Jasarat News:
2025-06-09@21:48:05 GMT

سولر امپورٹ میں مالی بدعنوانی: کون ذمے دار؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سولر امپورٹ میں مالی بدعنوانی: کون ذمے دار؟

پاکستان میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے سولر انرجی کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائی گئی تھی، لیکن اس مثبت اقدام کو بھی بدعنوان عناصر نے کرپشن کا ذریعہ بنا لیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں سولر پینلز کی درآمد میں منی لانڈرنگ، اوور انوائسنگ، اور جعلی کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ معاملہ محض مالی بدعنوانی کا نہیں، بلکہ اس سے پاکستان کے بینکاری نظام، تجارتی پالیسیوں، اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایف بی آر کی بریفنگ کے مطابق 80 میں سے 63 کمپنیاں اوور انوائسنگ میں ملوث نکلیں، اور صرف ایک ڈمی کمپنی نے ہی 2.

29 ارب روپے کی سولر مصنوعات درآمد کیں، جبکہ 2.58 ارب روپے کی فروخت ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، 117 ارب روپے کی رقم بیرون ملک بھیجی گئی، جس میں سے 54 ارب روپے کی اوور انوائسنگ پکڑی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ادائیگیاں چین کے بجائے 10 دیگر ممالک کو کی گئیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کا معاملہ بھی ہے۔ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیسے ایک کمزور مالی حیثیت رکھنے والی کمپنی اتنی بڑی ٹرانزیکشنز کرنے میں کامیاب ہوئی؟ بینکوں کا بنیادی کردار ایسی مشکوک مالیاتی سرگرمیوں کو روکنا ہے، لیکن اس کیس میں کئی بینکوں نے اس عمل کو نظر انداز کیا۔ کئی نجی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے اس معاملے میں ملوث نظر آتے ہیں، جنہوں نے ان کمپنیوں کے ساتھ بڑی ٹرانزیکشنز کیں۔ اسٹیٹ بینک، جو ملک کے مالیاتی نظام کا نگران ہے، اس حوالے سے تاخیر کا شکار رہا۔ بینکوں پر محض 20 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرنا ایک معمولی کارروائی ہے، جبکہ معاملہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا ہے۔ اگر 2019 میں ہی ایس ٹی آر رپورٹس ایف بی آر اور ایف آئی اے کو فراہم کی جاچکی تھیں، تو پھر کارروائی میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد کو ڈیوٹی فری رکھا تاکہ عوام کو سستی توانائی فراہم کی جا سکے، لیکن بدعنوان افراد نے اس پالیسی کو غیر قانونی دولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے کسی بھی قسم کی نگرانی کا مؤثر نظام نافذ کیا؟ اگر سولر کی قیمت 2018 سے 2023 کے دوران 0.08 سے 0.16 امریکی سینٹ فی واٹ رہی، تو پھر اس قدر زیادہ قیمت پر درآمدات کیوں ہوئیں؟ یہ کیس اس بات کی علامت ہے کہ مالیاتی نگرانی کے ادارے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، اور دیگر متعلقہ محکمے اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ضمن میں چند سوالات جن کے جوابات ضروری ہیں: جعلی کمپنیوں کو رجسٹر کرنے میں ایس ای سی پی کا کردار کیا رہا؟ جب اتنی بڑی رقوم بینکوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئیں، تو کیا اسٹیٹ بینک نے اپنی نگرانی کی ذمے داری ادا کی؟ کیا ایف آئی اے نے اس معاملے پر کوئی سنجیدہ تحقیقات کیں؟ یہ ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے فوری طور پر جامع تحقیقات کریں، ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں، اور آئندہ کے لیے ایسی مالی بدعنوانی کو روکنے کے مؤثر اقدامات کریں۔ بصورت دیگر پاکستان کی معیشت مزید کمزور ہوگی اور عوام کا مالیاتی نظام پر اعتماد ختم ہوتا چلا جائے گا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ارب روپے کی

پڑھیں:

وفاقی بجٹ کے اہم نکات سامنے آگئے، ذرائع

آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہم نکات سامنے آگئے، قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 8207 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق دفاع کے لیے2550 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، حکومتی نظام چلانے کے اخراجات کے لیے971 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ پنشنز کی ادائیگی کے لیے1055 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، سبسڈیز کی مد میں 1186ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

گرانٹس کی مد میں 1928 ارب روپے رکھنے کی تجویز سامنے آئی ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ کے لیے ایک ہزار روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ہدف 14131ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5167 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

فیڈرل گروس ریونیو کا ہدف 19298 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جبکہ صوبوں کو محاصل کی منتقلی کا تخمینہ 8206 ارب روپے ہوگا، نیٹ فیڈرل ریونیو 11072 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہم نکات سامنے آگئے
  • وفاقی بجٹ کے اہم نکات سامنے آگئے، ذرائع
  • حکومت کے قرضے رواں مالی سال کے 9 ماہ میں 76 ہزار 7 ارب تک پہنچ گئے
  • نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز
  • رواں مالی سال ٹیکس چھوٹ کی مالیت 5 ہزار 840 ارب سے تجاوز کرگئی
  • پاکستان بزنس فورم کا اگلے مالی سال میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
  • نیا مالی سال؛ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ، قرض ادائیگی پر 6200 ارب خرچ ہوں گے
  • رواں مالی سال میں معیشت کی رفتار سست، اہم اہداف حاصل نہ ہو سکے
  • حکومت معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام، قومی اقتصادی سروے کل جاری کیا جائے گا
  • مالی سال 2025-26 میں بجلی مہنگی ہونے کا امکان