنچایا، ذکر علی ع و ذکر اہل بیتؑ نے انہیں شہرت دی، لیکن وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کرسکے۔ وہ شہرت جو اسے ذکر علی ع نے دی ہے اسے فسق و فجور کی ترویج اور گانا وغیرہ گانے کیلئے استعمال کرے، بنی امیہ کی روش ہے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بلتستان میں مذہب خواجہ علی کاظم نہیں بلکہ ایک یہ اجتماع سے زیادہ اہل بیت کرتی ہے کرتا ہے سماج کے اور ان

پڑھیں:

قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،دوحہ میں ہونے والے کانفرنس غیرمعمولی تھی مجھے اس کانفرنس سے مایو سی نہیں ہوئی،مسلم ممالک کونیٹوکی طرز پر اتحاد بناناچاہئے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتےہوئے خواجہ آصف نے کہاکہ شام میں امریکہ کی مرضی سے حکومت آئی،اسرائیل اس پر بھی حملے سے باز نہیں آرہا، غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی سے ہوا،حماس کی قیادت امریکہ کی مرضی سے قطرمیں بیٹھی تھی۔انہوں نے کہاکہ جو ری ایکشن غزہ کے حوالے سے مغرب سے آرہاہے کہ وہ زیادہ تباہ کن ہے۔مسلم ممالک کوسمجھناچاہئے ،اپنے دوست نمادشمن میں تفریق کرلیں  یہ توقع کرناکہ مسلم دنیافوری ری ایکٹ کرے گی یہ قبل ازوقت ہے۔۔انہوں نے کہاکہ معرکہ حق میں ہم نے ثابت کردیاکہ بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی۔انہوںنے کہاکہ اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھے انہیں سوڈان سے سی آئی اے کے ڈائریکٹرلائے تھے۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • جی سی سی کا مشترکہ دفاعی اجلاس، اسرائیلی حملے کی مذمت، اجتماعی دفاعی اقدامات کا اعلان
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • انقلاب – مشن نور
  • محسن نقوی کی تربت آمد، شہید فوجی اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شرکت