پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے سائے
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد رہی، جو 2023 کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے، ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30 لاکھ مزید پاکستانی غربت کا شکار ہو گئے۔ اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام اور آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیئٹیو کی جانب سے جاری کر دہ نئے غربت انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 47 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس کے بعد ایتھوپیا، نائیجیریا اور جمہوریہ کانگو کا نمبر آتا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’پاورٹی پروجیکشنز فار پاکستان: ناؤ کاسٹنگ اینڈ فورکاسٹنگ‘ کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں غربت 21.
حقیقت میں پاکستان غربت کے مسلسل بحران سے دوچار ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کی تقریباً 39 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی وجوہات کے بارے میں بات کریں تو آمدنی میں تفاوت اور ملازمت کے محدود مواقع غربت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ملکی آبادی میں تیزی سے اضافہ وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ڈالتا ہے۔تعلیم اور ہنر کی کمی ناکافی تعلیم اور ہنر روزگار اور معاشی نقل و حرکت میں رکاوٹ ہیں۔زرعی شعبہ، جس میں افرادی قوت کا ایک اہم حصہ کام کرتا ہے، موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔ کمزور ادارے، بدعنوانی اور ناقص گورننس معاشی ترقی اور سماجی بہبود کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک دستاویز کے مطابق جس میں پاکستان کی سی پی آئی کی درجہ بندی اور 1996 سے 2024 تک کے اسکورز کو درج کیا گیا، اس کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں ملک کا اسکور 27 سے 33 پوائنٹس کے درمیان رہا، (زیادہ اسکور کا مطلب کم بدعنوانی ہے)۔تقریباً 6 ارب 80 کروڑ افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں، جہاں کرپشن پرسیپشن انڈیکس اسکور 50 سے کم ہے۔
حکومتی سطح پر دیکھیں تو 2019 میں غربت کے خاتمے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا، جس میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی بہبود پر توجہ دی گئی۔
پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ نامی پروگرام جس کا مقصد پسماندہ کمیونٹیز کو مائیکرو فنانس اور ذریعہ معاش کی مدد فراہم کرنا ہے۔نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کے ذریعے زرعی پیداوار کو بڑھانے، پانی کے انتظام کو بہتر بنانے، اور دیہی معاش کو بڑھانے کے لیے شامل ہے۔ پاکستان کو غربت میں کمی کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت میں کمی کے لیے تعلیم اور اسکلز ڈویلپمنٹ پر کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرکے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر اور بہت سی نجی کمپنیاں CSR کے اقدامات جیسے کہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور پیشہ ورانہ تربیت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے سماجی ادارے، جیسے مائیکرو فنانس ادارے اور سماجی اثر بانڈز ابھر رہے ہیں۔غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) ،پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی اور ایدھی فاؤنڈیشن جیسی این جی اوز پسماندہ کمیونٹیز کو انسانی امداد، تعلیم اور صحت کے معاملات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ کمیونٹی پر مبنی تنظیمیں، جیسے ویلج کونسلز اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کمیٹیاں، سماجی ہم آہنگی، تعلیم اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
پاکستان کو غربت کے خاتمے یا اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون بھی حاصل ہے جیسے کہ اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (UNDP)جو غربت میں کمی کے پروگراموں کو نافذ کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک غربت میں کمی اور معاشی ترقی میں مدد کے لیے پاکستان کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) پاکستان کو غربت میں کمی، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے قرضے اور گرانٹ فراہم کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا کے تحفظ اور اس کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے جو ترقیاتی اہداف مقرر کیے ہیں ان میں 2030 تک غربت کا خاتمہ شامل ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں غربت کی شرح میں اضافے کو کم کرنا اور یومیہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندگی بسر کرنے والے کروڑوں لوگوں کو 14 ارب ڈالر سے تھوڑی زیادہ رقم سے غربت سے نکالنا ممکن ہے۔
یہ پاکستان میں غربت میں کمی سے متعلق اقدامات اور اور ان کو درپیش چیلنجز کی چند مثالیں ہیں۔ ایک اہم ترین مسئلہ جسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ مخصوص مذہبی اشرافیہ کی جانب سے غربت کو ایک فینسٹی کا روپ دینا ہے کہ امراء اور اشرافیہ دولت کی زیادتی کی وجہ سے نہ چین سے سو پاتے ہیں اور نہ ہی بیماریوں کی وجہ سے کچھ کھا پاتے ہیں۔ اس لیے صبر شکر کی عادت کو اپنائیں جبکہ شرعی نکتہ نظر سے ” فلسفہ قناعت” ایک بہت بڑا موضوع ہے ، جس پر کسی اگلے کالم میں بحث کریں گے۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے لیکن حکومت، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی اجتماعی کوششوں سے پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے میں پیش رفت ممکن ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان میں غربت اقوام متحدہ کرنے کے لیے پاکستان کو میں کمی کے تعلیم اور اور معاشی کے مطابق فراہم کر غربت کے غربت کی کام کر کے بعد
پڑھیں:
ایکسپورٹ میں کمی، ٹیکسٹائل سیکٹر برآمدی بحران سے دوچار، مزید یونٹس کی بندش کا خطرہ
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اکتوبر2025ء) پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (PTC) اور دیگر رہنماؤں نے برآمدات میں تیزی سے کمی، فیکٹریوں کی بندش اور بڑھتے ہوئے اخراجات پر خطرے کی گھنٹی بجا دی، جس سے ملک کے معاشی استحکام کو خطرہ ہے اور ستمبر میں برآمدات میں سال بہ سال تقریباً 12 فیصد کی کمی ہوئی، مالی سال 26 کی پہلی سہ ماہی کی آمدنی 3.83 فیصد کم ہو کر 7.61 بلین ڈالر رہ گئی، جب کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور بڑھتی ہوئی درآمدات بیرونی کھاتوں پر مزید دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق پی ٹی سی کے چیئرمین فواد انور، کے سی سی آئی کے سابق صدر جاوید بلوانی اور صنعت کار زبیر موتی والا سمیت صنعت کے سٹیک ہولڈرز نے خبردار کیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں کے تعین، ٹیکس لگانے اور سہولت کاری کی سکیموں میں فوری اصلاحات کے بغیر پاکستان کو اپنے علاقائی حریفوں بنگلہ دیش، بھارت اور ویتنام سے مسابقتی برتری کھونے کا خطرہ ہے، ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن سکیم (EFS) کا اچانک خاتمہ، جس کے ساتھ ساتھ توانائی کے ریکارڈ بلند نرخوں اور بگڑتے ہوئے انفراسٹرکچر کو پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا گیا ہے۔(جاری ہے)
اس حوالے سے ایک بیان میں پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (PTC) نے مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی سامان کی برآمدات میں 3.83 فیصد کی کمی پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جس نے ملک کے معاشی منظرنامے کے لیے سرخ جھنڈا بلند کیا، پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق جولائی اور ستمبر کے دوران مجموعی برآمدات 7.61 بلین ڈالر رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 7.91 بلین ڈالر تھی، صرف ستمبر میں برآمدات 11.71 فیصد سال بہ سال گر کر 2.51 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ بتایا گیا ہے کہ برآمدات میں یہ مسلسل کمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کو بھی بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا سامنا ہے، جو پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر 9.37 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال 7.05 بلین ڈالر تھا، درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ ہوا، جس سے بیرونی کھاتوں پر دباؤ بڑھ گیا، ٹیکسٹائل سیکٹر جو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی انجن ہے عالمی طلب میں کمی اور بڑھتی ہوئی گھریلو لاگت دونوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اس پس منظر میں، صنعتی بندش اور کثیر القومی اخراج کا سلسلہ پاکستان کے مسابقتی بحران کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے، گل احمد ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ نے حال ہی میں اپنے برآمدی ملبوسات کے حصے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں کثیر ان پٹ لاگت، ٹیکس میں تبدیلی اور سخت علاقائی مسابقت سے مسلسل نقصانات کا حوالہ دیا گیا ہے، ملبوسات کے شعبے میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اور اس کی بندش اس دباؤ کی سخت وارننگ ہے جو مارکیٹ کے لیڈروں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ کے سی سی آئی کے سابق صدر نے کہا کہ ’پاکستان بھر میں مزید ٹیکسٹائل یونٹس بند ہونے کے دہانے پر ہیں کیوں کہ صنعتیں خسارے میں چل رہی ہیں‘، انہوں نے پالیسی سازی میں اہم سٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کرنے اور معمولی سٹیک ہولڈرز یا مکمل طور پر غیر متعلقہ لوگوں سے بات کرنے پر حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ ’برآمدات میں کے سی سی آئی کے 54 فیصد اور قومی ٹیکس کی بنیاد میں 66 فیصد کے شراکت کی باوجود ہمیں کسی بھی پالیسی سازی کے عمل میں نہیں سنا جاتا‘۔ معروف صنعت کار زبیر موتی والا نے کہا کہ ’برآمدات کے گرنے کا براہ راست تعلق ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن سکیم کی واپسی سے ہے، حقیقی حل صرف ای ایف ایس کی بحالی ہے اگر کوئی قانونی مسئلہ تھا تو اسے درست کیا جانا چاہیئے ختم نہیں، گل احمد کے برآمدی ملبوسات کے یونٹ کی حالیہ بندش برآمدات میں سہولت کاری کے اقدامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بحران صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں ہے، حالیہ مہینوں میں پراکٹر اینڈ گیمبل، مائیکروسافٹ، شیل، ٹوٹل انرجی، فائزر، سنوفی اور کریم جیسے عالمی ادارے یا تو پاکستان میں کام چھوڑ چکے ہیں یا نمایاں طور پر کم کر چکے ہیں، اس کے پیش نظر پی ٹی سی نے بار بار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسابقت کی بحالی کے لیے فوری اصلاحی اقدامات کرے۔ پی ٹی سی چیئرمین نے خبردار کیا کہ ’اگر فوری اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پاکستان کو برآمدات پر مبنی یونٹس کی مزید بندش اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ ہے، اس کا مطلب ناصرف ملازمتوں میں کمی اور صنعتی بندش ہو گی بلکہ پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی میں بھی ایک ایسے وقت میں زبردست کمی ہوگی جب ملک اس طرح کے جھٹکے برداشت نہیں کر سکتا۔