Jasarat News:
2025-04-25@11:50:52 GMT

سولر امپورٹ میں مالی بدعنوانی: کون ذمے دار؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سولر امپورٹ میں مالی بدعنوانی: کون ذمے دار؟

پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے سولر انرجی کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی گئی تھی، لیکن اس مثبت اقدام کو بھی بدعنوان عناصر نے کرپشن کا ذریعہ بنا لیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں سولر پینلز کی درآمد میں منی لانڈرنگ، اوور انوائسنگ، اور جعلی کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ معاملہ محض مالی بدعنوانی کا نہیں، بلکہ اس سے پاکستان کے بینکاری نظام، تجارتی پالیسیوں، اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایف بی آر کی بریفنگ کے مطابق 80 میں سے 63 کمپنیاں اوور انوائسنگ میں ملوث نکلیں، اور صرف ایک ڈمی کمپنی نے ہی 2.

29 ارب روپے کی سولر مصنوعات درآمد کیں، جبکہ 2.58 ارب روپے کی فروخت ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، 117 ارب روپے کی رقم بیرون ملک بھیجی گئی، جس میں سے 54 ارب روپے کی اوور انوائسنگ پکڑی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں چین کے بجائے 10 دیگر ممالک کو کی گئیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کا معاملہ بھی ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیسے ایک کمزور مالی حیثیت رکھنے والی کمپنی اتنی بڑی ٹرانزیکشنز کرنے میں کامیاب ہوئی؟ بینکوں کا بنیادی کردار ایسی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کو روکنا ہے، لیکن اس کیس میں کئی بینکوں نے اس عمل کو نظر انداز کیا۔ کئی نجی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے اس معاملے میں ملوث نظر آتے ہیں، جنہوں نے ان کمپنیوں کے ساتھ بڑی ٹرانزیکشنز کیں۔ اسٹیٹ بینک، جو ملک کے مالیاتی نظام کا نگران ہے، اس حوالے سے تاخیر کا شکار رہا۔ بینکوں پر محض 20 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنا ایک معمولی کارروائی ہے، جبکہ معاملہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ہے۔ اگر 2019 میں ہی ایس ٹی آر رپورٹس ایف بی آر اور ایف آئی اے کو فراہم کی جاچکی تھیں، تو پھر کارروائی میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد کو ڈیوٹی فری رکھا تاکہ عوام کو سستی توانائی فراہم کی جا سکے، لیکن بدعنوان افراد نے اس پالیسی کو غیر قانونی دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے کسی بھی قسم کی نگرانی کا مؤثر نظام نافذ کیا؟ اگر سولر کی قیمت 2018 سے 2023 کے دوران 0.08 سے 0.16 امریکی سینٹ فی واٹ رہی، تو پھر اس قدر زیادہ قیمت پر درآمدات کیوں ہوئیں؟ یہ کیس اس بات کی علامت ہے کہ مالیاتی نگرانی کے ادارے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، اور دیگر متعلقہ محکمے اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات جن کے جوابات ضروری ہیں: جعلی کمپنیوں کو رجسٹر کرنے میں ایس ای سی پی کا کردار کیا رہا؟ جب اتنی بڑی رقوم بینکوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئیں، تو کیا اسٹیٹ بینک نے اپنی نگرانی کی ذمے داری ادا کی؟ کیا ایف آئی اے نے اس معاملے پر کوئی سنجیدہ تحقیقات کیں؟ یہ ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے فوری طور پر جامع تحقیقات کریں، ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں، اور آئندہ کے لیے ایسی مالی بدعنوانی کو روکنے کے مؤثر اقدامات کریں۔ بصورت دیگر پاکستان کی معیشت مزید کمزور ہوگی اور عوام کا مالیاتی نظام پر اعتماد ختم ہوتا چلا جائے گا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ارب روپے کی

پڑھیں:

حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کردیا، پیشکشیں طلب

وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن ( پی آئی اے ) کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرتے ہوئے اظہار دلچسپی کا نوٹس جاری کر دیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق پی آئی اے کے 51 سے 100فیصد شیئرز فروخت کرنے کے لیے پیش کیے جائیں گے جبکہ پی آئی اے کا منیجمنٹ کنٹرول بھی منتقل کیا جائےگا۔

نجکاری کمیشن نے اظہار دلچسپی جمع کرانے کے لیے3 جون 2025 تک کی تاریخ مقرر کی ہے ، نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے کے کور اور نان کور بزنس کو الگ الگ کیا گیا ہے، پی آئی اے کے اثاثے اور واجبات پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمٹیڈ کو منتقل کیے گیے ہیں۔

نجکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ نئےطیاروں کی خریداری اور لیز کے حوالے سے سیلز ٹیکس چھوٹ دی جاسکتی ہے، پی آئی اے کو مالی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزرے چند سالوں سے مسلسل خسارے سے دوچار پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی حکومت نجکاری کرنے کی خواہاں ہے اور اس سلسلے میں ایک طویل عمل کے بعد حکومت کو ادارے کی نجکاری کے لیے بولیاں بھی موصول ہوئی تھیں۔

تاہم توقع سے انتہائی کم بولی لگنے پر نجکاری بورڈ نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کے لیے موصول ہونے والے بولیاں مسترد کردی تھیں۔

یاد رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو بولی کھولی گئی تھی اور قومی ایئر لائن کے 60 فیصد حصص کی نجکاری کے لیے 85 ارب روپے کی خواہاں حکومت کو ریئل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنی کی جانب سے صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی تھی۔

بعد ازاں دبئی سے تعلق رکھنے والی پاکستانی گروپ نے حکومت کو 250 ارب روپے کے واجبات سمیت 125ارب روپے سے زائد میں خریدنے کی پیشکش ارسال کی تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق النہانگ گروپ نے پی آئی اے کی خریداری کے لیے وزیر نجکاری، وزیر ہوا بازی اور وزیر دفاع سمیت دیگر متعلقہ حکام کو بذریعہ ای میل پیشکش ارسال کی تھی ۔

النہانگ گروپ نے حکومت کو پی آئی اے کے ملازمین کی چھانٹی نہ کرنے، تنخواہوں میں مرحلہ وار 30 سے 100 فیصد اضافے کی بھی پیشکش کی تھی۔

بعدازاں گزشتہ سال 19 دسمبر کو سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے حکومت پر پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا تمام کام مکمل کرلیا گیا تھا مگر موجودہ حکومت نے پی آئی اے نجکاری کا عمل سبوتاژ کردیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ نجکاری کے لیے واضح مقصد اور بیانیہ ہونا چاہیے، دنیا مین کوئی ایک ایسا ملک بتائیں جہاں نجکاری کمیٹی کا سربراہ وزیر خارجہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بڑی حکومت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو چھوٹی حکومت کرنے پر یقین رکھتی ہو۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • کے پی حکومت کا سولرائزیشن منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ
  • فیصل بینک نے 2025 کی پہلی سہ ماہی کیلئے مستحکم مالیاتی نتائج کا اعلان کردیا
  • بڑی خبر! مزید یوٹیلیٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ ، کن ملازمین کو فارغ کیا جائے گا؟
  • حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کردیا، پیشکشیں طلب
  • حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کردیا، پیشکشیں طلب
  • لیسکو نے سولر سسٹمز کے لیے AMI بائی ڈائریکشنل میٹرز کی قیمت میں کمی کر دی
  • سولر پینل درآمد کی آڑ میں منی لانڈرنگ، کمیٹی نے مزید وقت مانگ لیا
  • امریکا کا جنوب مشرقی ایشیا سے سولر پینلز کی درآمد پر 3500 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ
  • امریکا کا ایشیائی ممالک کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد ٹیکس کا اعلان
  • سرکاری ملازمین کے لئے اہم خبرآ گئی