Nai Baat:
2025-04-25@11:46:01 GMT

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے سائے

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے سائے

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد رہی، جو 2023 کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے، ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30 لاکھ مزید پاکستانی غربت کا شکار ہو گئے۔ اقوام متحدہ ڈیولپمنٹ پروگرام اور آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیئٹیو کی جانب سے جاری کر دہ نئے غربت انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 47 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس کے بعد ایتھوپیا، نائیجیریا اور جمہوریہ کانگو کا نمبر آتا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ’پاورٹی پروجیکشنز فار پاکستان: ناؤ کاسٹنگ اینڈ فورکاسٹنگ‘ کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں غربت 21.

9 فیصد سے بڑھ کر کووڈ 19 بحران کے دوران 24.6 فیصد ہوگئی تھی، کووڈ 19 کے وبائی امراض کے اہم اثرات گزرنے کے بعد، پاکستان نے وبائی امراض کے بعد بحالی دیکھی، جہاں غربت میں مسلسل 2 سال تک کمی آئی اور مالی سال 2022 میں یہ 17.1 تک پہنچ گئی۔ تاہم مالی سال 2023 کے آغاز میں تباہ کن سیلاب نے انفراء اسٹرکچر کو تباہ کر دیا اور زرعی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ ریکارڈ افراط زر کی سطح اور معاشی بحران کی وجہ سے غربت میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا۔2019 میں 21.9 فیصد کی بنیادی شرح، وبائی امراض کے اختتام پر غربت میں بالترتیب 24.9 فیصد اور 25.3 فیصد تک اضافے کا تخمینہ لگایا گیا، 2020 اور 2023 میں اعلیٰ افراط زر کے عرصے کے دوران، جو بحالی کا عرصہ تھا حالانکہ پیشنگوئی کی گئی تھی کہ معیشت کی بحالی کے بعد 2025 تک غربت کی شرح کم ہو کر 18.7 فیصد رہ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

حقیقت میں پاکستان غربت کے مسلسل بحران سے دوچار ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کی تقریباً 39 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی وجوہات کے بارے میں بات کریں تو آمدنی میں تفاوت اور ملازمت کے محدود مواقع غربت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ملکی آبادی میں تیزی سے اضافہ وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ڈالتا ہے۔تعلیم اور ہنر کی کمی ناکافی تعلیم اور ہنر روزگار اور معاشی نقل و حرکت میں رکاوٹ ہیں۔زرعی شعبہ، جس میں افرادی قوت کا ایک اہم حصہ کام کرتا ہے، موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔ کمزور ادارے، بدعنوانی اور ناقص گورننس معاشی ترقی اور سماجی بہبود کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک دستاویز کے مطابق جس میں پاکستان کی سی پی آئی کی درجہ بندی اور 1996 سے 2024 تک کے اسکورز کو درج کیا گیا، اس کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں ملک کا اسکور 27 سے 33 پوائنٹس کے درمیان رہا، (زیادہ اسکور کا مطلب کم بدعنوانی ہے)۔تقریباً 6 ارب 80 کروڑ افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں، جہاں کرپشن پرسیپشن انڈیکس اسکور 50 سے کم ہے۔

حکومتی سطح پر دیکھیں تو 2019 میں غربت کے خاتمے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا، جس میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی بہبود پر توجہ دی گئی۔
پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ نامی پروگرام جس کا مقصد پسماندہ کمیونٹیز کو مائیکرو فنانس اور ذریعہ معاش کی مدد فراہم کرنا ہے۔نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی پروگرام کے ذریعے زرعی پیداوار کو بڑھانے، پانی کے انتظام کو بہتر بنانے، اور دیہی معاش کو بڑھانے کے لیے شامل ہے۔ پاکستان کو غربت میں کمی کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت میں کمی کے لیے تعلیم اور اسکلز ڈویلپمنٹ پر کام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرکے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر اور بہت سی نجی کمپنیاں CSR کے اقدامات جیسے کہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور پیشہ ورانہ تربیت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے سماجی ادارے، جیسے مائیکرو فنانس ادارے اور سماجی اثر بانڈز ابھر رہے ہیں۔غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) ،پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی اور ایدھی فاؤنڈیشن جیسی این جی اوز پسماندہ کمیونٹیز کو انسانی امداد، تعلیم اور صحت کے معاملات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ کمیونٹی پر مبنی تنظیمیں، جیسے ویلج کونسلز اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کمیٹیاں، سماجی ہم آہنگی، تعلیم اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
پاکستان کو غربت کے خاتمے یا اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون بھی حاصل ہے جیسے کہ اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (UNDP)جو غربت میں کمی کے پروگراموں کو نافذ کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک غربت میں کمی اور معاشی ترقی میں مدد کے لیے پاکستان کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) پاکستان کو غربت میں کمی، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے قرضے اور گرانٹ فراہم کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا کے تحفظ اور اس کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے جو ترقیاتی اہداف مقرر کیے ہیں ان میں 2030 تک غربت کا خاتمہ شامل ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں غربت کی شرح میں اضافے کو کم کرنا اور یومیہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندگی بسر کرنے والے کروڑوں لوگوں کو 14 ارب ڈالر سے تھوڑی زیادہ رقم سے غربت سے نکالنا ممکن ہے۔

یہ پاکستان میں غربت میں کمی سے متعلق اقدامات اور اور ان کو درپیش چیلنجز کی چند مثالیں ہیں۔ ایک اہم ترین مسئلہ جسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ مخصوص مذہبی اشرافیہ کی جانب سے غربت کو ایک فینسٹی کا روپ دینا ہے کہ امراء اور اشرافیہ دولت کی زیادتی کی وجہ سے نہ چین سے سو پاتے ہیں اور نہ ہی بیماریوں کی وجہ سے کچھ کھا پاتے ہیں۔ اس لیے صبر شکر کی عادت کو اپنائیں جبکہ شرعی نکتہ نظر سے ” فلسفہ قناعت” ایک بہت بڑا موضوع ہے ، جس پر کسی اگلے کالم میں بحث کریں گے۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے پر ابھی بہت کام کرنا باقی ہے لیکن حکومت، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی اجتماعی کوششوں سے پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے میں پیش رفت ممکن ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان میں غربت اقوام متحدہ کرنے کے لیے پاکستان کو میں کمی کے تعلیم اور اور معاشی کے مطابق فراہم کر غربت کے غربت کی کام کر کے بعد

پڑھیں:

دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ

پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انڈیا نے اگر جارحیت کی ناپاک جسارت کی تو پاک فوج ایسا جواب دے گی کہ بھارتی فوج کی چتائیں جلانے کے لئے بھی کوئی نہیں بچے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انڈیا نے اگر جارحیت کی ناپاک جسارت کی تو پاک فوج ایسا جواب دے گی کہ بھارتی فوج کی چتائیں جلانے کے لئے بھی کوئی نہیں بچے گا۔ پاکستان اتنی طاقت رکھتا ہے کہ انڈیا جیسے ملک کو دنیا کے نقشے سے مٹایا جا سکتا ہے۔ انڈیا ہمیشہ اپنی سکیورٹی فورسز کی ناکامی پر پاکستان پر جھوٹے الزامات لگاتا آ رہا ہے۔ پہلگام واقعے کا پاکستان سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان خود ایک طویل عرصے سے دہشگردی کا شکار رہا ہے ایسے میں مقبوضہ کشمیر یا بھارت کے اندر ہونے والے واقعات کو پاکستان سے جوڑنا سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس بنیاد پر سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ انکی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، دفاعِ وطن کے لئے پاکستان کا ہر فرد سربکف مجاہد ہے۔ اگر کوئی ناپاک جسارت کی گئی تو پاک فوج کے ساتھ مل کر ایسا منہ توڑ جواب دینگے کہ بھارتی فوج کو چتا جلانے والا نہیں ملے گا۔ پاکستان جارحیت کے بجائے امن کا خواہاں ہے لیکن پاکستان کے دفاع کے لئے گلگت بلتستان کا ایک ایک فرد تیار کھڑا ہے۔

امجد حسین ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مودی بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر اربوں لوگوں کی زندگی داؤ پر لگانے سے باز رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی دی ہوئی ایٹمی صلاحیت اور بے نظیر بھٹو شہید کی دی ہوئی میزائل ٹیکنالوجی کی بدولت ارضِ پاک کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔دنیا کی مانی ہوئی بہادر ترین پاک فوج کسی بھی دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قوم کو اپنی افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور بہترین جنگی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اور قوم کا ہر فرد پاک فوج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے۔گزشتہ ادوار میں پاک فوج نے انڈیا کو ہر جارحیت کا دندان شکن جواب دیا ہے اس سے مودی کو عبرت حاصل کرنا چاہئے۔ 1965ء میں دوپہر کا کھانا لاہور میں کھانے کا خواب جس طرح چکنا چور ہوا تھا اور بھارت کو شکستِ فاش ہوئی تھی، اس بار اگر کوئی مس ایڈونچر کی کوشش کی گئی تو بزدل دشمن کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ جنگ کا لفظ سن کر ہی بھارتی فوج کے پسینے چھوٹ پڑیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا، خواجہ سعد رفیق
  • خدا نخواستہ جنگ ہوئی تو یہ پاکستان اور بھارت نہیں پورے خطے میں پھیلے گی، فیصل واوڈا
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • قومی ایئر لائن کے51 سے 100 فیصد شیئرز فروخت کرنے کا فیصلہ
  • حکومت کا بڑا فیصلہ، پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے خوشخبری
  • حکومت کا بڑا فیصلہ، پراپرٹی خریدانے والوں کیلئے خوشخبری
  • کاشتکاروں سے 25 فیصد گندم نہ خریدنے والی فلور ملز کا لائسنس منسوخ ہوگا
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
  • مریم نواز کے بیٹے جنید کی شادی کی ناکام کیوں ہوئی؟ شادی میں فوٹوگرافی کرنے والے عرفان احسن نے تقریب کا آنکھوں دیکھا حال سنا دیا 
  • لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا